ستم ظریفی یہ ہے کہ پرکاش سنگھ اس وقت بھارت میں پولیس میں اصلاحات اور فورسز میں انسانی حقوق کے تئیں بیدار ی لانے کے بڑے نقیب ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن بھی دائر کی ہوئی ہے اور مختلف اخبارات میں پولیس ریفارمز پر لکھتے رہتے ہیں۔ کئی روز بعد دلّی سے مرکزی وزرا مکھن لال فوطیدار،غلام نبی آزاد کانگریس کی ریاستی شاخ کے صدر مرحوم غلام رسول کارکی معیت میں وارد ہوئے اور ہر ممکن امداد فراہم کرنے کاوعدہ کیا۔ لیکن سوپور کے باشندوں نے حکومتی امداد قبول نہیں کی، بلکہ عوامی سطح جو ریلیف جمع کیا گیا تھا، وہی متاثرین میں تقسیم ہوا۔ انشورنس کمپنیوں نے بھی منہ موڑ لیا جس کے بعد اس وقت کے مرکزی وزیر خزانہ اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی مداخلت کے بعد انشورنس کمپنیوں نے معاوضہ واگزار کرنے کا یقین دلایا تاہم یہ وعدہ بھی ایفا نہ ہو سکا۔ مقامی تجارتی انجمن نے عدالت سے رجوع کر کے انشورنس کمپنیوں سے معاوضہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر چند ہی دکاندارخوش نصیب نکلے۔ عوامی دبائوکے تحت حکومت نے 94 بٹالین بی ایس ایف کے کمانڈنٹ کو پانچ دیگر اہلکاروں سمیت معطل کیا۔ 9 جنوری کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے احکامات بھی صادرکئے گئے اور 30 جنوری کوجسٹس امر سنگھ چودھری کو تحقیقاتی آفیسر مقرر کیا گیا۔ اس تحقیقاتی عمل کو کبھی آگے بڑھایا نہ جاسکا بلکہ دوسال گزر جانے کے بعد کمیشن کو تحلیل کر دیاگیا۔ محکمہ قانون، جسٹس چودھری کو مسلسل لکھتا آیا کہ وہ ریاست بالخصوص سرینگر کا گرمیوں میں دورہ کریں تاکہ گواہ، جن میں سینئر افسران شامل ہیں،کے بیانات قلمبند کئے جاسکیں۔ وہ سرینگر آنے سے گریزاں رہا تاہم جموں آنے پر آمادگی ظاہر کی اور گواہوں کے بیانات قلمبند کرنے کی لئے 15سے17دسمبر 1993ء کا وقت دیا۔کمیشن کی میعاد جو پہلے ہی ختم ہوچکی تھی 30جنوری 1994ء تک بڑھا دی گئی۔ کمیشن کی میعاد بڑھتے ہی جسٹس چودھری نے مجوزہ دورہ پھر منسوخ کردیا اور اطلاع دی کہ سماعت کی اگلی تاریخ سے ریاستی حکومت کو مطلع کیاجائے گا۔ اس کے بعد کمیشن نے مطلع کیا کہ وہ اپنی کارروائی 21 سے25 مارچ تک جموں میں چلائے گا اور خواہش ظاہر کی کہ گواہوں کی شرکت کو یقینی بنانے کے علاوہ کمیشن کے عملے کی سکیورٹی کا معقول بندوبست کیاجائے۔ لیکن یہ دورہ بھی منسوخ کر دیاگیا اور اطلاع دی گئی کہ اب وہ سماعت مارچ 1994ء کے دوسرے ہفتے میں کرے گا۔ وہ اس کے بعد بھی وعدے سے مکر گیا اور یوں اپریل 1994ء میں کمیشن کی میعاد پھر ختم ہوگئی۔ چیف سیکرٹری نے فائل میں اپنے تاثرات کچھ یوں لکھے: ''ہمیں یہ ڈرامہ ختم کرنا چاہیے ،گزشتہ 15ماہ سے کوئی سماعت نہیں ہوئی‘‘۔ ریاستی چیف سیکرٹری بی کے گوسوامی نے 18اپریل 1995ء کومرکزکے داخلہ سیکرٹری کے پدمنا بھیا کو لکھا: ''کمیشن کی جانب سے جموں میں سماعت کا انعقاد عوامی مفاد میں پہلے ہی نہیں تھا لیکن اس کے بعد کمیشن کا رویہ سراسر حوصلہ شکن رہا اور تین ماہ میں انکوائری مکمل نہ کرنے سے لوگوں میں حکومت کے اعتبارکو شدید زک پہنچی ہے‘‘۔ گوسوامی نے پدمنا بھیا کے نام مزید لکھاکہ کمیشن کے قیام کا مقصد فوت ہو چکا ہے اور اب اسے تحلیل کر دینا چاہیے لیکن کوئی کارروائی کرنے سے قبل ہم سارا ماجرا حکومت ہند کی نوٹس میںلانا چاہتے ہیں۔ اس مکتوب کے بعد مذکورہ کمیشن کا باب بند کردیا گیااور ہمیشہ کیلئے انصاف کو دفن کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعد میں ایک سب انسپکٹر اور دو اسسٹنٹ سب انسپکٹروں کو معطل کیا گیاجبکہ 94 بٹالین کو سوپور سے ہٹاکر پلوامہ تبدیل کیا گیا، جہاں انہوں نے لوگوں کو سوپور سانحہ کی دھمکیاں دیں، جس کے بعد انہیں راجستھان منتقل کر دیا گیا۔ اس سانحہ سے متعلق دو کیس پولیس سٹیشن سوپور میں درج کئے گئے تھے اور وہاں سے23 جنوری کو انہیں تحقیقات کے لئے مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کو سونپا گیا۔ سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق دوران تحقیقات انہوں نے عینی گواہوں اور مقامی لوگوں کے بیانات لینے کی از حد کوشش کی تاہم کسی بھی زخمی یا کسی گواہ نے بی ایس ایف اہلکاروں کی شناخت نہیں کی اور نہ ہی مطلوبہ معلومات فراہم کیںجس کے نتیجہ میں اس سانحہ میں ملوث لوگوں کی نشاندہی ناممکن بن گئی اور یہ پتا نہ چل سکا کہ کس نے عام لوگوں کی جان لی اور آتشزدگی کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ تقریباً چوتھائی صدی بیت چکی ہے۔ مگر دل پر لگے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ جب تک بھارت اور پاکستان دشمنی کی راہ ترک کرکے خطے میں پائیدار امن و خوشحالی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے اقدامات نہیں گریں گے تب تک سوپور جیسے قتل عام ہوتے رہیں گے اور ایسے زخم ہرے ہوتے رہیںگے۔یہ حقیقت بہر حال تسلیم کرنا پڑے گی کہ ان تمام المیوں کا ماخذ کشمیرکا حل طلب مسئلہ ہے۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ حقائق سے انکار کی بجائے اس مسئلے کے حل کی سبیل کی جائے۔کوئی ایسا حل جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو، تاکہ برصغیر میں امن و خوشحالی کے دن لوٹ سکیں۔ سوپور کے شہیدوںکے لئے بھی یہ ایک طرح سے خراج عقیدت ہوگا۔ اس ہنگامہ خیز بستی کی رونقیں بھی لوٹ آئیں گی اور بعید نہیں کہ یہ شہر عالم مشرق کا نیو یارک اور لندن بن کر سیاست اور تجارت کا محور بن جائے۔ (ختم شدہ)