اللہ تعالیٰ مجھے جمہوری نظام کی اس مکروہ گروہ بندی اور تقسیم سے دور رکھے جس میں قرآن و سنت کے دریا کے شناور علماء بھی جب سیاسی پارٹیاں بنا لیتے ہیں تو الیکشن ہارنے کے بعد ان کا پہلا اور آخری مقصد یہ ہوتا ہے کہ جیتنے والی پارٹی یا حکومت کب ناکام ہوتی ہے تاکہ اس کی ناکامی کی لاش پر اپنی کامیابی کی عمارت تعمیر کرسکیں۔ جبکہ ایک اسلامی معاشرے میں رسول اکرم ﷺ کی وہ حدیث ایک راہنما اصول متعین کرتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’حضرت انسؓسے مروی ہے، ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔ ایک شخص نے عرض کیا : اگر وہ مظلوم ہو تب میں اس کی مدد کروں لیکن مجھے یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو تو بھی میں اس کی مدد کروں؟ فرمایا : اسے ظلم سے باز رکھو، فرمایا : اسے روکو۔ کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے (صحیح بخاری)۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ ؓکے دور سے لے کر آج تک پوری امتِ مسلمہ کے حکمرانوں کے بارے میں  دو رویے ملتے ہیں۔ حکمران برسر اقتدار آتے تو انہیں باقاعدہ رہنمائی فراہم کی جاتی، انہیں غلط کام اور ظلم سے روکنے کے لیے آواز اٹھائی جاتی لیکن جب یہ تصور پختہ ہوجاتا کہ یہ شخص ناقابل اصلاح ہے تو پھر اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔ عموما ہمارے سیاسی علماء (میں نے یہ لفظ جدید جمہوری سیاست میں الجھے علماء کے بارے میں استعمال کیا ہے) ورنہ دین تو ہر شخص سے سیاست میں حصہ لینے کا طالب ہے۔ یہ ’’سیاسی علماء ‘‘ ایک بہانہ تراشتے ہیں کہ کوئی ہماری سنتا کب ہے، ہمیں اہمیت کون دیتا ہے۔ یہ منطق دنیاداری کے معاملات میں تو درست ہے لیکن  دین کے معاملے میں یہی علماء کا امتحان ہے کہ وہ اپنے سیاسی دشمن کی بھی رہنمائی فرمائیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دین کی طرف بلانے کی نو سو سالہ تگ ودو کو اللہ مثال بناکر پیش فرماتا ہے۔ ’’میں نے جب بھی انہیں دعوت دی تاکہ آپ ان کی مغفرت فرمائیں تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں، اپنے کپڑے اپنے اوپر لپیٹ لیے، اپنی بات پر اڑے رہے تکبر اور تکبر کا مظاہرہ کرتے رہے۔ پھر میں نے انہیں پکار پکار کر دعوت دی۔ پھر میں نے ان سے علانیہ بات کی اور چپکے چپکے سمجھایا (نوح : 9,8,7)۔ یہ ہے وہ صبرآزما کام جو سیدھے راستے پر بلانے اور ظالم و مظلوم کی مدد کرنے کا کام ہے۔ پھر جب وہ وقت  آجائے کہ آپ سمجھیں کہ اب معاملات ناقابل اصلاح ہو چکے ہیں، ظلم، کفر اور زیادتی بہت بڑھ چکی ہے تو پھر اللہ سے ایسے حکمرانوں سے نجات کی دعا کے ساتھ ان کے خلاف خروج کا بھی حکم ہے۔ دین کے اسی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے میں عمران خان کی آنے والی حکومت کے ایک بنیادی اور شائد سب سے پہلے قدم کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ گزشتہ تیس سال حکومتی ایوانوں میں خاک چھاننے سے میں جو کچھ حاصل کر سکا ہوں، اس میں اس قوم کی نااہلی، کمزوری اور ناکامی کی سب سے بنیادی وجہ وہ فاصلہ ہے جو حکمران اور عوام کے درمیان ہے اور اس فاصلے کو قائم کرنے کے لئے انگریز نے 1835ء میں انگلش ایجوکیشن ایکٹ (English Education Act)  پاس کیا جس کے تحت برصغیر میں رائج فارسی، اردو اور سنسکرت کی جگہ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیا گیا۔ ابھی تک اس خطے پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم تھی لیکن جیسے ہی 1857ء میں یہ ملک تاج برطانیہ کے براہ راست تسلط میں آگیا تو نوکریوں کے لئے انگریزی زبان لازمی قرار دے دی گئی اور دفتری زبان بھی انگریزی ہو گئی۔ یوں پورا ملک ایک زبان بولتا تھا لیکن اس کا حکمران طبقہ ایک دوسری زبان بولتا اور دوسرے کلچر میں اٹھتا، بیٹھتا، چلتا پھرتا، اور یہاں تک کہ سوتا جاگتا بھی تھا۔ انگریز کے دور تک اس ملک میں دو طرح کے نظام ہائے تعلیم رائج تھے۔ حکمران طبقے کے لیے انگریزی اور عوام کے لئے اردو۔ اس سے پہلے کہ میں قومی زبان میں تعلیم کی اہمیت پر بات کروں اور اس حقیقت کی وضاحت کروں کہ ’’دنیا کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جس میں کسی دوسرے کی زبان میں علم حاصل کیاہو اور ترقی کی ہو۔ شاید کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں ہے‘‘۔ میں صرف اور صرف پاکستان کی بیوروکریسی کی زبان یعنی سرکاری زبان کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تحصیلدار سے لیکر فیڈرل سیکرٹری تک اور ایک انکم ٹیکس آفیسر سے لے کر بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین تک، ایک تھانے دار سے آئی جی پولیس تک اور ایک عام اہلکار سے وزیر اور وزیر اعظم تک، سب کے سب روزانہ آپس میں، سائلین کے ساتھ، ماتحتوں سے بالعموم اردو میں گفتگو کرتے ہیں۔ سترہ گریڈ کے افسر سے لے کر وزیراعظم ہائوس تک تمام کی تمام میٹنگیں اردو میں ہوتی ہیں، لیکن ہم دنیا کا واحد مضحکہ خیز ملک ہیں کہ ہماری میٹنگوں کے احوال (Minutes) انگریزی میں درج ہوتے ہیں۔ دنیا میں یہ اصول مسلم ہے کہ  اگر آپ کسی کی بات کا ترجمہ کرتے ہیں تو آپ اس کی اصل روح کو ہرگز نہیں سمو سکتے لیکن میرے ملک میں یہ ’’انگریز نما‘‘ بیورو کریسی روزانہ ایسا کر رہی ہوتی ہے۔ ہماری مجسٹریٹ کی عدالتوں سے لے کر چیف جسٹس کے سپریم کورٹ کے روم نمبر 1 تک ساری کاروائی اردو میں ہوتی ہے، وکیل اردو میں بولتے ہیں، جج ریمارکس اردو میں دیتے ہیں، گواہ اپنی گواہی اردو میں دیتے ہیں، لیکن کسقدر ظلم کی بات ہے کہ ہماری عدلیہ کے منصب پر بیٹھے جج اور مجسٹریٹ حضرات انگریزی میں فیصلہ لکھتے ہیں۔ کسی کا پانی کے ’’موگے‘‘ کا جھگڑا ہو یا زمین کے ’’آبیانے‘‘ کا، جائیداد پر قبضے کا کیس ہو یا نوکری سے برطرفی کا معاملہ، سب کے سب عدالتوں میں اردو یا پھر اپنی علاقائی زبان میں واویلا کر رہے ہوتے ہیں جبکہ جج اور مجسٹریٹ حضرات اس کا جواب بھی اردو یا علاقائی زبانوں میں دیتے ہیں لیکن فیصلے تحریر کرتے وقت ان پر انگریزی کا خمار چھا جاتا ہے۔ان سب لوگوں کو ملازمت میں اس لیے بھرتی نہیں کیا جاتا کہ انہوں نے انگریزی لکھنے میں شیکسپیر یا ہارڈی کا مقابلہ کرنا ہے۔ ان کا مقصد عوام کو ان کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنا ہے۔ لیکن یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے والدین ان کو ایچیسن، یا پھر انگلینڈ میں Eaton سے تعلیم شروع کروا کر آکسفورڈ اور ہارورڈ تک انگریز کلچر میں غوطہ زن کرواتے ہیں تاکہ سول سروس کا امتحان پاس کر سکیں۔ عمران خان صاحب ! آج سے کچھ عرصہ قبل آپ نے اپنی ایک ڈاکو منٹری میں ایچی سن کالج میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اس انگریزی زبان اور کلچر کی وجہ سے ایک حاکم طبقہ پاکستان میں پیدا کیا گیا ہے۔ یہ حاکم طبقہ صرف آپ کے ایک حکم نامے سے اپنی موت آپ مر سکتا ہے۔ یہ حکم نامہ نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کا اعلان ہوگا کہ اردو کو سرکاری زبان قراردیا جائے۔ سب سے پہلے سول سروسز کے امتحانات کا اردو میں ہونے کا فرمان جاری ہونا چاہیے۔ آپ دیکھیں گے کہ کیسے صرف پندرہ دن کے اندر اندر تمام پبلیشرز اردو میں کتابیں مارکیٹ میں لے آئیں گے۔ تمام خواہش مند والدین اپنے بچوں کے لیے ویسے ہی اردو کے ٹویٹر ڈھونڈیں گے جیسے آجکل انگلش کے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بیوروکریٹ بہت کایاں لوگ ہیں، بہانے تراشیں گے۔۔۔ آپ کو کہیں گے ہم فی الحال تیار نہیں، ہمیں مہلت دے دیں۔ اردو میں کتب موجود نہیں۔ آپ اس سلسلے میں پہلا حکم یہ جاری کر سکتے ہیں کہ سول سروس امتحانات کے تمام لازمی "Compulsory" مضامین اردو میں ہونگے اور اس میں کسی کو کوئی رعایت نہیں ہوگی جب کہ اضافی optional مضامین میں رعایت دی جاسکتی ہے کہ کوئی انگریزی میں امتحان دے سکے۔ یہ بھی اس وقت تک جب تک ان مضامین میں کتب نہیں آجاتیں۔ جہاں تک دفتری کاروائی کو اردو میں کرنے کا تعلق ہے تو یہ بھی فوری حکم نامے سے نافذ ہونی چاہیے۔ عموما ًکہا جاتا ہے اردو میں سمری لکھنا مشکل ہوگا۔ سمری میں بنیادی طور پر مافی الضمیر بیان کرنا مقصود ہوتا ہے زبان کی معراج نہیں۔ کالم نگاری اس وقت پاکستان کی مقبول ترین صنف ہے اور جسے ہر پاکستانی شوق سے پڑھتا ہے۔ ایک کالم نگار بات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے عموماً زیر استعمال انگریزی الفاظ استعمال کرتا ہے جو پچیس فیصد تک ہوتے ہیں۔ یہ بیوروکریٹ بھی ویسی ہی سمری لکھ سکتے ہیں اور آہستہ آہستہ زبان ان کی عادی ہو جائے گی یا ان کا متبادل ڈھونڈ لے گی۔ خان صاحب! اشرافیہ، قابض گروہ، بیوروکریسی اور مقتدر طبقوں کا زور توڑنے کے لیے اس سے بہتر کوئی اور قدم نہیں ہوسکتا۔ سوچیں کیا فرانس، بیلجیئم، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، ہالینڈ، چین، جرمنی میں سرکاری اہلکار انگریزی میں کام کرنا شروع ہوجائیں تو وہ قومیں بدترین زوال کا شکار ہو جائیں گی انہیں کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی (جاری ہے)