زرداری صاحب کا یہ کہنا کہ وہ اور بھی مشہور ہو جائیں گے۔ آپ اس پر لاکھ تبصرے کرتے رہیں مگر یہ بات ہے بہت دلچسپ۔ ہمیں اپنا ایک بھولا بسرا شعر یاد آ گیا: اور بھی مشہور ہوتا جا رہا ہوں میں زندگی سے دور ہوتا جا رہا ہوں میں ایک بات ہمیں میڈم نورجہاں کی یاد آئی۔ جب ریڈیو کا سنٹر پروڈکشن یونٹ CPUبنا تو ہم بھی گانے لکھنے والوں میں تھے جبکہ اعظم خاں صاحب انچارج تھے۔ کسی نے میڈم نورجہاں سے کہہ دیا۔ میڈم اب تو گانے انیس سٹیشنوں سے چلیں گے۔ میڈم نورجہاں نے برجستہ کہا’’پھر تو میں بہت مشہور ہو جائوں گی؟ تو قبلہ زرداری صاحب آپ کے مشہور ہونے میں پہلے کون سی کسر باقی ہے؟’’بدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہو گا‘‘ بچہ بچہ آپ کے نعرے لگاتا۔ کن کن ناموں سے آپ مشہور ہیں۔ مسٹر ٹین پرسنٹ سے لے کر ’’مرد حر‘‘ تک ایسا تضاد بھی کس میں ہو گا۔ بڑے لوگوں میں تضادات بھی بڑے ہوتے ہیں۔ یہ شہرت بھی بڑی عجیب شے ہوتی ہے۔ آدمی بے پروں کے ہوا میں اڑتا پھرتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ ہوائیں اسے اڑائے پھرتی ہیں۔ شہرت میں نیک نامی بھی ہے اور بدنامی بھی۔ احمد مشتاق یاد آئے: خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو شہرت ایسی ہوس ہے کہ کچھ نہ پوچھئے اس کے لیے بندہ خجل خراب بھی ہوتا ہے۔ شعرا میں اس کی خواہش ذرا زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے ایک شاعر نے تو مشہور ہونے کے لیے نام ہی یہی رکھ لیا تھا۔ مگر نہیں صاحب! شاعر نام رکھنے سے بھی کب کوئی شاعر بن جاتا ہے۔ شہرت بڑی پراسرار چیز ہے جس کو شہرت ملنا ہوتی ہے ایک شعر یا غزل ہی سے ایک رات میں مل جاتی ہے اور کئی بے چارے ہزاروں صفحات سیاہ کرتے ہیں۔ مگرانہیں شہرت کی ایک کرن نصیب نہیں ہوتی۔ مقبولیت ایک عطا بھی ہے اور جزا بھی کسی نیک نیتی کی یا معصومیت کی۔ شہرت بری چیز بھی ہے اگر آپ کا عجز چھین لے اور آپ کا سفر رائیگاں کر دے۔ یعنی آپ میں ٹھہرائو آ جائے۔ آپ شہرت کے نشے میں بہہ جائیں بہرحال یہ ہر حال میں ایک منفرد احساس ہے: شہرت کے ساتھ ساتھ بڑھا ہے یہ اضطراب گمنام سا وہ شخص ہمیں مانتا نہیں آپ کی شہرت دوسروں کے نظر نواز ہونے کا سبب بھی بنتی ہے۔ جس سے حسد اور تضاد بھی لامحالہ پیدا ہوتا ہے۔ ظاہر‘ آپ کی عزت دوستوں کو کیسے برداشت ہو سکتی ہے وہ آپ کو نیچا دکھانے کا سوچنے لگتے ہیں اور بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ انسان کے پائوں زمین سے اکھڑنے لگتے ہیں۔ دوسرے لوگ اسے حقیر لگنے لگتے ہیں یا کم از کم شہرت پانے والا خود کو بلند سمجھنے لگتا ہے اس طرح وہ کئی رشتوں سے کٹنے لگتا ہے۔ وہ خود کو آسمانوں پر تلاش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ کہیں پر بھی نہیں ہوتا۔ آخر ہوا نکل جاتی ہے: پھول خوشبو کے نشے ہی میں بکھر جاتے ہیں لوگ پہچان بناتے ہوئے مر جاتے ہیں ویسے شہرت تو وہ جو مرنے کے بعد بھی خوشبو کی طرح ہر طرف پھیلی ہے۔ جس طرح کے صوفیا کا معاملہ ہے یا دوسرے برگزیدہ لوگوں کا جو اس پیڑ کی طرح ہوتے ہیں جو پھل لگنے پر مزید جھکتا جاتا ہے۔ شہرت بہت اچھی شے ہے اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے اگر وہ لوگوں کے کام آ جائے کسی کی سفارش کر دے کسی کی مدد کر دے یا کسی کا بازو پکڑ لے۔ اگر یہ نہیں تو پھر دماغ میں خناس بھی آ سکتا ہے‘ گردن میں سریا بھی اور چال میں نخوت بھی۔ مگر کب تک کوئی زمین پر اکڑ اکڑ کر چل سکتا ہے۔ کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ زمین اور آسمان کی حدود سے باہر نکل سکے سوائے اللہ کے اذن کے۔ کسی نے کہا تھا: ایویں میری میری کرناں ایں ‘ توں کفر دی بیڑی چھڑدا ایں دو گز دا ٹوٹا کفن ترا ہتھ آیا آیا نہ آیا انسان میں میں کرتا ہی بکری بن جاتا ہے۔ چلیے شہرت ملی بھی تو گئی تو کیا ہو گا: مسئلہ یہ ہے کہ اب کیا ہو گا ہو چکی اپنی پذیرائی بھی چلیے زرداری صاحب کی طرف واپس آتے ہیں۔ جنہیں شہرت ابھی تک تمنا ہے۔ انہیں اتنا بھی نہیں پتا کہ ان کی شہرت نے تو بھٹو اور بے نظیر کی شہرت کی بھی ایسی کی تیسی کر دی۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ وہ کچھ کر دیا جس کا جنرل ضیاء الحق بھی کبھی سوچ نہیں سکتا تھا۔ مزید برآں یہ کہ وہ نواز شریف کو اپنی شہرت کا شکار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فرینڈلی آمیزش کا مک مکا‘ باریاں اور بہم لوٹ مار۔ سب کی شہرت ایک جیسی ہو گئی ان شہرتوں نے عمران کو کنٹراسٹ میں نمایاں کر دیا۔ لیکن اس کے باوجود شہرت کو نیک نامی بنا دیا گیا۔ آسان نہیں وہ نیک نامی کسی بڑے مقصد کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ قائداورعلامہ محمد اقبال کے حصے میں آئی ان کی شہرت ہمارے دشمنوں سے برداشت نہیں ہو رہی۔ آپ دیکھ نہیں رہے کہ یوم اقبال پر چھٹی ختم کی گئی اور موجودہ حکومت نے بھی اس کارنامے کی پیروی کی۔ ان کو نظر انداز کرنا ہی نظریہ کو ترک کرنا ہے۔ اس کے بارے میں نئے حکومتی کارندے ‘ قائد اور اقبال کی چھٹی کرانے کے ایجنڈا پر ہیں یہ دونوں ہستیاں مسلمانوں ‘پاکستانیوںکے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی وجہ ہی سے ہمیں آزادی ملی مگر حکمران غلام بن گئے اور اپنے نجات دھندوں کو بھول گئے۔ چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ زرداری صاحب اور بھی مشہور ہو جائیں گے۔ آخر میں دو شعر: یہ کیا ہوا کہ اک مرے مرنے کی دیر تھی یکم دم ہی جی اٹھے مرے دشمن مرے ہوئے ہم رہروانِ شوق تھے منزل کوئی نہ تھی منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے