کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں

جا میکدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

عدم کے اس شعر سے معلوم ہوا کہ جوانی کہیں کھو نہیں جاتی‘ بس میکدے میں پڑی رہ جاتی ہے اور کسی آتے جاتے کے ہاتھوں پھر سے منگوائی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ محض شاعرانہ تعلی ہو لیکن سیاست میں تو اس کی تجلی سبھی نے دیکھ لی۔

عظیم اور تابندہ ستاروں کی وہ کہکشاں جو آج سے ٹھیک دس سال پہلے کھو گئی تھی اب پھر سے جلوے بکھیر رہی ہے۔ اکتوبر 1999ء میں ہمارے تیرہ تاریک سیاسی افق پر ایک ماہ کامل کا طلوع ہوا تھا جس کی ضیاء پاشیاںپورے آٹھ سال تک اس اندھیرے نگر کو منور کرتی رہیں۔ پھر زمانے نے کروٹ لی ‘ماہ کامل غروب ہوا ساتھ ہی اس کی کہکشاں بھی روانہ ہوئی     ع

اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے

یہ سانحہ غروب 18اگست 2008ء کو پیش آیا تھا۔ ٹھیک دس سال کے بعد جو سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا وہیں سے پھر جڑ گیا۔ کہکشاں لوٹ آئی کوئی دن جاتا ہے اس کے چندے آفتاب چندے ماہ تاب کی کمی بھی پوری ہو جائے گی۔ باقی سارا انتخاب نگہ انتخاب نے کر لیا۔صدر کا انتخاب ہونا ہے ہر چند کہ رشک قمر کو درد کمر کا دائمی اور لاعلاج عارضہ لاحق ہے لیکن پھر سے وہ سنہرا دور لانے کے لیے ان سے درخواست کی جائے تو وہ اس تکلیف دہ بیماری کو خاطر میں کہاں لائیں گے‘ دوڑے چلے آئیں گے۔

٭٭٭٭٭

نئے پاکستان کے بابائے قوم جو کہتے ہیں اس کے اندر جہان معنی ہوتا ہے‘ معنی سے ناشناس لوگ ان کی رمز کو سمجھ نہیں پاتے۔ پچھلے پانچ سال آپ نے کرپشن اور بیڈ گورننس کے خلاف تاریخی تحریک چلائی اور تقریباً ہر جلسے میں وہ موجود(اب سابق) حکمرانوں کا اس مہ کامل سے موازنہ  کرتے۔ اس کی برکات کو یاد کرتے اور موجود(اب سابق) دورنحوست پر ہزار ہا لعنت بھیجتے۔ افسوس کہ میڈ یا ان کی دوسری باتوں کو ’’ہائی لائٹ‘‘ کرتا رہا لیکن اس رمز کو اجاگر نہ کر سکا اب وقت آنے پر اس رمز کے معنی کھلے کہ نہیں!

٭٭٭٭٭

کہکشاں میں جناب شیخ بھی شامل ہیں جنہوں نے مہ کامل کے دور میں ریلوے کو چار چاند لگائے ان سے پہلے اسی ماہ کامل کے دور میں ایک اور صاحب جنرل قاضی نام کے بھی وزیر ریلوے رہے۔ انہوں نے چار سے زیادہ چاند لگائے۔ چار سے زیادہ یعنی کتنے؟اس بارے میں اختلاف ہے۔ چار سے زیادہ پانچ بھی ہوتے ہیں اور پانچ سو بھی۔ لیکن اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے ورنہ جھگڑے کا خدشہ ہے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ چار سے زیادہ چاند لگائے۔

جھگڑے والا لطیفہ سنا نہیں تو دیکھا ہے‘ ایک پنجابی فلم میں۔ منظر یہ تھا کہ سڑک سے ہٹ کر ڈیڑھ دو سو سائیکلیں پارک تھیں۔ کوئی شرارتی بچہ آیا اور اس نے ایک سائیکل کو باقی سائیکلوں کی طرف دھکا دے دیا۔ دھکے سے دوسری سائیکل بھی جھکی پھر تیسری اور اس کے بعد’’چین ری ایکشن‘‘ یا ڈومینو افیکٹ کے تحت ساری کی ساری ڈیڑھ دو سو سائیکلیں اڑاڑا دھڑام کر کے نیچے جا گریں۔ اتنی بڑی ماحولیاتی تبدیلی کا کھڑاک سن کر سامنے کے بنگلے کی بالکونی پر دو سردار جی نمودار ہوئے۔

اتنی ساری سائیکلیں گری دیکھ کر دونوں بھونچکے رہ گئے۔پھر ایک بولا کمال ہے ساری کی ساری گرا دیں‘ دوسرے نے کہا یہ کسی ایک آدمی کا کام نہیں‘ بہت سے لوگ آئے ہوں گے اور گرا کر چلے گئے۔

پھر ایک نے پوچھا تمہارے خیال میںکتنی سائیکلیں ہوں گی۔ دوسرے نے ادھر سے ادھر نظر دوڑائی‘ دل ہی دل میں کچھ حساب لگایا اور کہا میرے خیال سے یہ کم از کم دس ہوں گی۔ دوسرے سردار جی ناراض ہو گئے صرف دس؟میرے خیال سے یہ پندرہ سے بھی زیادہ ہیں، پہلے نے پھر کہا دس‘ دوسرے نے دہرایا پندرہ اور پھر دونوں گریباں گیر ہو گئے۔

کیوں جھگڑا ہو گیا۔ خیر کوئی تیسرا آیا اور اس نے ثالثی کرا دی۔ کہنے کا مطلب ہے کہ شیخ جی اور قاضی جی نے مل کر ریلوے کو کل کتنے چاند لگائے۔ اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ کیس دس سال سے عدالت میں ہے۔ سو پچاس برس میں فیصلہ آ ہی جائے گا کل کتنے چاند تھے۔ سر آسمان ریلوے ! فی الحال تو نئے چاند لگنے کا انتظار فرمائیے۔

٭٭٭٭٭

انتخاب کے موقع پر قومی اسمبلی میں جو مشاعرہ ہوا اس کا حاصل بلاول کی غزل تھی اور اس غزل کا حاصل اس کا مقطع تھا۔ انہوں نے کچھ یوں ارشاد کیا     ع

مبارک ہو جناب پرائم منسٹر سلیکٹ

سلیکٹ کا لغوی ترجمہ جو بھی ہو معنوی ترجمہ ظاہر ہے۔ اس پر بابائے قوم نے ڈیسک بجا کر دادی۔ لوگوں نے اس داد دینے پر ’’بے فضول‘‘ قسم کے تبصرے کئے کسی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ بلاول زرداری کا طنز لطیف بابائے قوم کے سر پر سے گزر گیا۔

ایسی بات نہیں بابائے قوم کی سخن فہمی اتنی بھی بری نہیں۔ بلاول نے جو سچ ارشاد فرمایا بابائے قوم نے اس کی تائید کی کہ ’’سلیکٹ‘‘ کے سچ کو ان سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔

٭٭٭٭٭

بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں ووٹ کی چوری کا ذکر بھی کیا۔ کچھ اور بھی سخت بات کی جو اخبارات میں نہیں چھپ سکتی۔ ایسی باتیں چھپنا بھی نہیں چاہئیں۔ ٹی وی چینل بہت اچھا کرتے ہیں کہ آواز میوٹ کر دیتے ہیں۔ بہرحال جو باتیں قابل اشاعت ہیں ان میں دھاندلی، نتائج کی تبدیلی، پولنگ سٹیشنوں سے پولنگ عملے کو نکال باہر کرنے وغیرہ کے معاملات شامل ہیں۔ یہ بھی کہا کہ ہم اس چوری کا حساب لیں گے۔

ملتی جلتی باتیں شہباز شریف نے بھی کیں لیکن حیرت ہے ان کی بات کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا پتہ نہیں کیوں؟

اسی روز متحدہ کے فاروق ستار بھی گویا ہوئے اسمبلی میں نہیں‘ کراچی میں فرمایا حیرت ہے‘ دس دس پولنگ سٹیشنوں کے نتائج ایک ہی صاحب کی تحریر میں لکھے گئے ‘ یہ کیسے ممکن ہے؟

لگتا ہے فاروق ستار ’’کرامات‘‘ کے منکر ہیں۔ یہ کرامات کا دور ہے اور ابھی تو کرامات کی محض شروعات ہے اور آپ بوکھلا گئے۔ کرامات کی جھڑی لگے گی تو کیا کیجیے گا۔

٭٭٭٭٭

کرامات کا ذکر آیا تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب بزدار صاحب کی کرامات کا بیان بھی کیوں نہ ہو جائے موصوف غریب آدمی ہیں گھر میں بجلی بھی نہیںہے۔یہ پی ٹی آئی والوں نے فرمایا۔

اب کرامات دیکھیے۔ گھر میں بجلی نہیں ہے لیکن ٹی وی سیٹ ہیں‘ فریج ہیں‘ فینسی اور نان فینسی لائٹس ہیں دوسرے برقی آلات بھی ہیں۔

بجلی نہیں ہے تو پھر یہ سب کیسے چلتے ہیں؟ارے بھئی کرامات سے اور کیسے؟

٭٭٭٭٭

جنگل میں ہرن مسلسل شیروں کا نوالہ بنے جا رہے تھے‘ ناچار سوچا کیوں نہ شیروں کی کولیشن میں پارٹنر بن جائیں‘ شاید بچ جائیں سو وہ کولیشن کے اتحادی بن گئے‘پھر پتہ نہیں کیا ہوا(ایسے ہی ایک گپ شپ)

قومی اسمبلی میں بلوچ لیڈر اختر مینگل نے بڑی دردناک تقریر کی۔ کچھ کے دل بھر آئے باقی کے ویسے ہی بھرے ہوئے تھے۔ بلوچوں سے زیادتی پر گریہ کیا‘ کہا‘ پانچ ہزار بلوچ بچے لاپتہ ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

اختر مینگل صاحب‘ آپ لوگ بڑی آزمائش میں ہیں لیکن پھر آپ شیروں ہی کے اتحادی ہو گئے؟

٭٭٭٭٭

ان پڑھ اور پڑھے لکھے میں کیا فرق ہے؟

ان پڑھ چٹیں نکال نکال کر پڑھتا ہے۔ پڑھا لکھا موٹی لکھائی والا کاغذ سامنے رکھ کر ‘ ٹیوٹر کے ’’املا‘‘ کرانے پر بھی بار بار اٹک جاتا ہے‘ فمبلFumbleکر جاتا ہے۔کچھ کا کچھ پڑھ جاتا ہے۔

پڑھی لکھی قیادت کا زمانہ آ گیا ہے۔