وقت نے یہ ثابت کردیاہے اورپوری دنیااب یہ حقیقت تسلیم کرتی ہے کہ طالبان افغانستان کی سب سے موثر جنگی و سیاسی قوت ہیں مگراس المیے کاکیاکریں کہ بھارت اس حقیقت سے آنکھیں چرارہاہے اورتاحال وہ اپنے شیطانی حربوں سے بازنہیں آتا۔حالانکہ طالبان کی قوت کے سامنے بھارت کی افغانستان میں ابلیسی چالوں کوپرکاہ کی بھی حیثیت نہیں۔یہ الگ بات ہے کہ بغیرکسی ردوکدکے طالبان دلجوئی سے گفتگوکرنے کے خوگرہیں لیکن حرب وضرب کے میدان میں جنگی منصوبوں میں انکی فراست صادقہ،استغراق فن حرب اور شمشیرزنی کی قوت اورلڑائی کے بے باکانہ انداز کاحال امریکہ اور اسکے اتحادیوںسے پوچھا جانا چاہئے کہ جس نے ان کے عسکری انبوہ کے چھکے چھڑادیئے اورانکی فوجی بھیڑ کواوراق ردی کی طرح منتشرکر دیا۔ اپناکروفر ختم ہوا دیکھتے ہوئے اور سرزمین افغانستان پراپنے لئے دگرگوں حالات دیکھ کرہی امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کیا۔ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے منتظم شیر محمد عباس ستنکزئی نے اپنے ایک انٹرویو میںکہا ہے کہ بھارت نے افغانستان میں ہمیشہ غداروں کی مدد کی نئی دہلی کا افغانستان میں کردار منفی رہا ہے ۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں امریکہ کے نمائندہ برائے افغان امن عمل خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھارتی قیادت سے ملاقات کی اور اس پرواضح کیاکہ طالبان افغانستان میں ایک حقیقت ہیںاس لئے وہ طالبان کے حوالے سے اپنارویہ تبدیل کرکے افغان امن عمل کا حصہ بنے اوراسے آن بورڈ آناچاہئے۔لیکن بھارت نے دوٹوک انکارکردیا۔بھارت کے ایک سابق سفیرکاکہناہے کہ طالبان کو بھارت سے پہلے افغان حکومت کو تسلیم کرنا چاہیے اور اسے بات کرنی چاہیے۔بھارت کے اس عہدے دارکے اس بیان سے افغاں طالبان کہ قطردفترکے منتظم شیرمحمدعباس کے حالیہ انٹرویو پرمہرتصدیق ثبت کردی کہ طالبان کے بجائے بھارت انکی حریف جماعتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہے ۔ اس وقت خطے کے تمام ممالک پاکستان ،چین ،ایران اورروس طالبان کوافغانستان کی ایک مبرہن حقیقت سمجھتے ہوئے نہ صرف ان کے ساتھ رابطے استوارکئے ہوئے ہے بلکہ روس نے تو افغان امن عمل کے سلسلے میں نومبر 2018ء میں بین الافغان کانفرنس کی میزبانی بھی کی تھی۔ واحد بھارت ہے کہ جو طالبان کے ساتھ کد رکھتاہے اور ان کا دشمن اورطالبان حریف پہلے کرزئی اوراب اشرف غنی کادوست بناہواہے۔دونوں کے ادوارمیںبھارت نے کابل کے ساتھ اپنی دوستی کو ہر ممکن طور برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔اس دوران بھارت نے افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی کی ہے ۔ذرائع کے مطابق اب تک بھارت افغانستان میں دو بلین امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔اس سرمایہ کاری نے نئی دہلی ،کرزئی اوردہلی اشرف غنی کی دوستی کوہردودورمیں مضبوط کیا ۔جب 2001میں امریکہ اوراس کے اتحادخبیثہ کی افغانستان پرجارحیت کے بعد طالبان کی امارت اسلامی کاسقوط ہواتواس کے فوراََبعدبھارت نے کابل میں کئی برسوں سے بنداپناسفارت خانہ کھول دیا۔ لیکن بھارت کی اس ڈیل کے باوجود زلمے خلیل زاد نے اپنے حالیہ دورہ بھارت کے دوران دہلی میں انگریزی اخبار دی ہندو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات کرنی چاہیے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امریکہ نے بھارت کو طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کا مشورہ دیا۔ جس کامطلب یہ ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں فرارکی راہ چاہئے اس حوالے سے وہ بھارتی فریب کاری کو مسترد کرتے نظر آ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت ،طالبان کے ساتھ دشمنی کیوں رکھتاہے۔ بھارت کی جاہل قیادت کواس حوالے سے اس کے سواکوئی وجہ نظرنہیں آرہی کہ طالبان کا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدہ امن ہوا تو بھارت میں تشویش کی لہر دوڑگئی۔ اس کی خواہش اور کوشش تو یہی تھی کہ ایسا کوئی معاہدہ نہ ہونے پائے اور وہ امریکا کی چھتری تلے پاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصد پورے کرتا رہے۔ پاکستان سے ملحقہ افغان علاقوں میں بھارت کے قونصل خانے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں پوری طرح ملوث ہیں۔ وہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کررہے ہیں ، انہیں اسلحہ فراہم کیا جارہا تھا، نقد امداد دی جارہی ہے۔ یہ سارے کام پہلے کرزئی اوراب اشرف غنی حکومت کی ناک کے نیچے ہورہے ہیں۔اس کھلی چھوٹ کے بدلے بھارت افغانستان کے متعدد ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا تھا وہ دریائے کابل پر ڈیم بنانے میں بھی افغان حکومت کی مدد کررہا تھا۔ اس طرح وہ پاکستان پر دریائے کابل کا پانی بند کرنا چاہتا تھا اور دوسری طرف افغان حکومت کو ممنون احسان کرنا مقصود تھا۔ افغانستان پرگہری نظررکھنے والے امریکی مصنف برنیٹ آر ریوبن کہتے ہیںکہ زلمے خلیل زاد نے بھارتی قیادت سے اپنی گفتگومیں کہاکہ اب جب طالبان افغان پولیٹیکل سسٹم میں داخل ہورہے ہیں تو بھارت کے لیے یہ اچھا ہوگا کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطے میں رہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل قریب میں افغانستان میں حکومت طالبان کی ہوگی ۔یہی وجہ ہے کہ دوحہ میں اس نے اپناسیاسی دفتر قائم کیاہواہے کہ جس کے ساتھ ہرملک جب چاہے اورجس وقت چاہے رابطہ کرکے طالبان کی پالیسیوںسے متعارف ہوسکے۔دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کہتے ہیں کہ طالبان کا سیاسی دفتر اسی لیے بنایا گیا ہے کہ دنیا کے ممالک کے ساتھ ان کی پالیسی سے آگہی حاصل کرسکیں۔ ان کاکہناہے کہ جو بھی ان سے رابطہ کرے گا تووہ انہیں طالبان کی حکومت سازی اوربین الاقوامی ممالک کے ساتھ روارکھی جانے والی پالیسیوں کے حوالے سے پوری طرح معلومات فراہم کریں گے ۔