کبھی کبھی کالم لکھنے کا موڈ نہیں ہوتا۔ آج بھی کچھ ایسا ہی دن ہے۔ سردیوں کی بارش میں بھیگا ہوا۔ موضوع بھی بے شمار ہیں۔ ماتم کرنے کو سانحوں اور حادثوں کی بھی کمی نہیں اور حادثے تو ایسے ایسے ہیں کہ بندہ پتھر ہو جاتا ہے۔ سوالات کے گرداب میں پھنس کر۔ جواب نہیں ملتے۔ سمندر کی ریت پر پلاسٹک کی گڑیا کی طرح اوندھے منہ پڑی ہوئی وہ بچی جس کی سگی ماں نے اس کو اس بے دردی سے مار دیا۔ بہت سے سوال پوچھتی ہے ریاست پاکستان سے بھی اور اس سماج سے بھی۔ اس کی ماں اس وقت کراچی پولیس کی تحویل میں ہے۔ کیسے ایک ماں اس نہج تک پہنچی؟ کیا وہ پاگل تھی۔ اس کے شوہر اور اس کے والدین نے جب اس کو پناہ دینے سے انکار کیا تو تو پھر ریاست اس وقت کہاں تھی جو ہر شہری کے جان اور مال کی محافظ ہے۔ بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب ڈھونڈنے کا ہمارے پاس وقت نہیں۔ میڈیا پر پرائم ٹائم میں صرف سیاست بکتی ہے۔ سو وہ بک رہی ہے۔ کالم لکھنے کا آج واقعی ہی من نہیں ہے۔ کبھی کبھی مجھے اپنے لفظ بہت کھوکھلے اور بے معنی سے لگنے لگتے ہیں۔ ان لفظوں سے جو آوازیں میں بُنتی ہوں وہ بے حسی کے گنبدِ بے در سے ٹکرا کر پھر میرے پاس لوٹ آتی ہیں۔ ان گھسے پٹے‘ پرانے ‘ لفظوں کی گرد جھاڑ کر میں جو تصویریں بناتی ہوں وہ ہر کسی بصیرت والے کی نگاہ سے محروم رہتی ہیں میں تو احساس میں قلم ڈبو کر لکھتی ہوں لیکن نہ جانے کیوں یہ لفظ کسی احساس والے کے دل میں اترنے سے ناکام رہتے ہیں۔! میرے آس پاس بے حسی کی دیواریں ہیں جن سے ٹکڑاکر یہ لفظ پھر میرے پاس لوٹ آتے ہیں۔تھکے ہارے‘ بے توجہی کی اذیت سے دو چار۔! کبھی کبھی کوئی دن ایسے خیال کی گرفت میں آ جاتا ہے کہ ہم کیوں لکھتے ہیں اور اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ کیا ہمارے لکھنے سے کہیں کوئی تبدیلی بھی آتی ہے یا یہ ایک لاحاصل سا کام ہے۔ کہتے ہیں نا کہ کاغذ کی تنہائی دنیا کی سب سے بڑی تنہائی ہے۔ غالباً یہ نصیر احمد ناصر کی نظم کا مصرعہ ہے۔ ایک صحافی یا کالم نگار کے لئے اس تنہائی میں ایک خاص قسم کی شدت اور احتجاج کی کیفیت شامل ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک صحافی اور کالم نگار معاشرے سے جڑا ہوتا ہے اور وہ سماجی میں بسنے والے اپنے ہم وطنوں کے مسائل کو آسودگی میں بدلنے کا خواہاں ہوتا ہے۔اسے یہ خوش فہمی بھی لاحق ہوتی ہے کہ اس کے لکھے ہوئے شہ پارے اہل اختیار کے دلوں کو پگھلا دیں گے۔ وہ جس عوامی مسائل کی احساس سے بھری ہوئی تصویریں اپنی تحریروں میں بناتا ہے وہ تصویریں کسی نہ کسی اہل درد کے دل کو چھو لیں گی وہ جو خواب اس سماج کو خوبصورت بنانے کے لئے دیکھتا ہے خوابوں سے وہ اپنی تحریریں سجاتا ہے۔ اسے یہ خوش فہمی لاحق ہوتی ہے کہ ایک روز وہ اہل اقتدار اہل زر۔ اور اہل ختیار کے دلوں کی پتھریلی زمینوں میں بھی وہی خواب خوش نما بودے گا۔ ؎ چلو ساری زمیں کھو دیں اور اس میں اپنے دل بو دیں کہ اس بے رنگ جینے سے نہ تم خوش ہو۔ نہ میں خوش ہوں! اخبار سے جڑا ہوا ایک لکھاری تمام عمر اسی تگ و دو میں گزار دیتا ہے۔ اگرچہ خود گوڈے گوڈے مسائل کے گرداب میں پھنسا ہو گا لیکن اپنی زندگی سے بے نیاز وہ دوسروں کے مسائل اجاگر کرنے میں لگا رہتا ہے اور اس ساری ریاضت کے بعد اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔ زندگی کی ضرورتوں سے تھوڑی تنخواہ۔ کبھی چار ماہ سے بغیر تنخواہ کے خواری۔ کبھی اس بیگار کے ہاتھوں استعفیٰ خود دیتا ہے تو کبھی نوکری سے نکالا جاتا ہے۔میں نے آغاز میں ہی لکھا نہ کہ کالم لکھنے کا آج من ہی نہیں ہے۔ یہ نہیں موضوعات کی کمی ہے۔ بریکنگ نیوز کی سنسنی سے بھری ہوئی سیاسی منظر نامے پر ہلچل مچاتی کئی خبریں ہیں۔ مگر ان خبروں میں بھی کوئی کشش کوئی جاذبیت باقی نہیں رہی۔ یہ ذرا سی دیر سیاسی منظر نامے کی جھیل میں ارتعاش پیدا کریں گی اور پھر اس کے بعد راوی چین ہی چین لکھے گا۔ یوں بھی ریاست پاکستان میں ساری بے چینی عوام کے لیے ہے۔ غریب شہر کے لیے تین وقت پیٹ بھر کر کھانا کھانا ہی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بھوک میں روٹی کی ضرورت اور بیماری میں دوا کی ضرورت منہ کھولے کھڑی ہو تو انہیں ریاست کے اس سیاسی کھیل تماشے سے کوئی غرض نہیں کہ علیم خان کی گرفتاری قانون کی حکمرانی ہے یا احتساب کے اس کھیل میں توازن قائم کرنے کا عمل۔ سیاسی حوالوں سے پی ٹی آئی کے اہم ستون علیم خان کی نیب میں گرفتاری اہم خبر ضرور ہے لیکن اس سے ایک عام آدمی کی زندگی میں کیا فرق پڑے گا۔ احتساب کے اس عمل میں ایسی ہائی فائی گرفتاریوں سے غریب شہر کی زندگی پر پہلے بھی کیا اثر پڑا ہے۔ کیا دال روٹی سستی ہو جائے گی۔؟دوا خالص اور مفت ملے گی! قانون اس کی غریبی کا احترام کرے گا۔ معاشرے میں اس کی عزت اس لیے ہو گی کہ وہ بھی اس ریاست کا ایک شہری ہے۔! یہاں غریب کے لئے آزاد زندگی بھی ایک بیگار اور جبر مسلسل ہے۔ قدم قدم پر‘ بے یقینی‘ ذلت اور رسوائی ہے اور اہل زر کے لئے جیل میں بھی آسائشوں اور آسودگی کا اہتمام ہے۔غریب شہر کی پہلی اور آخری ترجیح پیٹ کا دوزخ بھرنا ہے۔ صحت کس چڑیا کا نام ہے اس کے اگلوں کو بھی خبر نہ تھی۔ یہ خاک بسر تو حکمرانوں کے پروٹوکول کے لئے رکی ہوئی ٹریفک میں جان دینے والی مخلوق ہے جسے نہ دوائی بروقت ملتی ہے نہ طبی امداد! زمین سے جڑا ہوا ایک کالم نگار اپنی دو انتہائوں کو دیکھ کر کڑھتا ہے اور ایک بہتر متوازن سماج کے خواب کی دُھن میں مضمون کے صفحے سیاہ کرتا جاتا ہے نتیجہ مگر وہی ڈھاک تین پات! اس لاحاصل عمل میں کبھی کبھی مایوسی بھی ہونے لگتی ہے کہ تبدیل کچھ نہیں ہوتا۔ تبدیلی کے صرف نعرے لگتے ہیں۔ ایک طرف وہی نواز اور شہباز ہیں۔ زرداری۔ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے اہل زر ہیں اور ان کے اثاثوں جائیدادوں اور آف شور کمپنیوں کے لامتناہی سلسلے ہیں۔ دوسری طرف ضرورتوں کے پہاڑ ہیں۔ مسائل ‘ بے بسی۔ ذلت اور رسوائی کے لامحدود صحرا میں آبلہ پا غریب شہر ہے!