خواتین اور پھر ’’خاتون اول‘ ‘کے بارے میں تو یوں بھی گفتگو کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ مگر خاتون اول یعنی ’’فرسٹ لیڈی‘‘اگر خود سے ’’اسکرین‘‘ پر خبر بنیں۔ تو پھر مسئلہ اور معاملہ محض ذات تک نہیں رہتا۔اس پر مکالمہ صحافتی ذمہ داریوں میں آجاتا ہے۔خاتون اول بشریٰ بی بی یوں تو ہمارے محترم وزیر اعظم عمران خان سے شادی سے پہلے ہی خبروں میں آگئی تھیں۔اور پھر الیکشن کے ہنگامہ خیز دنوں میں انہوں نے جس بردباری اور تحمل مزاجی سے اپنے متنازعہ خاندانی مسائل کے ساتھ محترم عمران خان کی زندگی کے سب سے بڑے چیلنج یعنی 25جولائی کے الیکشن سے پہلے اور بعد میں جو کردار ادا کیا اس سے یقینا وہ ایک مختصر سے عرصے میں قومی منظر نامے میں منظرِ نگاہ بن گئیں۔ خاتون اول نے پہلے اپنے انٹرویو میں جن ارشادات کا اظہار کیا ہے۔۔۔ اُس پر ذرا آگے چل کر گفتگو ہوگی۔خاتون اول یعنی فرسٹ لیڈی کی اصطلاح کب اور کیسے ایجاد ہوئی۔اس بارے میں میرا علم ’’غریب‘‘ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سوال کا جواب بھی کسی ڈکشنری میں نہیں ملتا کہ سربراہ مملکت کی بیگم کو اگر خاتون اول یعنی فرسٹ لیڈی کہا جاتا ہے تو خاتون سربراہ مملکت کے لئے یہی اصطلاح یعنی مردِ اول یا فرسٹ جنٹلمین کی کیوں استعمال نہیں ہوتی۔سربراہان ِ مملکت کے شوہر اور بیویاں ساری دنیا میں ہی خبروں میں رہتی ہیں۔یقینا ان میں سے بیشتر کی کوشش ہوتی ہے کہ ’’خبروں ‘‘ میں آنے سے گریزہی کریں۔مگر اکثربلکہ بیشتر کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ کس طرح’’ خبر‘‘ بنیں۔ ہمارے جیسے مشرقی معاشرے کو تو چھوڑیں۔۔۔ مگر بدقسمتی سے مغرب کے آزاد معاشرے میں بھی یہ شوہر اور بیویاں ’’خبر‘‘ سے زیادہ اسکینڈل کا شکار بنتے ہیں۔ میرا قطعی ارادہ نہیںکہ میں ساری دنیا میں ’’اسکینڈل‘‘ بننے والے شوہروں اور بیویوں کی تاریخ میں جاؤں۔ تاہم اس حوالے سے اسلامی اور خاص طور پر عرب ممالک خوش نصیب ہیںکہ اس میں شاذ و نادر ہی ’’خاتون ِ اول‘‘سامنے آتی ہیں۔تاہم اس اعتبار سے اسلامی جمہوریہ پاکستان منفرد حیثیت رکھتا ہے کہ یہاں مملکت کا سربراہ خاتون ہو یا مرد دونوں ہی ۔۔۔ خبر کم اسکینڈلوں میں زیادہ رہتے ہیں۔حوالے کیلئے ہمارے مردِ حُر محترم آصف علی زرداری سر ِ فہرست ہیں۔جو باجو والی گلی سے بھٹو خاندان کے داماد بن کر آئے توبڑی خاموشی سے ‘مگر پھر بھٹو خاندان اور اس مملکت خداداد پاکستان کی سیاست پر ایسا چھا ئے کہ تین دہائی بعد بھی اُن کے نام کا ڈنکا پٹ رہا ہے۔ محترم آصف علی زرداری کے بارے میں ’’جئے بھٹو‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی کالم باندھ چکاہوں ۔مگر پاکستانی سیاست کے متنازعہ مگر سدا بہار پی پی قائد کی سیاست اور شخصیت کو احاطہ کرنے کے لئے ایک کتاب نہیں ، ایک دفترِ بے کراںچاہئے کہ وہ پیپلز پارٹی جس کیلئے کہا جاتا تھا کہ ’’یہ وہ گھوڑا ہے جس پر بھٹو خاندان ہی سواری کرسکتا ہے‘‘۔۔۔اب اس کی مکمل باگ ڈورہمارے محترم آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے۔غالباً بلکہ یقین سے کہا جاسکتا ہے ہے کہ گذشتہ تین دہائی سے پاکستانی سیاست ان کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں ان کا کردار ہیرو کا ہے یا ولن کا۔ ۔ ۔ یوں تو تین دہائی سے ہمارے ن لیگی قائد میاں نواز شریف کے ذکرِ خیرکے بغیر بھی سیاست مکمل نہیں۔ ۔۔ مگر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دو دہائی پہلے سیاست میں جو ہنگامہ خیز انٹری دی تھی اُس کا ثمر حاصل کرنے میں وہ بالآخر کامیاب ہوگئے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی نوجوانی میں کرکٹ کے میدان میں تھے‘ تو اُس وقت بھی خواتین کے حوالے سے اسکینڈلوں میں رہے اور پھر جب سیاست میں آئے تو بھی اسکینڈلوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ کرکٹ کے حوالے سے ایک Playboyکی حیثیت سے اپنی جوانی کے بھرپور دنوں میں خان صاحب نے جو شہرت حاصل کی وہ شائد دنیا کا کوئی کرکٹر حاصل نہ کرسکا ہو۔کرکٹ دور کے ہنگامہ خیز دنوں پر بے شمار کتابیں بھی لکھی گئیں جس میں کرسٹیانے بیکر کی کتابFrom MTV to Meccaنے بڑی شہرت پائی ہے۔خوش قسمتی سے ابھی کوئی چار سال قبل مجھے اس کتاب کے حوالے سے ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔سرو قد جرمن نژاد کرسٹیانے بیکر نے بڑی تفصیل سے عمران خان کے ساتھ گزارے شب و روز کو بڑے دلچسپ پیرائے میں قلمبند کیا ہے۔وہ عمران خان کی مشرقیت کی بڑی قائل تھیں۔پاکستان میں وہ مہینوں اُن کی مہمان رہیں بلکہ خان صاحب کی فیملی فرینڈ ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔اپنی کتاب میں وہ یہ چھپانے سے بھی گریز نہیں کرتیں کہ وہ اُن سے شادی کرنے کی خواہشمند تھیں۔اور پھر یہ خان صاحب ہی تھے جن کے سبب انہوں نے اسلام قبول کیا اور MTVجیسے چینل کی بین الاقوامی شہرت یافتہ VJچھوڑ کر ایک مسلمان ،مصلح خاتون کی حیثیت میں خود کو ڈھال لیا۔مگر وہ شکوہ کرتی ہیں کہ اس دوران خان صاحب کی زندگی میں جمائما جیسی مہذب،متمول خاتون آ گئی۔گولڈ سمتھ گھرانے کی ارب پتی خاتون نے ہمارے مشرقی معاشرے کی خواتین سے زیادہ وفاداری کا حق ادا کیا۔اُن سے علیحدگی خان صاحب کی سیاسی مجبوری تھی۔ ۔ ۔ مگر ریحام خان سے اُن کی دوسری شادی ایک ’’بلنڈر‘‘ تھا۔ ۔ ۔ جس پر اتنی گفتگو ہوچکی ہے کہ میں خود کو اور پڑھنے والوں کو مزید لکھ کر بد مزہ نہیں کرنا چاہتا۔رہاذکرخان صاحب کی تیسری بیوی بشریٰ بی بی کا۔ ۔ ۔ تو بصد احترام خان صاحب کے مستقبل کے سیاسی کیریئر کے لئے یہ ایک بہت بڑا امتحان ہے۔۔۔ایک نجی چینل کو جو انہوں نے انٹرویو دیا ہے اُس سے انہوں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ محض ایک پردہ نشین خاتون کی حیثیت سے بنی گالہ کا کچن نہیں سنبھالیں گی ۔ ۔ ۔ بلکہ وہ حقیقی معنوں میں وزیر اعظم کی ’’ خاتون اول ‘‘ہوں گی۔