یادش بخیر وہ زمانہ، جب آصف زرداری، پیپلز پارٹی کو پوری طرح لاحق نہیں ہوئے تھے۔ اس جماعت میں کیسا کیسا سردھرا تھا! ان سب کو، ایک ایک کر کے، زرداری صاحب ڈھکوستے گئے۔ ایک ایک آنکا گیا، تولا گیا۔ جو زرداری صاحب کی نظر میں نہ سمایا، ان کے کانٹے میں پْورا نہ تْل سکا، جان ہار ہوا۔ ہوتے ہوتے، صرف "بھاری" صاحب باقی رہ گئے، پیپلز پارٹی چل بسی۔اب جو تازہ کامیابی راہول گاندھی کی جماعت کو بھارت میں حاصل ہوئی ہے، اس نے جیالوں میں، امید پیدا کر دی ہے کہ پیپلز پارٹی کا مْردہ، بلاول کے قْم سے جی ہی جائے گا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بلاول اپنے والد پر نہیں، نانا پر پڑے ہیں، تو پھر بھی والد صاحب اپنی جگہ موجود ہیں۔ بلاول بڑے دلاور، بڑے شیرمار، بڑے گْنی ہوں، ان کا کیا کریں گے؟ پیپلز پارٹی کی بحالی میں، ان کے اپنے والد صرف سنگ ِراہ نہیں، سد ِراہ بھی ہیں! میرے ہی من کا مجھ پر دھاوا میں ہی اگنی، میں ہی ایندھن خیر، آئیے ذرا امریکہ چلتے ہیں۔ جہاں سرکس کا تماشا، پچھلے ڈھائی سال سے جاری ہے۔ ناظرین گواہ ہیں کہ وزیر ِقانون جیف سیشنز کے بارے میں یہ پیشین گوئی، اس کالم میں کئی مرتبہ کی گئی کہ ع جی کا جانا ٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا سو ان کی چھْٹی ہو گئی ہے۔ یہ بھی لکھا گیا تھا کہ روس کے ساتھ، ٹرمپ انتظامیہ کی ساز باز کا الزام، فقط الزام نہیں رہا۔ اس کے مزید ثبوت، اب فراہم ہو رہے ہیں اور گرفتاریاں، عمل میں آ رہی ہیں۔ تازہ ترین صورت ِحال یہ ہے کہ امریکن صدر کے پرانے وکیل سمیت، جو لوگ پکڑے گئے تھے، اب یا سزائیں کاٹ رہے ہیں یا وعدہ معاف گواہ بننے کو تیار ہیں۔ یہ سب آخر ہو کیوں رہا ہے؟ پہلے جگر مراد آبادی کا شعر سنیے۔ وہ یوں دِل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیںجاتی اس کے برعکس، جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا، امریکن سیاست میں ٹرمپ کی بحیثیت ِصدر آمد، ایسے ہی ہے جیسے نگار خانہ چین میں ادھیایا ہوا بیل گھْس آئے! اب جو چیز سامنے پڑتی ہے، بیل اسے سینگوں پر دھر کر پٹخ دیتا ہے۔ جو آدمی ان کے "کام" کا نہیں نکلتا، اسے یہ نکال کر رہتے ہیں۔ بہرحال، انصاف کا تقاضا ہے کہ ٹرمپ کو کریڈٹ بھی دیا جائے۔ امریکن حکومتی، سیاسی اور جمہوری نظام کی خرابیاں، ان کے ہاتھوں کھْلتی جا رہی ہیں۔ ان کی جگہ اگر ہلری کلنٹن صدر بنتیں، تو اسٹیبلشمنٹ کا راوی، چَین ہی چَین لکھتا۔ امریکہ کے مقتدر حلقوں کی جان، ٹرمپ کے ہاتھوں، مسلسل عذاب میں ہے۔ اسی لیے روس کے ساتھ ساز باز کا کیس، ان کے سر پر لٹکا دیا گیا ہے۔ ان کی صدارت کے دو سال باقی رہ گئے ہیں۔ اندازہ یہی ہے کہ اگلے سال یا پھر انتخابات کے سال، انہیں ہمیشہ کے لیے، آئوٹ کر دیا جائے گا۔ گمان ہے کہ یہ سارا میدان، نائب صدر مائیک پینس کے واسطے تیار کیا جا رہا ہے۔ روس والا کیس تو ہے ہی، کیا پتا اس دوران کوئی اَور کیس بھی نکل آئے! جو دِل چھین لینے کے ڈھب جانتے ہیں وہ ترکیب ورکیب، سب جانتے ہیں ٭٭٭٭٭ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم، پیرس والے 17 دسمبر کو، ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کی سولہویں برسی تھی۔ جن شخصیات سے نہ مِل پانے کا، سدا افسوس رہے گا، ان میں پہلا نام ڈاکٹر حمیداللہ کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب، حیدرآباد دکن کے، آخری شہری تھے۔ سن اڑتالیس میں، انہیں دولت ِآصفیہ کی طرف سے پاسپورٹ ملا تھا۔ انہی دنوں، بھارت نے ان کے وطن پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب بین الاقوامی اور بین الملل قوانین کے ماہر تھے۔ اسی حیثیت سے، انہیں پیرس بھیجا گیا کہ اپنے ملک کا مقدمہ، وہاں کی پریوی کائونسل میں پیش کریں۔ لیکن عالمی برادری، ایسے کسی کام میں ہاتھ کیوں ڈالے، جس میں سے خیر کا کوئی پہلو بھی نکلتا ہو؟ حیدرآباد کے سقوط سے ڈاکٹر صاحب کا دِل ایسا ٹوٹا کہ پلٹ کر وہاں نہیں گئے۔ حیدرآباد کا یہ سب سے لائق ِفخر سپوت، کسی اَور ملک کی شہریت پر بھی آمادہ نہ ہوا۔ باقی زندگی حیدرآباد کے پناہ گزین کی حیثیت سے ہی بسر کی۔ آباد شہر ِدل تھا، اسی شہریار تک پہنچا نہ آ کوئی، پھر اس اجڑے دیار تک! غیرت کا یہ عالم تھا کہ سینکڑوں دعوت نامے ملے، مگر برطانیہ کبھی نہ گئے۔ کہتے تھے کہ میرے وطن کی بربادی کے، بڑے ذمے دار یہی ہیں۔ پیرس میں، کم ہی دن ایسے گزرتے تھے، جب ان کے چھوٹے سے فلیٹ میں، فرانسیسی نہ آتے ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق، فرانس کے تیس ہزار مرد و خواتین، ان کی بدولت مسلمان ہوئے۔ پیدائشی مسلمان، حیران ہوتے ہیں کہ مغربی نومسلم، اتنے اچھے مسلمان کیوںکر بنتے ہیں؟ اس کی دو وجہیں تو ظاہر ہیں۔ پہلی یہ کہ ان میں چند بنیادی خرابیاں، بہت کم ہوتی ہیں۔ مثلا جھوٹ بولنا، بے ایمانی کرنا وغیرہ۔ دوسری یہ کہ، حق کی سچی تلاش ہی انہیں اسلام تک لے کر آتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو؟ نظر کو ہو شوق معرفت کا، کرے تو شوق اضطراب پیدا سوال پیدا جو ہونگے دِل میں، انہی سے ہونگے جواب پیدا لیکن پیرس والوں کی بڑی خوش نصیبی یہ بھی رہی کہ انہیں ڈاکٹر صاحب کی صورت میں، ایک سچا اور کھرا مسلمان نظر آتا رہا! غالب کا یہ چلتا ہوا مصرع، آپ نے سن رکھا ہو گا ع نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا لیکن ستائش سے طبیعت کو کامل نفور ہونا اور مِلتے ہوئے صلے کو ٹھکرا دینا، اَور بھی زیادہ ظرف کی بات ہے۔ یہ ظرف ڈاکٹر صاحب کا تھا! حکومت ِپاکستان اور خصوصا جنرل ضیاء الحق نے، بڑی کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب پاکستان منتقل ہو جائیں۔ وہ اگر پاکستان آ جاتے تو ہر ممکن آسائش مہیا کی جاتی۔ یہ بھی ممکن نہ تھا کہ انہیں مسلکی اور فروعی جھگڑوں میں نہ الجھایا جاتا۔ مگر وہاں یہ خانہ ہی خالی تھا۔ خدا کو اپنے بندے سے جو کام لینا تھا، وہ دو چار برس نہیں، نصف صدی کو محیط تھا۔ جی ہاں! پچاس سال سے بھی زیادہ، وہ پیرس میں اسلام کی تبلیغ کرتے رہے! اسے روایتی یا رسمی فقرہ نہ جانیے۔ پچھلی کم از کم ایک صدی میں، ان جیسا بے لوث اور کھرا مسلمان، کم از کم میرے علم میں نہیں گزرا۔ عشق کوئی ہم درد، کہیں مدت میں پیدا کرتا ہے کوہ رہیں گو نالاں برسوں، لیکن اب فرہاد نہیں!