امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق ان دنوں بہت دلچسپ مگر جامع بیانات دے رہے ہیں۔ ایک ہی بیان میں بہت کچھ کہہ جاتے ہیں اور بیان دینے میں ناغہ بھی نہیں کر رہے۔ لگتا ہے ‘ میڈیا پر ’’طاری‘‘ سیلف سنسر میں مزید سختی آنے کی اطلاع انہیں بھی ہو گئی ہے اور وہ اس مشورہ پر عمل کر رہے ہیں۔ ؎ امیر جمع ہیں احباب حال دل کہہ لے پھر التفاتِ دل دوستاں رہے نہ رہے التفات کے معنی آزادی اور دل دوستاں کا مطلب صحافت ہے۔ اور امیر کا امیر جماعت۔ چنانچہ امیر جماعت نے طے کر لیا ہے کہ جو کہنا ہے ابھی کہہ لو اور جلدی جلدی کہہ لو‘ پھر نہ جانے کتنی مدت کے بعد کہنے سننے کی باری آئے۔ سنا ہے سیلف سنسر کی ’’ نیگٹولسٹ‘‘میں دھاندلی کا لفظ بھی شامل ہونے والا ہے۔ یہ پرنٹ میڈیا کی نیگٹولسٹ کی بات ہو رہی ہے‘ الیکٹرانک میڈیا میں تو دھاندلی کا کوئی ایشو ہے ہی نہیں۔ خرگوش کے سینگوں کی طرح غائب ہو گیا ہے پرنٹ میڈیا میں بھی ماجرا یہاں تک پہنچ گیا اور جو پہنچنے ہی والا ہے تو پھر کوئی دھاندلی کے خلاف کیسے بیان چھپوا سکے گا۔ اگرچہ اس کا ایک حل ہے نوابی ٹیکنالوجی والا حل۔ یوپی کے ایک نواب صاحب تھے۔خیر پورے یو پی کا نام کیا لینا‘ لکھنؤ کے تھے ‘اُنہیں موت سے بہت ڈر لگتا تھا۔ درباریوں پر پابندی لگا دی کہ آج سے کوئی میرے سامنے کسی کے مرنے کی خبر نہ لائے۔ ڈرتے ڈرتے پوچھا اگر کوئی ایسے صاحب فوت ہو جائیں جن سے آپ کو تعلق خاطر ہو تو پھر کیسے اطلاع دی جائے؟ نواب صاحب نے سوچ کر فرمایا کہا جائے کہ فلاں صاحب ’’پیدا‘‘ ہو گئے ہیں ہم سمجھ جائیں گے۔ کرنا خدا کا کیا ہوا نواب صاحب شکار کو جنگل گئے اور پیچھے آپ کے والد محترم چل بسے ایک قاصد دوڑایا گیا۔ ہانپتا کانپتا جنگل میں نواب صاحب کے کیمپ میں پہنچا اور بولاحجور‘ حجور گجب ہو گیا‘ آپ کے والد پیدا ہو گئے۔ ٭٭٭٭٭ سراج الحق نے اپنے تازہ بیان میں کافی تیز فقرے ارشاد فرمائے ہیں مثلاً خلائی مخلوق کی کنٹرولڈ جمہوریت نہیں چاہیے۔ دھاندلی سے بننے والی حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ خلائی مخلوق کوئی سائنس کا موضوع ہے اس لیے اس پر تبصرے سے گریز ہی بہتر ہے البتہ باقی یہاں پولیٹیکل سائنس سے متعلق ہے اس پر بات ہو سکتی ہے۔ لیکن زیادہ نہیں صرف مختصر اور احتیاط کی جائے تو مزید مختصر اور وہ یہ کہ حکومت چلنے کا انحصار دھاندلی یا بنا دھاندلی کے انتخابات پر کبھی نہیں ہوتا۔ اس کا انحصار ’’قوت نافذہ‘‘ پر ہوتا ہے۔ اب خود بغور مشاہدہ کر کے فرما دیجیے کہ ’’قوت نافذہ‘‘خان صاحب کی آنے والی حکومت کے پاس ہے کہ نہیں؟ وہ تو بہت پہلے سے ان کے پاس تھی اور ہے۔ نواز شریف کے پاس بھاری مینڈیٹ تھا ’’قوت نافذہ ‘‘ان کے ساتھ نہیں تھی دیکھا کیسے سارا مینڈیٹ ٹکے ٹوکری ہو گیا۔ خیر ‘آنے والے دنوں میں ’’دھاندلی‘‘ لفظ ممنوعہ ہونے کے بعد امیر جماعت سمیت سبھی سیاستدانوں کے بیانات کچھ یوں آیا کریں گے: ہم اس شفافیت کو نہیں مانتے۔ الیکشن میں بے پناہ منصفانیت کی گئی ہے۔ شفافیت کا انسداد کیے بغیر ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ یعنی بیٹھیں گے تو ضرور پر چین سے نہیں‘ جب تک شفافیت واپس نہیں لی جاتی۔ ٭٭٭٭٭ اسی سلسلہ کلام کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ 1971ء میں عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ بہت ہی ’’قابل فراموش‘‘ دور کی یاد دلا دی۔ اس سانحے کو ہم نے جلد ہی بھلا دیا تھا کہ یادر کھنے کے قابل تھا ہی نہیں ‘لیکن اب آپ نے یاد دلایا ہے تو خیال آیا ہے کہ تب جماعت اسلامی لکیر کے کس طرف تھی؟ جماعت کے بانی مولانا مودودیؒ مستعفی ہو چکے تھے جس کے معاً بعد نئے امیر جماعت میاں طفیل محمد نے دل و دماغ سے فکر مودودی کی گرد جھاڑ دی اور یحییٰ خان کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ مشرقی پاکستان کے خلاف آپریشن ہوا تو جماعت نے البدر الشمس بنا دی‘ جس پر مستعفی امیر مولانا مودودی اتنے دکھی ہو گئے کہ روہانسے ہو کر کہا ان لوگوں نے میری عمر بھر کی کمائی برباد کر کے رکھ دی۔ پھر طویل عشرے گزرے ۔ جماعت کے لوگوں نے تعمیر اور عمل کی اس غلطی کا اعتراف کیا نہ عذر خواہی۔ پھر شاید 2000ء کے آس پاس جماعت کے ایک تھنک ٹینک خرم مراد نے کتاب لکھی’’لمحات‘‘ نام کی۔ اس کتاب کے مندرجات نے خود جماعت کے لوگوں کو حیران کر دیا بلکہ رلا دیا۔ نئے پڑھنے والے کانپ اٹھے ۔ خرم مراد کا قیام سقوط ڈھاکہ تک مشرقی پاکستان میں رہا۔ اس کتاب میں انہوں نے اس دور کے واقعات آپریشن اور البدر الشمس کی کہانی لکھی ہے۔ اس کتاب کے بعد بھی جماعت نے معذرت نہیں کی۔ جن لوگوں نے یہ کتاب نہیں پڑھی وہ ابھی پڑھ لیں کہ حالات ایسے ہیں کہ شاید۔ ع پھر التفاتِ دل دوستاں رہے نہ رہے ٭٭٭٭٭ بہرحال امیر جماعت کے اس بیان کو باقاعدہ معذرت کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے اور لگتا ہے کہ جماعت کے قائدین اس میلے کا مقصد اب سمجھے ہیں جو چار سال سے لگا ہے اور اب کلائمیکس آیا ہے۔ میلہ رومال چرانے ہی کے لیے لگایا گیا تھا۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اور سی پیک کا رومال۔ سمجھنے والے چار سال پہلے ہی سمجھ گئے تھے‘ نہ سمجھنے والے اب بھی نہیں سمجھے۔ حالانکہ اب تو بہت کچھ افق پر عیاں ہو چکا تھا۔جنگ چہار سالہ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے جیت لی ہے۔ آئی ایم ایف نے ابھی کچھ نہیں کیا کہ سی پیک کا اس سے کیا لینا دینا ہے۔ امریکہ نے جو بیان دیا‘ اس میں بھی سی پیک کا نام نہیں ہے لیکن ہمارے ہاں نئے برسر اقتدار آنے والے تبدیلی پسندوں نے ’’خدشات‘‘کے روپ میں اشارے دے دیے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے بلکہ وہ کیا کرنے والے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے معرکہ جیت لیا ہے اور پاکستان میں بحران کا بھنور چکرا رہا ہے۔ اندازے اور تجزیے دیے جا رہے ہیں کہ نئی حکومت کو کس چیلنج کا سامنا ہو گا۔ سب لفظوں کے ڈھیر۔ کوئی چیلنج ہے نہ کارکردگی کا مسئلہ ہے۔ کسی کی رٹ کا سوال ہے نہ کرپشن یا شفافیت کا۔رومال اڑایا جانا۔ ’’ٹارگٹ‘‘ہے پورا ہوتے ہی کھیل ختم‘ پیسہ ہضم۔ تجزیہ ہونا چاہیے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ نواز شریف جیل میں ہیں‘ بیٹی سمیت اور عمر بھر کے لیے نااہل لیکن انہوں نے جو چیلنج کھڑا کیا ہے‘ وہ بدستور وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ دیکھیے‘ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا اگلا ایڈونچر کیا اور کیسا ہوتا ہے۔