15 ستمبر کو پٹرول کی قیمت 118روپے تیس پیسے تھی جو پانچ روپے کے اضافے کے ساتھ 123روپے تیس پیسے کر دی گئی۔ یکم اکتوبر کو 4 روپے کا اضافہ ہوا اور قیمت 127روپے تیس پیسے ہو گئی اور اب پندرہ دن بعد دس روپے کا اضافہ ہو گیا ہے اور قیمت اب 137روپے 79 پیسے تک بات چلی گئی ہے۔ صرف ایک مہینے میں 19 روپے اور 49 پیسے کا اضافہ ہو گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں صرف ایک ماہ میں16 اعشاریہ 47 فی صد اضافہ کوئی معمول کی بات نہیں۔ایک طرف حکومت افراط زر کو 10 فی صد سے کم مانتی ہے اب جب پٹرول کی قیمت میں 20 فی صد اضافہ ہوا ہے تو کرایہ میں 25 تا 30 فی صد اضافہ ہو گا۔جب کرایہ میں اضافہ ہوگا سبزی ، فروٹ کی قیمت میں لا محالہ اضافہ ہو گا اب مہنگائی کا وہ طوفان اٹھے گا جس کی نطیر پہلی کبھی نہیں ملتی۔پاکستان میں پٹرول کی قیمت 15 ستمبر 2020 کو 101 روپے 47 پیسے تھی۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ 36 فی صد کے قریب ہے سالانہ اور عالمی منڈی میں اضافہ 100 فی صد سے زیادہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں عالمی منڈی میں گزشتہ دو ماہ میں بہت اضافہ ہوا ہے خام تیل کی قیمت جو 20 اگست کو 63 ڈالر فی بیرل سے کم تھی اب 15 ستمبر کو 83 ڈالر کی حد عبور کر چکی ہے 55 دن میں خام تیل کی قیمتوں میں 32 فی صد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے اور اب خام تیل کی قیمت گزشتہ تین سال کی بلند ترین سطح پر ہیں ابھی خام تیل کی قیمت میں کسی کمی کا امکان نہیں ہے۔ کورونا کے دوران تیل کی کھپت میں بے تاشہ کمی ہوئی اور قیمت اپنی کم از کم قیمت پر آگئی تھی ایک وقت ایسا تھا جب تیل کی قیمت 20 اپریل 2020ء کو منفی میں چلی گئی تھی۔نومبر 2020ء میں خام تیل کی قیمت 40 ڈالر فی بیرل سے کم تھی جو اب 82 ڈالر فی بیرل تک چلی گئی ہے۔ دنیا میں تیل کی قیمت 100 فی صد سے زائد بڑھ چکی ہے اور پاکستان میں تیل کی قیمت 40 فی صد سے کم بڑھی ہے۔ پاکستان کے دو بڑے مسئلے ہیں ایک تو پاکستان کی تیل کی درامدات بہت ہیں۔ پاکستان نے 2019-2020 کے دوران ایک اعشاریہ 5 ارب ڈالر کی تیل کی درامدات تھی اور جولائی 2020 تا اگست 2021 میں یہ دو گنا ہو چکی تھی اور یہ تین ارب ڈالر کے حدف کو پورا کر چکی تھی۔ اب ایک تو تیل کا بل ہے اور دوسرا غیر ملکی قرضہ جو ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے پر پڑیں گے کرایہ بڑھے گا خوردنی اجناس کی قیمت بڑھے گی اور سیمنٹ کی قیمت بھی بڑھے گی ۔چارہ مہنگا ہو گا اور دودھ مہنگا ہو گا۔ کیونکہ ہرچیزیں پر تیل کی قیمت بڑھنے کا اثر پڑے گا۔ دوسری طرف ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے اس طرح پاکستان کے قرضہ میں اضافہ ہو رہا ہے درامدات کا بل زیادہ ہو رہا ہے۔ سب سے بڑا ایشو یہ ہے عام آدمی کی سمجھ میں یہ اعداد و شمار نہیں آتے ان کے خیال میں حکومت قیمت بڑھا رہی ہے اب اپوزیشن مہنگائی کے ایشو کو کیش کرا سکتی ہے۔ کوکنگ آئل کی قیمت میں 40 روپے فی لیٹر اضافہ ہو گیا۔ ادھر بھی یہی صورتحال ہے۔ سرسوں کی قیمت 2500 روپے فی من سے 5000 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے عالمی منڈی میں سن فلاور آئل کی قیمت ایک ہزار ڈالر فی میٹرک ٹن سے بڑھ کر 1444 ڈالر فی میٹرک ٹن ہو چکی ہے مئی میں اس کی قیمت 1680 ڈالر فی میٹرک ٹن تک پہنچ چکی تھی۔ اب جب عالمی منڈی میں خوردنی تیل کی قیمت بڑھے گی تو کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت بڑھے گی یوں اس کا بوجھ عوام پر پڑے گا اور حکومت کے لئے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے۔ ایک طرف مہنگائی کا جن ہے جو اب بے قابو ہو چکا ہے جس کو کنٹرول کرنا اب حکومت کے بس کی بات نہیں۔ عوام اب سڑکوں پر آسکتی ہے۔ اس میں اپوزیشن کو کوئی خاص کردار ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف افغانستان میں حالات ابھی معمول پر نہیں ہیں داعش کے دائرہ کار پھیلتا جارہا ہے۔ کابل میں بم دھماکے اس بات کا ثبوت ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اب وسطی ایشیا اور چین کا کاریڈور ابھی ایک داستان طلسم ہوشربا ہے۔ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا پاکستان میں سکون کی سانس نہیں آئے گی۔ بلوچستان میں جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد ابھی تک موجود ہے اگر بلوچستان میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو اسکے اثرات پاکستان پر ہونگے۔ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیاں خلیج گہری ہوتی نظر آرہی ہے۔ ڈائرکٹر جنرل آئی ایس آئی کی تقرری ابھی تک کہیں فائل میں گم ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ موروثی سیاست کی مخالفت کی ہے اب جمائمہ خان نے جو انٹرویو دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے عمران خاں کے بیٹے سلمان خاں اور قاسم خاں پاکستان کی سیاست میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ سلمان کی عمر 24 سال ہے اور وہ 2023 ء کا لیکشن لڑسکتا ہے۔ مستقبل کا سین یہ بھی ہو سکتا ہے مریم نواز، بلاول بھٹو اور قاسم خان اپنی اپنی پارٹی کو لیڈ کریں۔ امریکی سفیر کی مریم نواز اور شہباز شریف کے ساتھ الگ الگ ملاقات بھی روٹین کی بات نہیں ہے۔ سفیر پرویز الٰہی سے بھی ملی ہیں۔ امریکی افغانستان سے آرام سے دستبردار نہیں ہونگے انکے پاس لازمی کوئی بی پروگرام ہوگا اور ممکن ہے کوئی سی پروگرام بھی ہو۔ ابھی بلی تھیلے سے باہر نہیں نکلی لیکن تھیلے میں بلی ہے ضرور۔ بارش سے پہلے بادل ضرور ہوتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭