مُدّت ہُوئی، اُستاد، شاعر منیر ؔکیفی نے اپنے کسی دوست کو دُعا دیتے ہُوئے کہا تھا کہ …

دوست ، سرسبز رہیں، آپ کے دشمن پامال!

ذکر بُھولے سے بھی نہ ہو، رنج و غم و محنت کا!

معزز قارئین!۔ فارسی زبان کے لفظ سر سَبز کے معنے ہیں ’’ ہرا بھرا۔ لہلہاتا ہُوا، آباد، زندہ ، خُوش، دولت مند اورتازہ دماغ‘‘۔ 13 اگست کو ریس کورس پارک راولپنڈی میں ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور اُن کی اہلیہ ٔ  محترمہ نے ، قوم کو یومِ آزادی ؔکا تحفہ دیتے ہُوئے ، پاک فوج کی طرف سے مُلک گیر ’’سر سبز و شاداب پاکستان ‘‘ مہم کا آغاز کِیا ۔ خبر میں بتایا گیا کہ’’ مختلف مقامات پر پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے 20 لاکھ پودے لگائے اور "I.S.P.R" کی طرف سے ایک کروڑ پودے لگانے کا اعلان کِیا۔ فارسی ہی کے لفظ شادابؔ کے معنے ہیں ۔ ’’ سیراب، پُر آب، تروتازہ اور بارونق‘‘۔’’ سَر سبز و شاداب پاکستان‘‘ کا تصّور۔ دُعائیہ حیثیت رکھتا ہے ۔ پنجابی کے صوفی شاعر میاں محمد بخشؒ نے جب کہا کہ …

رحمت دا ،مِینہہ پا، خُدایا،

باغ سُکا کر ، ہَر یا!

بُوٹا، آس ، اُمید ، دا میری،

کردے ،میوے بھریا!

پوداؔ ( پودھا) بنیادی طور پر مذہبی زبان کا لفظ ہے ۔ جسے پنجابی میں بُوٹاؔ اور فارسی میں نہالؔ کہتے ہیں ۔ "Plantitation" کا اردو ترجمہ ’’ نہال کاری ہونا چاہیے لیکن ہمارے یہاں اِسے ’’ شجر کاری‘‘ کہا جاتا ہے کیونکہ شجر تو درخت ( ہندی میں پیڑ، پنجابی میں رُکھ) کو کہتے ہیں ۔ درخت بھی فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ فارسی کے نامور شاعر حافظ شیرازیؔ نے شاید اپنے دَور کی اشرافیہ کو مشورہ دِیا تھا کہ …

درختِ دوستی بنشاں کہ، کام دِل بیار آرد!

نہالِ دُشمنی برکن کہ ،رنجِ بیشمار آرد!

یعنی۔’’ دوستی کا درخت لگا، اِس طرح دِل کا مقصد ، پھل لاتا ہے ، دُشمنی کا پودا اُکھاڑ پھینک کیونکہ یہ بیشمار  تکلیفیں دیتا ہے ۔ 1960ء میں ایران کے معزول و مرحوم شہنشاہ محمد رضا ؔشاہ پہلوی نے ،ایران میں شجر کاری کے پروگرام کو "Green Revolution" ( سبز انقلاب) کا نام دِیا تو اُن کی دیکھا دیکھی ، صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے پاکستان میں شجر کاری کی مہم کو "Green Revolution"  کا نام دِیا لیکن، سبز انقلاب ؔکے باوجود ہم ’’ گندم نُما جَو فروش، امریکہ ‘‘ سے ہی گندم منگواتے رہے؟۔

"Green National Day!" 

معزز قارئین! ۔گذشتہ سال 9 فروری 2017ء کو (اُن دِنوں وزیراعظم ) نواز شریف نے وزیراعظم ہائوس اسلام آباد میں کسی سبزی، اناج ، پھل یا پھول کا پودا لگا کر شجر کاری مہم شروع کی اور اُس دِن کو "Green National Day" کا نام دِیا اور کہا کہ ’’آئندہ سال 9 فروری 2018ء کو بھی ’’گرین نیشنل ڈے‘‘ منایا جائے گا‘‘۔ 9 فروری 2017ء سے چند دِن پہلے سرکاری طور پر بتایا گیا تھا کہ ’’  شجرکاری کی مہم کے دوران 10 کروڑ ؔپودے لگائے جائیں گے جن ، پر 3 ارب 66 کروڑ خرچ آئیں گے۔ دو ارب روپے وفاقی حکومت ادا کرے گی اور ایک ارب 66 کروڑ روپے صوبائی حکومتیں!‘‘۔

کرنا خُدا کا یہ ہُوا کہ ’’ 9 فروری 2018ء سے تقریباً ساڑھے چار ماہ پہلے ، 28 جولائی 2017ئ۔ میاں نواز شریف کے لئے "Black Family Day" بن گیا جب ، سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں ،  سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے پانچ جج صاحبان نے ، وزیراعظم نواز شریف کو صادقؔ اور امینؔ ثابت نہ ہونے کے باعث، آئین کی دفعہ "62-F-1" کے تحت نااہل قرار دے دِیا۔ نااہل وزیراعظم نواز شریف نے یکم اگست 2017ء کو شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم تو منتخب کرادِیا لیکن، اُنہیں یہ نہیں بتایا کہ ’’ آپ 9 فروری 2018ء کو "National Green Day" منائیں گے‘‘۔

سوال یہ ہے کہ ’’ کیا وزیراعظم عمران خان کی حکومت "N.A.B" اور "F.I.A" کو ہدایت کرے گی کہ ’’9 فروری 2017ء سے نہ جانے کب تک ؟ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے شجر کاری پر خرچ کرنے کے لئے قومی خزانے سے جو ، تین 3 ارب 66 کروڑ روپے نکلوائے تھے ، اُن کا حساب کتاب کیا ہے؟ اور اُن 10 کروڑ ؔپودوں کا کیا حشر ہُوا جنہیں وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کے دَور میں اُگایا گیا تھا؟ 

’’درخت لگائیں ، زندگی بچائیں!‘‘

’’سر سبز و شاداب پاکستان ‘‘ کے آغاز پر جنرل قمر جاوید باجوہ نے اہل وطن سے کہا کہ ’’  ملک کو زیادہ سے زیادہ درختوں کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی ایجنسیوں ، محکمہ جنگلات اور صوبائی سطح محکموں کے تعاون سے ایک کروڑ پودے لگائے جائیں گے!‘‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اہلیۂ محترمہ نے کہا کہ ’’ قوم کو (ناجائز طور پر ) درختوں کی کٹائی کے چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا‘‘۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے قوم کو یہ نعرہ بھی دِیا کہ’’ درخت لگائیں، زندگی بچائیں!‘‘۔معزز قارئین!۔ علاّمہ اقبال نے ہر اِنسان سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ …

شاخِ نہالِ سِدرۂ ، خار و خس چمن مشو!

مُنکرِ او ، اگر شُدی، مُنکرِ خویشتن مشو!

یعنی۔ ’’تم درختِ سِدرہ ؔ( ساتویں آسمان پر بیری کے درخت) کی شاخ ہو، اپنے آپ کو باغ کا خارو خس ( کانٹا اور گھاس ) نہ بنائو، اگر اللہ تعالیٰ کے منکر ہو تو، کم از کم اپنی عظمتؔ کا تو انکار نہ کرو!‘‘ ۔ مَیر تقی میرؔ نے اپنے لاپروا محبوب سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ…

پتّا، پتّا، بُوٹا، بُوٹا ،

حال ہمارا جانے ہے!

جانے نہ جانے ، گُل ہی نہ جانے ،

باغؔ تو سارا جانے ہے!

معزز قارئین!۔ اگر ہم گُلّ سے (ہر دَور کا صدر/ وزیراعظم (اور پارلیمنٹ) فرض کرلیں اور ’’ باغ تو سارا‘‘ سے پاکستان کے عوام و خواص تو ، میر تقی میرؔ سے مراد ، پاکستان کے مفلوک اُلحال عوام ہیں ۔ سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دِیا تو مَیں نے اپنے 30 جولائی 2017ء کے کالم میں لِکھا تھا کہ ’’ ریاست کے چار ستونوں ( Pillers) میں سے دو ، ستون "Judiciary" (جج صاحبان ) اور "Media" اخبارات اور نشریاتی ادارے) ہی ریاستِ پاکستان کے خیر خواہ ہیں ۔ اگر "Legislative" (پارلیمنٹ) اور"Executive" (حکومت) نے عوام کی بھلائی پر توجہ دِی ہوتی تو، 60 فی صد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کیوں بسر کر رہے ہوتے؟۔

پاک فوج نے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں ( دہشت گردوں) کے خلاف قربانیاں دے کر، ریاستِ پاکستان کو قائم و دائم رکھا۔ مَیں نے کئی بار پاک فوج کو ریاست پاکستان کا پانچواں ؔ ستون قرار دِیا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جس طرح ’’درختِ دوستی ‘‘ اُگا کر عوام کی خدمت کر رہے ہیں ۔ اِن دونوں قائدین کے کردار کا ہر پہلو ’’ زندگی بخش‘‘ ہے، وگرنہ سابق حکمرانوں اور اُن کے بھائی بند سیاستدانوں کی نالائقی نہیں تو اور کیا ہے؟ کہ میاں ثاقب نثار ’’کالا باغ ڈیم ‘‘ کے بجائے دوسرے Dams" بنانے / بنوانے کے لئے "Funds" جمع کیوں کرتے ؟ اور آرمی چیف میدانِ جنگ کے ساتھ ساتھ ’’سر سبز و شاداب پاکستان ‘‘ کے لئے قوم کو اپنے ساتھ شامل کرتے ؟۔ مجھے یقین ہے کہ ’’سَر سبز و شاداب پاکستان‘‘ کے مقصد کے لئے ، عاشقانِ سَر زمینِ پاکستان ، جنرل قمر جاوید باجوہ ، پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی امیدوں کے نہال ؔضرور سَر سبز ہوں گے !‘‘علاّمہ اقبالؒ نے اپنی ایک نظم ’’ حُسنِ عشق‘‘ میں حُسن سے مخاطب ہو کر کہا کہ …

حُسن سے ، عِشق کی ، فطرت کو ہے، تحریکِ کمال!

تجھ سے ، سَر سبز ہُوئے، میری امیدوں کے نہال!

…O…

 حضرت داغ ؔدہلوی الگ انداز میں کہتے ہیں کہ …

ثمر کیا لائے، کیا جانے ، یہ بڑھ کر؟

اُگا ہے، دِل میں پودا ، آرزُو کا!

معزز قارئین!۔ مجھے یقین ہے کہ ’’ سَر سبز اور شاداب پاکستان‘‘ کی آرزو میں ، جنرل قمر جاوید باجوہ کے دِل میںجو ، پودا اُگا ہے ، اُس کے ثمرات ، ہر پاکستانی ضرور سمیٹے گا۔اِنشا اللہ !۔