اسلام آباد(خبر نگار)عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف مس کنڈکٹ کے الزام میں دائر صدارتی ریفرنس غیر قانونی قرار دے کر خارج کردیا ہے ۔سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ بینچ نے متفقہ فیصلے کے ذریعے ریفرنس خارج کرکے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں جاری کارروائی اور انھیں جاری شوکاز نوٹس ختم کردیا ہے تاہم سات ججوں کی اکثریتی فیصلے کے تحت لندن میں تین جائیدادوں کا معاملہ انکم ٹیکس کمشنر کوبھیج کر قرار دیا کہ انکم ٹیکس رپورٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل از خود اختیار کے تحت کارروائی کا تعین کرے گی۔فل کورٹ بینچ کے تین ججوں نے معاملہ انکم ٹیکس کمشنر کو بھیجنے کی مخالفت کی اور قرار دیا کہ آئین میں شہریوں کوحاصل بنیادی حقوق کا تحفظ ایک جج کا بھی ناقابل تنسیخ حق ہے ۔جمعہ کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک کے جواب الجواب کے بعد جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ بینچ نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو شام چار بج کر گیارہ منٹ پر مختصر فیصلہ صادر کیا، فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے پڑھ کرسنایا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی طرف سے دائر آئینی پٹیشن ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی لیکن ریفرنس کالعدم کرنے کے لئے دائر پاکستان بار کونسل،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور صوبائی بارز و دیگر کی آئینی درخواستیں متفقہ فیصلے کے تحت منظور کی گئیں۔جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس منظور احمد ملک،جسٹس فیصل عرب،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل،جسٹس سجاد علی شاہ،،جسٹس منیب اختر اورجسٹس قاضی محمد امین احمد نے اکثریتی فیصلے کے تحت معاملہ کمشنر انکم ٹیکس ان لینڈ ریونیو کو بھیج کر قرار دیا کہ متعلقہ کمشنر انکم ٹیکس سپریم کورٹ کے اس آرڈر کے سات دن کے اندر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی اہلیہ اور ان کے بچوں کو برطانیہ کی تین جائیدادوں کی وضاحت کے لئے نوٹس جاری کریں گے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کو ایک ہفتے میں تمام جائیدادوں سے متعلق الگ الگ نوٹس بھیجے جائیں ،عدالت نے ہدایت کی کہ ایف بی آر نوٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے پتے پر بھجوائے اور معاملے پر ایف بی آر کسی قسم کا التوا نہ دے ۔ ایف بی آر کے نوٹس میں فاضل جج کے بچے اور بیوی فریق ہونگے اور ایف بی آر اس معاملے پر60روز میں فیصلہ کرے گا۔فیصلہ کرنے کے بعد چیئر مین ایف بی آر کی دستخط شدہ رپورٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی، عدالتی فیصلے سے کسی فریق کا حق اپیل متاثر نہیں ہو گا ۔ قرار دیا گیا کہ سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل رپورٹ کے بارے میں چیف جسٹس کو آگاہ کریں گے اور معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے جائزے کے لئے رکھا جائے گااور اگر معاملے میں درخواست گزار جج کے حوالے سے کسی تعلق کا تعین ہوجاتا ہے تو اس ضمن میں سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری آرڈر آئین کے آرٹیکل 209کے تحت حاصل از خود نوٹس اختیار کے تحت تصور ہوگا ۔اگر سو دن کے اندر کوئی رپورٹ نہیں آتی تو سیکرٹری کونسل چیئر مین سپریم جوڈیشل کونسل کی ہدایت پر وضاحت مانگ سکتا ہے اور وضاحت کا جو بھی جواب آئے اسے کونسل کے سامنے رکھا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ کے تین ججزجسٹس مقبول باقر، جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے معاملہ کمشنر انکم ٹیکس کو بھیجنے کی مخالفت کی اورقرار دیا کہ پاکستان کے آئینی اقدار میں سے ایک عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے ،ہر شہری کو قانون کا تحفظ حاصل ہے اور یہ ان کا ناقابل تنسیخ حق ہے اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہماری آئینی جمہوریت میں درخواست گزار جج ،نہ کوئی اور جج ،کوئی شخص اور نہ کوئی ادارہ قانون سے بالاتر ہے ۔کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں،کونسل خود یا کسی کے حقیقی شکایت پر کارروائی کی مجاز ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی جج کو ان تمام آئینی حقوق کا تحفظ حاصل ہے جو آئین نے ہر شہری کو دیے ہیں۔جج کا یہ ناقابل تنسیخ حق ہے کہ ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے اور جج کو حاصل حقوق کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے گا تاکہ آئین کی بالا دستی کو برقرار رکھا جاسکے اور پاکستان کی عوام کی تکریم کرے جنہوں نے خود کو یہ آئین دیا ہے ۔قبل ازیں صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر 44 ویں سماعت کا آغاز ہوا توایف بی آر نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا ٹیکس ریکارڈ سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرادیا اور درخواست گزارجسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملک نے بھی سر بمہر لفافے میں دستاویزات عدالت میں پیش کر دیں۔منیر ملک نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ افتخارچودھری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے لیکن جوڈیشل کونسل نے بدنیتی پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔منیر ملک نے کہاکہ سمجھ نہیں آرہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے ، جسٹس قاضی فائز عیسی نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی،بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ۔حکومت ایف بی آر جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی،ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی۔جسٹس قاضی فائز عیسی ٰنے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا اور ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسی کیخلاف ریفرنس کالعدم قرار دے ۔سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے ۔جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ شوکاز نوٹس کے بعد جوڈیشل کونسل کو آئینی تحفظ کا سوال بہت اہم ہے ،وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں،اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کیلئے رولز میں ترمیم ضروری تھی۔منیر اے ملک نے دعویٰ کیاکہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے ٹی او آرز قانون کیخلاف ہیں، باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جاسکتا۔ جسٹس یحیی آفریدی کا کہنا تھا کہ شوکاز نوٹس کے جواب کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا گیا۔ منیر ملک نے کہاکہ جو ریلیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو چاہیے وہ جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی، ویب سائیٹ لندن جائیدادوں کی تلاش کیلئے 192۔com کو استعمال کیا گیا،192۔comپر سرچ کرنے کیلئے ادائیگی کرنا پڑتی ہے ، آن لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ بندے کو ای میل کرتی ہے ،ضیا المصطفیٰ نے ہائی کمیشن کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں اورجن سیاسی شخصیات کی سرچ کیں اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں حکومت رسیدیں دے تو سامنے آجائیگا کہ جائیدادیں کس نے سرچ کیں۔ جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ اے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں، گزشتہ کل کی سماعت کے بعد آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے ۔ منیر ملک نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے ؟۔جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ جج کے بنیادی حقوق زیادہ اہم ہیں،یا ان کا لیا گیا حلف ؟منیر ملک نے جواب دیا کہ عدالت درخو است کو انفرادی شخص کے حقوق کی پٹیشن کے طور پر نہ لے ۔ منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہوئے توسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان ، سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی ، کے پی بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی نے دلائل شروع کئے ۔جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ کیا صدارتی ریفرنس مکمل خارج کردیں؟ہمارے لئے یہ بڑا اہم معاملہ ہے ۔بار کونسل اور بار ایسو سی ایشنز کا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے عدالت کودونوں جانب سے بھرپور معاونت ملی۔7 ججز نے قاضی فائز کی اہلیہ کے ٹیکس معاملات ایف بی آر کو بھیجنے کا حکم دیا۔