ان کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ روشن تھا، جگمگ، جگمگ، جگمگ، جگمگ۔ ٹویٹ میں غلطی ہو گئی۔میرا نہیں،یہ ایک باخبر اوردانا آدمی کا خیال ہے کہ پابندیاں تو لگیں گی مگر زیادہ نہیں۔ ٹویٹ میں یہی لکھنا چاہئیے تھا مگر وہ داد پانے کی تمنا، شعوری نہیں تو لاشعوری طور پر لازماً کارفرما ہوتی ہے۔ غیر حاضر دماغی اس میں اعانت کرتی ہے؛چنانچہ وصف نہیں، یہ عیب ہے۔ امام غزالی ؒنے لکھا ہے: آخری خواہش جو صوفی کے سینے سے رخصت ہوتی ہے، وہ ستائش کی آرزو ہے۔ نمازِ فجر کے لیے امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ گھر سے نکلے تو خارجی نے خنجر کا وار کیا۔ بے ساختہ ان کی زبان سے نکلا ’’فزت برب الکعبہ‘‘ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ دو نکات آشکار ہیں۔ اوّل یہ کہ ذہنی طور پر آپؓتیار تھے۔دوسرے خیرہ کن ادراک کا جلیل القدر مردِ مومن بہرہ ور تھا کہ آخری سانس تک زندگی آزمائش ہے۔زندگی ختم ہو گئی،شہادت کا اعزاز پا لیا۔عمر بھر کم از کم پہ بسر کی تھی۔ حیات تمام ہوئی تو کامیابی کا یقین ایقان میں ڈھلا۔جگمگ، جگمگ، جگمگ، جگمگ۔ سرکارؐ کے رفیق اپنی خامیوں پہ غور کیا کرتے، خوبیوں پر نہیں۔ سیدنا علی المرتضیٰ ؓ میں کون سی خامی تھی؟ ظاہر ہے کہ قطعاً کوئی نہیں۔ ان کے معیارات مگر مختلف تھے۔ اوصاف ِ اہلِ مرتبہ کے باب میں، قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: جب کو ئی ادنیٰ خیال ان کے ذہن میں اٹھے تو وہ چونک اٹھتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ مومن اسے اٹھا پھینکتا ہے۔ جبلتوں کے تعامل کو ان سے زیادہ کون جانتا تھا۔ رحمتہ اللعالمین ؐکو اہلِ کمال ہمہ وقت یاد رکھتے۔ آپؐ کے ارشادات میں سے ایک یہ ہے:ایک فرشتہ آدمی کی طرف وحی کرتاہے اور ایک شیطان۔ شیطان کیا بے اختیار ہے؟جی نہیں، بہت علم اسے بخشا گیا۔ خیالات کی کائنات میں پوری طرح وہ آزاد ہے۔ آدم زاد کو کروڑوں برس سے وہ جانتا تھا۔ اس کی جبلتوں کو، اس کی کمزوریوں کو۔ 7.8ارب انسانوں میں سے ہر ایک کو خوب وہ پہچانتا ہے۔ اس کی ماں، اس کا باپ، اس کے دادا دادی تابہ ہزار پشت۔ کون اس سے بچ سکتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: وہ جو سچائی کے علاوہ صبر کے خوگر بھی ہوں۔ وہ جو ایمان رکھتے ہوں اور ان کا ایمان عمل میں ڈھلتا رہے۔ عارف سے پوچھا گیا: شیطان آدمی کو گمراہ کرتاہے یا اس کا نفس۔ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے، جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔ علامہ اقبالؔ کی وفات کا علم سید ابو الاعلیٰ مودودی کو سفر کے ہنگام ہوا، جب وہ ان سے مل کر لوٹ رہے تھے۔ فوراً ہی جو مضمون جواں سال سکالر نے لکھا، اس کا مرکزی نکتہ قرآنِ کریم سے علمی مجدد کی والہانہ وابستگی تھا: قرآن ان کے لیے شاہ کلید تھا key Master ، ہر تالا جس سے کھل جاتا۔ جس فلسفے کے دو جام پی کر لوگ بہکنے لگتے ہیں، مرحوم اس کے سمندر پیے بیٹھا تھا۔ جوں جوں اس کی گہرائیوں میں اترتا گیا، قرآن پہ اس کا یقین پختہ تر ہو تا گیا۔ لگ بھگ تین عشرے اقبال ؔکی وفات کو بیت چکے تھے، ایک ادھیڑ عمرنیک طینت محقق نے آپ کے خادم علی بخش سے کہا: آپ جانتے ہیں، ہم توان کے مرید ہیں۔اس دانائے راز کی محبت کے اسیر۔ ہمیں تو بتا دو کہ کیا کبھی بادہ نوشی کے وہ مرتکب ہوئے۔ دنیا کو ہم نہیں بتائیں گے۔ علی بخش رو دیا۔ کہا: صبح کی طویل تلاوت کے سوا بھی قرآن پڑھا کرتے۔ ایک آدھ بار نہیں، چھ، سات، آٹھ بار مصحف منگواتے۔ دیکھتے رہتے؛حتیٰ کہ چہرے پر اطمینان اترآتا۔ قرن کریم وضو کے بغیر نہیں پڑھا جاتا۔ اس آدمی کا نام پروفیسر محمد منور تھا۔ جی ہاں وہی اچکن پوش اجلا اور کنفیوژن سے پاک آدمی۔ محقق مگر یہی ہوتا ہے۔ جو آدمی شک نہیں پالتا، آسمان سے خواہ تارے توڑ لائے، وہ دادِ تحقیق نہیں دے سکتا۔ برسبیل تذکرہ عمران خان کے باب میں یہی غلطی ہم سے سرزدہوئی۔ کئی بار معافی مانگ لینے کے باوجود، عمر بھر یہ طعنہ ہمیں سننا ہے۔ سننا چاہیے اور ہر بار معافی مانگنی چاہیے۔ ہر چند پروفیسر صاحب نے الیکش 2013 سے قبل ہی کپتان کو ترک کر ڈالا۔ اس کے باوجود بعض اوقات ان پہ اعتراض کیا جاتا۔ ان کا جواب ہمیشہ یہ ہوتا: ہم اللہ سے ہار گئے اور بندے کے اللہ سے ہارنے میں کیا ملال۔ جناب علی کرم اللہ وجہہ ایک بار پھر یاد آئے'' پروردگار کو میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا'' گرامی قدر استاد تھے اور اب نیک لوگوں کے درمیان مٹی اوڑھ کے سوئے پڑے ہیں۔ ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی تکلیف دیتا ہے۔ باایں ہمہ بعض بدبختوں کی پھیلائی غلط فہمی کی تردید تو خود اقبالؔ کے کلام میں ہے۔ زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی ان کے ایک فارسی شعر کا ترجمہ یہ ہے'' یا رب میری فکر کا سر چشمہ اگر قرآن نہیں تو روز جزا مجھے مصطفی ؐ کے بوسہ ء پا سے محروم کر دینا۔ کس آدمی نے یہ بات کہی؟ اس نے جو کہہ چکا تھا تو غنی از ہر دو عالم من فقیر روزِ محشر عذر ہاے من پذیر گر حسابم را تو بینی ناگزیر در نگاہ ِمصطفٰی پنہاں بگیر یا رب تو ہر دو جہاں سے بے نیاز اور میں فقیر۔ روز ِحشر معاف فرما دینا۔ حساب ہی لازم ٹھہرے تو مصطفی ؐ کی نگاہوں سے پوشیدہ رکھنا۔ کیسا کیسا آدمی اس مادر گیتی نے جنا ہے۔ قطعا کوئی ارادہ اقبالؔ پہ لکھنے کا نہیں تھا۔ اخبار نویس کی بساط ہی کیا۔ اس نے تو امریکی پابندیوں کے امکان اور ان کی ممکنہ حدود پہ اظہار کا ارادہ کیا تھا۔ ہوتا مگر یہ ہے کہ چاند کی چودھویں کو ستارے ماند پڑجاتے ہیں۔ آفتاب طلوع ہوتا ہے تو بس آفتاب ہی دکھائی دیتا ہے۔ عارف سے کسی نے پوچھا: مخلوق خالق کا دیدار کیوں نہیں کر سکتی؟ فرمایا: تاب ہی کون لا سکتا۔ 70 ہزار ناری اور ستر ہزارنوری پردے حائل رکھے ہیں۔ ہاں مگر ایک بارسرکارؐنے اسے دیکھا۔زمین کی گردش روک دی گئی۔ مدعو کیے گئے۔ دو کمانوں سے کم فاصلے پر براجمان۔ اپنے مضمون میں ایک عجیب بات ابو الاعلیٰ نے کہی: فرقہ ملامتیہ کے کچھ آثاراقبالؔ میں پائے جاتے تھے۔ اپنی مذمت پہ شاد ہوتے۔ یہاں تک کہہ دیا: اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا غازی تو یہ بنا کردار کا غازی بن نہ سکا گاہے سید صاحب ایسے معلم بھی مغالطے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ فرقہ ء ملامتیہ کا کوئی اثر ان پر نہ تھا۔ یہ انکسار تھا، سچا اور کھرا انکسار۔ ان کا باطن ان کے ظاہر سے زیادہ روشن تھا، جگمگ، جگمگ، جگمگ، جگمگ۔