ملک میں تھا کوئی بادشاہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ یہ بادشاہ ابھی نیا نیا تخت پر بیٹھا تھا۔ بیٹھا کہاں تھا‘ بٹھایا گیا تھا۔ کوہ قاف کے اس ملک میں پہلے ایک اور بادشاہ تھا جسے کوہ قاف والوں نے ناراض ہو کر تخت سے اٹھا کر بندی خانے میں بند کر دیا تھا۔ وہ بادشاہ پوچھتا تھا‘ مجھے کس جرم میں بند کیا اس پر کوہ قاف والے اور بھی غصے میں آ جاتے اور اس کی سزا بڑھا دیتے۔ کوہ قاف کی ناراضی کی وجہ ایک الگ کہانی ہے۔ خاصی لمبی اور پراسرار‘ تاریخ کا چھاپہ خانہ اسے اپنے وقت پر چھاپے گا۔ فی الوقت دوسری کہانیاں پڑھیے۔ خیر‘ نیا بادشاہ تخت پر بٹھا دیا گیا۔ ملک بھر میں جگہ جگہ موجود طلسمی آئینوں پر بیٹھے پری زاد اور دیو ایک طلسمی دھن بجانے لگے۔ نیا بادشاہ جادو گر ہے۔ غضب کا جادو گرہے‘ بلا کا جادوگر ہے‘ کمال کا جادوگر ہے۔ یہ ایسا جادو چلائے گا کہ غریبوں کی غربت کم ہو جائے گی بے گھروں کو مکان مل جائیں گے‘ بے کار پھرتے لوگوں کو نوکری اور کام مل جائے گا‘ کارخانوں کی پیداوار آپ ہی آپ بڑھ جائے گی‘ ہر شے سستی ہو جائے گی۔ کوہ قاف میں غربت تھی۔ باہر سے تاجروں کے قافلے بھی بہت زیادہ نہیں آتے تھے‘ ادھر سے بھی کم ہی قافلے باہر جاتے تھے۔ پرانے بادشاہ نے بہت سی ترکیبیں کیں۔ قافلوں کی آمدو رفت بڑھائی‘ راستے کھولے‘ نئے کارخانے لگائے۔ مہنگائی کی لگام کو کھینچا۔ لیکن نئے بادشاہ کے آتے ہی سب کچھ تلپٹ ہو گیا۔ پریزادوں اور دیووں نے لوگوں سے کہا‘ گھبرائو نہیں۔ تبدیلی میں پہلے پہل ایسا ہوتا ہی ہے۔ جادو گر بادشاہ کو جادو چلانے دو‘ پھر دیکھو۔ نئے بادشاہ نے کہا میں ملک بھر سے غربت میں کمی اور ترقی کے ماہر جادوگروں کی ٹاسک فورس بنائوں گا۔ یہ لوگ اپنے شعبے میں کوہ قاف کی کریم ہوں گے۔ ایسے ایسے فارمولے بنائیں گے کہ ان پر عمل ہوتے ہی‘‘ڈے ون‘‘ سے ملک جنت بننا شروع ہو جائے گا۔ پھر اس نے ایسا ہی کیا۔ ایک ٹاسک فورس بنائی اور کئی کمیٹیاں اور انہیں حکم دیا کہ اپنی ذہانت کی ساری پھرکیاں گھمائو‘ اپنے دفاع کے سارے پیچ لڑائو اور ایسے فارمولے نکالو کہ بس ڈنکے ہی بج اٹھیں۔ درجنوں جادوگر بیٹھ گئے‘ اتنی ساری ذہانت‘ سارا علم اور تجربہ نچوڑنے لگے۔ طلسمی آئینوں پر پریزاد پھر نغمے گانے لگے کہ ایسے منترتیار ہو رہے ہیں کہ پڑھتے ہی چین امریکہ سے آگے نکلنے کے راستے ہمیں مل جائیں گے۔ بہاریں طوفان بن کر آئیں گی۔ خوشحالی کے سونامی میں غربت کے پہاڑ بہہ جائیں گے۔ جادوگر دو ہفتے تک بیٹھے رہے اور آخر انہوں نے ایک کمال کا فارمولا تیار کر ہی لیا۔ پھر انہوں نے بادشاہ کو اطلاع دی۔ بادشاہ نے ان کا فارمولا دیکھا اور خوشی سے ناچ اٹھا۔ سارے جادوگروں کے منہ موتیوں سے بھر دیے۔ فارمولا صرف دو لفظوں کا تھا: ’’چندہ مانگو‘‘ اسی رات بادشاہ سلامت طلسمی لوح پر بیٹھا رعایا سے چندہ دینے کی اپیل کر رہا تھا۔ ٭٭٭٭٭ یہ کوہ قاف کی کہانی ہے‘ اسے اپنے ملک کا قصہ مت سمجھ بیٹھیے مشابہت تو محض اتفاقی بات ہے۔ کہیں بھی ہو جاتی ہے‘ کہیں بھی ہو سکتی ہے۔ اپنے ملک کا قصہ دو لفظوں میں یوں ہے کہ دھندہ کرنے والے گئے۔ چندہ والے آ گئے۔ دھندہ دنیا داری ہے‘ چندہ بھلائی کا اور تعویذ گنڈہ روحانی کام ہے۔ اب ملک بھلائی کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے تو بھلائی کیوں نہیں ہو گی۔ لوگوں کے اعتراضات پر نہ جائیے‘ الٹے سیدھے سوال کرنا ان کی عادت ہے۔ کل ہی ایک کندہ ناتراش کہہ رہا تھا کہ حکومت کو چندہ مانگنے کی حاجت ہی کیوں ہوئی بلکہ اس کا وزیر اطلاعات خود بتا چکا ہے کہ حکومت جب سے آئی ہے‘ روزانہ 51ارب روپے کی بچت کر رہی ہے‘ اس حساب سے ایک کیا‘ درجنوں ڈیم بنا چندہ مانگے ہی بن جائیں گے۔ ٭٭٭٭٭ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے پتہ نہیں کس سے پوچھا ہے کہ پانامہ لیکس میں شریف خاندان کے علاوہ بھی 436نام آئے تھے‘ ان کا کیا بنا‘ ان کے خلاف کوئی کارروائی ابھی تک کیوں نہیں ہوئی؟۔محترم رات گئی بات گئی‘ اب بات پر مٹی پائیے اور اس بات پر شکر کیجیے کہ جس کا نام لیکس میں آیا ہی نہیں تھا‘ اسے سزا بھی ہو گئی اور عمر بھر کے لیے نااہلی بھی ‘ قوم کو اتنا تحفہ کافی نہیں۔ ویسے سوال کرنے کی حاجت مافوق الفہم ہے۔ پانامہ میلہ سجا تھا‘ تبھی آپ کو سب پتہ تھا کہ کب کب کیا کیا ہونا ہے‘ پھر تب تب وہ وہ ہوا جو ہونا تھا۔ جیسے لکھا تھا بالکل ویسے اور آپ کو ساری کہانی کا پتہ تھا۔ سوال ردمال کا ‘ ادھر وہ ملا‘ ادھر میلہ اجڑا۔ اب نیا میلہ ہے‘ اس کا لطف اٹھائیے۔ یہ بے چارے 436جو ہیں‘ کسی کا کیا لیتے ہیں۔ انہوں نے حق حلال کی ہی تو اکٹھی کی ہے۔ ٭٭٭٭٭ ایک وزیر باتردید نے فرمایا ہے کہ حکومت نے بجلی گیس مہنگی نہیں کی۔ بجا فرمایا۔ یہ چیزیں تو وفاقی کابینہ نے مہنگی کیں‘ اپنے پچھلے اجلاسوں میں ۔ حکومت نے کیا کیا۔ اسی لیے وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا جو اجلاس ہونے والا ہے‘ اس کے ایجنڈے کا سب سے اہم نکتہ یہی ہے کہ 46فیصد گیس مہنگائی کرنے سے کیا سیاسی (مضر) اثرات ہوئے۔ یہ اجلاس کابینہ نے بلایا ہے‘ حکومت نے نہیں۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ مہنگائی 20فیصد تک بڑھنے والی ہے۔ ایسی تیز رفتاری پہلے کبھی نہیں تھی‘ ماشاء اللہ۔ سراج الحق ‘ شہباز شریف اور بعض دوسرے حضرات نے بجلی گیس کھاد وغیرہ کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کیا ہے۔ لیکن اصل میں ان اشیا کے علاوہ مزید 18اشیا اور خدمات مہنگی کی گئی ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ان معمولی احتجاجی بیانات کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوا یعنی ع اور اس پر بھی ہے سناٹا یہ وہ مصرعہ ہے جو مرحوم حبیب جالب نے ایوب کے دور میں آٹا 20روپے من ہونے پر کہا تھا۔ ٭٭٭٭٭ چین کے وزیر خارجہ تشریف لائے‘ مذاکرات کئے اور بعدازاں مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی۔ غنیمت بات ہے ۔ امریکی وزیر خارجہ نے ’’مذاکرات‘‘ کئے تھے تو مشترکہ پریس کانفرنس تو ایک طرف‘ مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوا۔ چینی وزیر خارجہ کی آمد پر استقبال کے لیے کوئی سیاسی عہدیدار نہیں گیا۔ ایک افسر کو بھیج دیا گیا۔ کسی نے کیا کہا یہ چین کو کسی قسم کا پیغام ہے؟ ہو سکتا ہے‘ لیکن زیادہ وزن اس بات میں ہے کہ امریکہ کو پیغام ہے۔ کسی چینی عہدیدار کا اس’’شاندار‘‘ سطح کا استقبال پہلے کبھی نہیں ہوا۔ شہباز شریف نے اس پر تشویش ظاہر کی ہے۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ سی پیک سے پاکستان میں ترقی ہوئی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے انہیں بتایا کہ اس ترقی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ٭٭٭٭٭ قادیانی مشیر کے استعفے کے بعد اقتصادی مشاورتی کونسل کے مزید دو ارکان مستعفی ہو گئے۔ یہ دونوں قادیانی تو نہیں لیکن قادیانی نواز ضرور ہیں اور ان کے علاوہ مزید 2ارکان بھی قادیانی نواز ہیں‘ پانچوں کا تعلق اسی گروہ سے ہے جسے ’’نائجیریا‘‘ گروپ کہا جاتا ہے۔ نائجیریا میں قادیانی احباب کا مضبوط نیٹ ورک ہے۔ وہاں کے کئی حکومتی وزیر بھی شامل ہیں۔ ان پانچوں مشیروں کا ’’نائجیریا کنکشن‘‘ محض اتفاق کی بات ہو گی۔