مریم نواز گڑھی خدا بخش میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ جدہ کے سرور پیلس میں وہ ملاقات بڑی یاد گار تھی، جب ہم وہاں اپنے والد کے ساتھ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے ۔ بے نظیر بھٹو بھی ان دنوں دبئی میں اپنے بچوںکے ساتھ رہ رہی تھیں۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری رہاہوئے تو بے نظیر عمرے کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب آئی تھیں اور نواز شریف سے ان کی ملاقات شیڈول تھی ۔ دراصل وہ نواز شریف سے ان کے والد میاں شریف کی وفات پر اظہار تعزیت کیساتھ دوبارہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف سے تعلقات اور روابط کا نیا باب کھولنا چاہتی تھیں۔ سیاست کے کیا کیا رنگ ہیں، کبھی حریف وقت بدلتے حالات کے تحت حلیف بن جاتے ہیں۔ بے نظیر اور نواز شریف دونوں کو مشرف کے عتاب کا سامنا تھا اور مشکل حالات دونوں کو قریب لے آئے تھے۔ یہ ایک پر جوش اور محبت بھری ملاقات تھی، جس میں ماضی کا ذکر نہ ہونے کے برابر تھا کیونکہ ماضی میں اختلافات، باہم تنقید اور تلخیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ آج نواز شریف کی بیٹی بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ان کی قبر پر موجود تھیں ۔ بے نظیر کے اکلوتے صاحبزادے اور ان کی سیاسی وارث بلاول بھٹو زرداری سندھی میزبانی کی مثال قائم کر رہے تھے۔ بدلتے وقت اور حالات کے تلخ تیور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی سیاسی وارثوں کو کتنے نزدیک لے آئے ہیں۔ 10فروری 2006کی سرور پیلس میں ملاقات تین گھنٹے پر محیط تھی لیکن27دسمبر 2020کو مریم نواز دو دن تک بلاول بھٹو کی مہمان رہیں ۔ سرور پیلس کی ملاقات میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میں جمہوریت کی بحالی کے سلسلے میں آئندہ دنوں میں کسی میثاق کرنے پر اتفاق ہوا تھا اور نو ڈیرو ہائوس میں دونوں موجودہ وارثوں نے اپنے سیاسی مستقبل کے لئے کسی ایسے لائحہ عمل پر گفتگو کی جس کے تحت وہ مشترکہ جدوجہد کر سکیں، جس میں کوئی ابہام نہ ہو کیونکہ اس وقت ان دونوں کو عمران خان کی جار حانہ حکمت عملی کا سامنا ہے۔ نواز شریف ایک بار پھر ملک سے باہر ہیں اور آصف علی زرداری ضمانت پر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ موجودہ وقت دونوں کے بچوں کو ایک اسٹیج پر لے آیا ہے اور انتخابی میدان میں ایک دوسرے کی حریف جماعتیں اب ایک دوسرے کو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ایک پیج پر لے آئے ہیں۔ مورخہ27دسمبر 2007کو نواز شریف راولپنڈی میں تھے ، جب ان کے جلوس پر حملے میں چند جید کارکن مارے گئے تھے۔ جب انہیں بے نظیر بھٹو پر حملے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً ہسپتال پہنچ گئے۔انہیں راستے ہی میںاطلاع مل گئی تھی کہ بے نظری بھٹو اس دنیا میں نہیں رہیں۔ ہسپتال میں ایک غم زدہ ما حول اور ہیجانی کیفیت تھی۔ نواز شریف انتہائی دل گرفتہ نظر آ رہے ہیں اور ان کی آنکھوں میں آنسوتھے۔ وہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں سے کہہ رہے تھے یہ تو بہت بڑا ظلم ہو گیا ہے مگر آپ خود کو تنہا نہ سمجھیں اس مشکل وقت میں مَیں آپ کے ساتھ ہوں ۔ لوگ میاں صاحب کو مشورہ دے رہے تھے کہ آپ یہاںسے چلے جائیں کیونکہ آپ کی زندگی کو بھی خطرہ ہے۔ آج نواز شریف کی بیٹی انتہائی متشکرانہ انداز میںبتا رہی تھیں کہ جب وہ نو ڈیرو ہائوس پہنچیں تو رات کے ڈیڑھ بجے تھے لیکن بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو زرداری ان کے استقبال کے لئے گھر کے دروازے کے باہر موجود تھے۔ دوسری طرف بختاور بھٹو کی منگنی پر ان کی ممانی غنویٰ بھٹو اور کزن فاطمہ بھٹو اور بھٹو جو نئیر موجود نہیں تھے۔ محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع 70کلفٹن کے مکین بہت عرصے بعد بھی بھٹو فیملی میں ہونے والی خوشی کی تقریب بلاول ہائوس میں مدعو نہیں تھے۔ ربع صدی قبل بھٹو کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو کو 70کلفٹن کے قریب بے دردی سے گولیوں کا نشانہ بنا دیا گیا تھا اور اس وقت ان کی بڑی بہن بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھیں ۔ یہ ہمارے سیاسی موسم کی بے یقینیاں ہیں۔ آج کی صورت حال میں سب بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔حکومت ڈیلیور کرنے میں بے بس ہے۔ اپوزیشن حکومت کو گھر بھیجنے کی کوششوں میں اب تک بے بس ہے اور لگتا ہے کہ کوئی بھی تیسرا فریق ایسا نہیں جو ان کے درمیان جنگ بندی کراکے مذاکرات کی میز پر بٹھا سکے ۔ بس یہی لگ رہاہے کہ کسی کا بس کسی پر نہیں چل رہا ہے۔ عمران صاحب کے ڈھائی سال گزر گئے ہیں اورزیادہ سے زیادہ ان کے پاس وقت ڈھائی سال رہ گیا ہے۔ آپ نے بہت سے وعدے کئے تھے مگر ان کو اب دہرانا بے کار ہے ۔ لیکن آپ نے جن ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر وں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا وہ تو اب خارج از امکان ہے۔ آپ اگر کچھ کر سکتے ہیںکہ تو کم از کم ان مافیاز پر قابو کر لیں، جنہوں نے ملک کے چھ سات کروڑ لوگوں کو دبوچ رکھا ہے۔ یہ بھتہ مافیا ہیں جنہوں نے ان غریب لوگوں کو اپنا محتاج بنا رکھا ہے۔ گذشتہ جو بھی حکومتیں آئیں ، انہوں نے اس پہلو کی طرف توجہ نہ دی۔ یہ مافیاز مختلف شکلوں میں مضبوط ہو گئی ہیں ۔ یہ درحقیت اصل استحصالی قوتیں ہیں جو تمام معاملات کو کنٹرول کر رہی ہیں۔ آپ ان مافیاز کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لیکر ان کو قابو کریں۔یقین جانیں کہ اگر آپ نے ان مافیاز پر قابو پا لیا تو معاشرے کے بہت سے مسائل حل ہو جا ئینگے۔ یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ 22کروڑ آبادی کے اس ملک میں مجھے ایک بھی ڈاکٹر یونس نظر نہیں آ رہا ہے، جو ایدھی کی طرح جھولی پھیلا کر نکلے اور ایک گرامین بنک کی بنیاد رکھے کیونکہ غر یب بنگلہ دیش کا ہو یا پاکستان کا ہو، وہ جاگیر دار ، سرمایہ دار اور بزنس مین سے ز یادہ ایماندار ہوتا ہے۔ مگر ہماری حکومت تو کچھ نہیں کر رہی ہے تو کیا کوئی ہے جو غریب پر اعتماد کرکے اس کو جینے کا اعتماد دے سکے۔