وزیر اعظم عمران خان کے بقول حالیہ دھرنے کو پر امن طریقے سے ختم کرنے میں کامیابی کی وجہ سے حکومتیں بچ گئیں ۔ وزیر اعظم کی طرف سے اس قسم کے بیان کے بعد بہت سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ دو بنیادی سوال یہ ہیں کہ کیا دھرنا حکومتیں گرانے کے لئے تھا؟ اگر نہیں تھا تو وزیر اعظم نے اتنا بڑا دعویٰ کس بنیاد پر کیا؟اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم ملک کی سب سے باخبر شخصیت ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ اس لئے جو دعویٰ یا بیان اس شخصیت سے منسوب ہوتا ہے اس میںکچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے۔اب وہ کونسی حقیقت ہے جس کی بنیاد پر یہ کہا جا رہا ہے۔ اس بارے میں قیاس آرائی کرنا اس لئے مناسب نہیں ہے کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے۔ لیکن سوچ کا دھارا بہہ نکلے تو اس کا کوئی کنارا نہیں ہوتا۔ اس پر سوچتے جائیے کہ حکومتیں کس طرح ختم ہو سکتی تھیں تو بہت سے ماضی کے معاملات ذہن میں آتے ہیں۔ جہاں اچھی خاصی رواں دواںاور مضبوط حکومتیں چشم زدن میں اپنے یا کسی کے دام میں آ گئیں اور گھر سدھار لیں۔اس حوالے سے گزشتہ صدی میں نو ّے کی دہائی خاصی بدنام رہی کیونکہ صدر کے پاس حکومت کو گھر بھیجنے کے اختیارات تھے ۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر ماحول فراہم کر دیتے تھے تا کہ صدر مملکت اپنے اختیارات کو استعمال کر سکیں۔ بقول منیر نیازی: کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی ایک دہائی یہ کام ہوتا رہا اور با لآخر اس کا خاتمہ جنرل مشرف کے ٹیک اوور نے کیا۔ اسکے بعد اب تک یہ چوتھی حکومت ہے۔ پہلی تین حکومتوں نے مدت ضرور پوری کی لیکن ان تینوں ادوار میں کسی وزیر اعظم نے مدت پوری نہیں کی۔ اگر وزیر اعظم عمران خان یہ کہتے کہ دھرنا اگر پر امن طریقے سے ختم نہ ہوتا تو وہ رخصت ہو جاتے تو کسی حد تک بات سمجھ آتی ہے۔ لیکن حکومتوں کے ختم ہونے کی بات ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں ضیا ء الحق کا مارشل لاء ہی وہ واحد مثال ہے جو ایک ایسی تحریک کی وجہ سے لگا جو بنیادی طور پر الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تھی لیکن اسے مذہبی رنگ دے دیا گیا تھا۔ جس وقت مارشل لاء لگا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان معاہدہ طے پا چکا تھا جس سے بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ سارا جھمیلا شاید اسی لئے تھا اور بعد کے واقعات بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ کچھ بین ا الاقوامی ضروریات پیدا ہو چکی تھیں جس کے لئے ون ونڈو آپریشن ہی بہتر تھا۔لیکن ابھی تو ایسی کوئی چیز دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ فوج مکمل طور پر جمہوری عمل کے ساتھ ہے ، خصوصاً موجودہ حکومت کے ساتھ تو بہت آئیڈیل معاملات چل رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر جو تقریر کی اس سے بھی واضح نظر آرہا تھا کہ مملکت کے تمام ادارے ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔ اس دبنگ تقریر کا ہر خاص وعام نے خیر مقدم کیا۔ اپوزیشن بھی اس مسئلے پر پوری طرح حکومت کے ساتھ کھڑی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ حکومت کو اس دھرنے کو پر امن طور پر ختم کرانے میں کامیابی ملی۔جب ساری قوم سوائے چند لوگوں کے حکومت کے ساتھ تھی تو یہ گمان بھی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ایک ٹولہ اٹھ کر حکومت نہیںحکومتوں کو گرا دے گا۔ ویسے سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس میں سندھ اور بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی شامل تھیں یا صرف پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی اور دو صوبائی حکومتیں ختم ہوتیں۔بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اس معاملے میں پیشگی اطلاع ہونے کے باوجود احتجاجی ٹولے کے زبان و بیان سے گھبرا گئی۔ جس طرح انہوں نے ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا اور جس قسم کے فتوے جاری کئے شاید حکومت اس کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ حکومت کا خیال ہو گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر احتجاج تو ضرور ہو گا لیکن اسکا براہ راست نشانہ وہ ریاستی ادارہ بھی ہو گا جس کا اس معاملے سے دور دورتک کوئی تعلق نہیں۔ممکن ہے یہ فوجی قیادت کے لئے بھی حیران کن ہو کہ ان کاذکر اس میں کہا ںسے آ گیا۔ اسی لئے شاید آرمی چیف نے فوراً وزیر اعظم سے ملاقات کی اور احتجاج کے اس پہلو پر سنجیدگی سے بات ہوئی ہو گی کیونکہ اگر اس قسم کا ٹرینڈ چل پڑے تو ہر معاملے میں حساس اداروں کو گھسیٹنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس صورتحال میں شدید تنائو پیدا ہو جانا فطری بات تھی۔ حالانکہ پورے ملک میں چند سو لوگوں نے احتجاج کیا ہو گالیکن بات حکومتیں ختم ہونے تک پہنچ گئی۔میں خود اس روز اسلام آباد سے بذریعہ موٹر وے گجرات جا رہاتھا۔ پورے راستے میں صرف پھالیہ کے مقام پر کوئی پچاس لوگوں نے سڑک کے بیچ میں ٹینٹ لگا کر راستہ روکا ہواتھا انہی کے لوگ اس جگہ سے چند گز پہلے کھڑے تھے اور گاڑیوں کو متبادل راستے کی طرف بھیج رہے تھے۔ یہی صورت واپسی پر تھی۔ صرف رات کو موٹر وے پرسفرکرنے کے لئے سالم انٹر چینج پر دو گھنٹے انتظار کرنا پڑا ،وہ بھی بقول موٹر وے پو لیس راستے میں جہاں اوور ہیڈ کراسنگز ہیں وہاں پر شر پسند کھڑے ہیں جو گاڑیوں پر پتھر پھینکتے ہیں۔جیسے ہی نصف شب ہوئی یہ لوگ غائب ہو گئے۔ بہر حال لمحہ فکریہ ہے کہ کوئی ایک گروپ بڑا یا چھوٹا یکدم ملک اور ریاستی اداروں کے اندر ایسی ہلچل پیدا کر دے کہ وزیر اعظم کو حکومتیں جاتی ہوئی محسوس ہوں۔اسے ریاستی کمزوری ہی کہا جا سکتا ہے یا پھر صورتحال کا صحیح ادراک کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔یہ ایک بہت اہم تجربہ بھی ہے جس سے ریاست اور حکومت کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ایسے ایشوز اٹھانے اور بنانے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ ایسا کوئی معاملہ پھر بھی ہو سکتا ہے اس لئے ہوشیار رہنے کی بھی ضرورت ہے اور جو لوگ اس سارے معاملے میں ریاستی اداروں کے حوالے سے بیان اور فتوے بازی کے مرتکب ہوئے ہیں انکے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کاروائی بھی ضروری ہے تا کہ اس سلسلے کو آگے بڑھنے سے روکا جا سکے۔