نامزدگورنر پنجاب نے کیا عجیب فرمایا کہ گورنر ہائوسز گرانے کی بات ہم نے نہیں کی‘ یہ تو میڈیا نے کی۔

یعنی اپنے قائد عمران خان کا نام’’میڈیا‘‘ رکھ دیا؟بہت پہلے کی بات تو نہیں ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں بڑے صاف لفظوں میں خان نے کہا اور اردو میں کہا‘عبرانی میں نہیں کہا کہ الیکشن جس روز جیتیں گے اسی روز بلڈوزر روانہ کر دیں گے تاکہ یہ وزیر اعظم ہائوس اور گورنر ہائوس اور وزیر اعلیٰ ہائوس گرا دیں اور پچھلے برسوں کے دوران بھی کبھی جلسے میں تو کبھی پریس ٹاک میں یہ بات بار بار فرمائی۔

اب گرانے کی باری آئی تو نیت بدل گئی شاید اس لیے بات بھی بدل دی۔ خان کو میڈیا قرار دینے سے کہیں بہتر تھا کہ یوں فرما دیتے کہ ارے بھائی وہ تو سیاسی بیان تھا۔

یہ ہائوسز کیا ہیں جادونگریاں ہیں۔ نئے مکین بستے بعد میں ہیں جادو کی جکڑ میں پہلے آتے ہیں۔ ان بڑے بڑے ایوانوں کے گرنے کے منتظر نچنت رہیں۔ انہیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔ الٹا ان کی آرائش پہلے سے بڑھ کر ہو گی۔ نئی نئی مرسٹڈیز اور بی ایم ڈبلیوز آ رہی ہیں۔ پروٹوکول ایسا ہو گا کہ رومن امپائر کے آخری زمانے کے ایمپرر بھی دیکھ پائیں تو احساس کمتری کے مارے دم گھٹ جائے۔

٭٭٭٭٭

پیپلز پارٹی شہباز شریف کو اپوزیشن لیڈر (یعنی امیدوار برائے وزیر اعظم)نہیں مان رہی۔ اس سے پہلے جب گرینڈ اپوزیشن(نان) الائنس بنا تھا تو اپوزیشن کے امیدوار کے طور پر شہباز کا نام اتفاق رائے سے آیا تھا۔ اس اتفاق سے پیپلز پارٹی کا اب عدم اتفاق محض اتفاق کی بات نہیں۔ ایک کھلا راز ہے جس کے راز دان سب عوام ہیں۔ عوام سے مراد مجبور تماشائی۔ بازار کا تماشائی مرضی کاہوتا ہے جب چاہے تماشا چھوڑ کر اپنی راہ پکڑ لے۔ یہاں ہر کوئی پابند ہے ‘ پسند آئے نہ آئے تماشا اخیر تک دیکھنا ہو گا۔

راز کیا ہے‘ پیغامات کا تار مسلسل ہے انور مجید کی گرفتاری پیغام نہیں‘ یاددہانی ہے۔ جے آئی ٹی کی تشکیل کا امکان ظاہر کیا گیا تھا تو پیغام ہی کا اعادہ کیا گیا تھا۔ یعنی اس میثاق سنجرانیت‘ پر قائم رہو جو سینٹ الیکشن کے موقع پر غیر مرئی لیکن انمٹ سیاہی والے دستخطوں سے ہوا تھا۔ ادھر زرداری صاحب کے جوابی پیغامات جا رہے ہیں کہ میں قائم ہوں سائیں۔ بلوچ بندہ ہوں‘ بات کا پکا ہوں‘ جب کہہ دیا کہ تابعدار ہوں تو بس تابعدار ہوں۔ شک کیوں کرتے ہو سائیں۔ اس طرح ڈراتے کیوں ہو سائیں۔

زرداری صاحب کی یقین دہانیاں قول و قرار کی تجدید اپنی جگہ لیکن ’’میثاق سنجرانیت‘‘ کے ضامنوں کا وہم اپنی جگہ معاملہ پکا ہونا کافی نہیں ہے سائیں۔ معاملے کو برابر پکا رکھنا بھی ضروری ہے سائیں۔ بات سمجھ میں آئی سائیں؟ جمے رہنا سائیں ورنہ ہلا دیں گے سائیں!

٭٭٭٭٭

جو بھی ہو‘ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اصولی پوزیشن نہیں بدلی۔ مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی عملی پوزیشن البتہ ادلی بدلی ہوگئی ہے۔

یعنی مسلم لیگ کی جگہ تحریک انصاف آ گئی۔ تحریک انصاف کی جگہ پیپلز پارٹی نے لے لی۔ پیپلز پارٹی جہاں تھی وہیں رہی۔

یعنی اندر کا نقشہ وہی رہا‘ باہر کی فضا یکسر الٹ ہے۔ جب تحریک انصاف مسلم لیگی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے زور لگاتی تھی تو عناصر قدرت اس کے ساتھ تھے۔ اب مسلم لیگ بے چاری دھڑن تختہ تو کیا کرے گی۔ تھوڑی سی چوں ‘ تھوڑی سی چراں کرے گی تو عناصر قدرت اس کا ساتھ دینے کے بجائے اسی کا گلا دبوچ لیں گے بلکہ دبوچ رکھا ہے۔ مزید دبوچ لیں گے اور کسی کو چوں سنائی دے گی نہ چراں۔ میڈیا بالکل آزاد ہے اور عناصر قدرت کے ساتھ ہے۔ چوں چراں کی جھلک چنانچہ سوشل میڈیا پر آ جائے تو آ جائے‘ مین سٹریم میڈیا پر لاپتہ ہی رہے گی۔

چلئے اس بہانے ایک نئی روایت مستحکم ہوئی۔ پچھلی حکومت میں بھی دو اپوزیشنیں تھیں ایک خورشید شاہ والی ایک عمران خان والی۔ اس بار بھی دو اپوزیشنیں رہیں گی۔ ایک مسلم لیگ کی دوجی وہی خورشید شاہ والی۔

٭٭٭٭٭

ایک سینئر صحافی باراں دیدہ نے یوم آزادی کی اشاعت میں جو کالم لکھا اس کی دو سطریں کسی نے سوشل میڈیا پر اب لوڈ کر دیں۔ یوں بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی ان کے افکار سے واقفیت کی سعادت مل گئی۔ دو سطریں دو عظیم انکشافات۔

دو سطروں کا ایک سطری خلاصہ یہ ہے کہ مرحوم ضیاء الحق نے سوویت یونین کو توڑ کر 1971ء میں پاکستان دولخت ہونے کا بدلہ لے لیا۔ بخدا یہ الوہی دانش ہے‘ الوہی ! آتے ہیں ’’غیب‘‘ سے یہ مضامین خیال میں۔

پہلی حقیقت یہ کہ سوویت یونین کو ضیاء الحق یعنی پاکستان نے توڑا۔ دوسری یہ کہ یہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا بدلہ تھا۔

کس میں جرات ہے وہ ان دونوں حقیقتوں کو ماننے سے انکار کرے اور ملک دشمنی کا طوق گلے میں ڈلوائے۔یہ الگ بات ہے کہ تاریخ کچھ اور بتاتی ہے اور اس کے بالکل برعکس‘ شاید اس لیے کہ تاریخ کو کسی کے خون کا ڈر نہیں ہوتا یا شاید اس لیے کہ ہمارے ہاں تاریخ کو پوچھتا کون ہے۔

بہرحال تاریخ بتاتی ہے کہ امریکہ نے سوویت یونین کو توڑا اور اس غرض کے لیے چار ’’آلات‘‘استعمال کئے۔ اپنے ہتھیار‘ اپنا اور عربوں کا پیسہ افغان مجاہدین اور پاکستان کی سہولت کاری۔

جنگ افغانوں نے لڑی‘ پیسہ امریکہ اور عربوں کا تھا‘ ہتھیار امریکہ کے تھے‘ پاکستان نے ان کو محفوظ اڈے دیے اور سی آئی اے سے ملنے والے ہتھیاروں اور اسلحہ کی مجاہدین میں تقسیم کاری کی۔ اسے ہم اپنا کارنامہ کہہ سکتے ہیں تو یہ حق اس کلہاڑی کو بھی ہے جو درخت کاٹتی ہے۔اگرچہ آج تک کسی نے کسی درخت کے کٹنے کی ذمہ داری کلہاڑی پر نہیں ڈالی۔ جب بھی ڈالی کلہاڑی والے پر ڈالی۔

اور بھارت کا بدلہ سوویت یونین سے لیا۔ ’’بدلہ فہمی‘‘کی تاریخ میں یکتا مثال ہے۔ خود یہ صحافی اور ان کے ہم خیال بتاتے رہے ہیں کہ پاکستان کو بھارت نے توڑا اور اب بتا رہے ہیں کہ بدلہ سوویت یونین سے لیا۔ بھارت سے کیوں نہ لیا؟ اسے تو سیاچن کا تحفہ دیا جہاں پر گھاس بھی نہیں اگتی تھی۔

سوویت یونین کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے پاکستان کو توڑا یا تڑوایا‘ اپنی جگہ ناقابل فہم ہے‘ سوویت یونین ہمیشہ پاکستان کا مخالف بلکہ دشمن رہا لیکن وہ پاکستان کی سالمیت کا حامی تھا۔ اس لیے کہ پاکستان کے خاتمے سے طاقت اسے نہیں‘ بھارت کو ملنی تھی اور طاقتور بھارت‘ جب خدانخواستہ پاکستان کا پتھر راستے سے ہٹ جاتا‘ روس کا محتاج کیوں رہتا۔ سوویت یونین کو امریکہ سے سرد جنگ کے زمانے میں بھارت کی سخت ضرورت تھی۔ وہ اس ضرورت سے محرومی کا متحمل کیسے ہوتا۔ وہ جانتا تھا کہ پاکستان ختم ہوا یا دو ٹکڑے ہو گیا تو پھر بھارت بتدریج اس سے دور ‘ امریکہ سے قریب ہوتا جائے گا(اور پھر یہی ہوا کہ نہیں؟)اسی لیے اس نے پاکستان کو بچانے کی کوشش کی۔ پولینڈ کے ذریعے قرار داد اقوام متحدہ میں پیش کرائی۔ پاس ہو جاتی تو سیاسی ڈائیلاگ ہوتا۔ پاکستان کو ایسی شرطیں ماننا پڑتیں جو اس وقت کی پنجابی اشرافیہ پسند نہیں کر سکتی تھی لیکن ان ناپسندیدہ شرطوں کے باوجود پاکستان بچ جاتا۔ مضبوط مرکز نہ سہی صحیح و سالم پاکستان سہی۔ ہم نے یہ قرار داد مسترد کر دی اور پاکستان سوویت یونین کی منشا کے برعکس‘امریکی منشا کے مطابق تڑوادیا۔

پاکستان میں نصابی کتب ایسے مصنفین سے لکھوائی جاتی رہی ہیں جو ’’ریاستی سچ‘‘ بولنے کی مہارت رکھتے ہوں۔ نصاب سے باہر غیر نصابی’’سچ‘‘ پھیلانے کے لیے بھی فنی ماہرین وافر دستیاب ہیں۔ جو سچ اوپر بتائے گئے وہ انہی ماہرین کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔ ورنہ تاریخ کا ایک ورق اور بھی ہے جو بتاتا ہے کہ 1965ء میں جب ہم مشکل میں تھے تو امریکہ نے نہیں‘ سوویت یونین نے ہماری مشکل دور کی‘بذریعہ تاشقند۔

اب اس قسم کے سچ بازار میں اسی کثرت سے دستیاب ہوں گے جیسے کھلونا منڈی میں چینی کھلونے‘ الیکٹرانک کی دکانوں میں چینی موبائل اور دوسرے آلات۔