جمعۃ المبارک کو بنی گالہ میں تحریک انصاف کے قائد اور متوقع وزیراعظم محترم عمران خان کے دائیں ہاتھ پر بیٹھی متحدہ پاکستان کی قیادت کو دیکھ کر منفرد لہجے کے شاعر احمد مشتاق کا شعر بے ساختہ زبان پرآگیا ؎ دِل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن عمر بھر کون حسیں کون جواں رہتاہے متحدہ قومی موومنٹ کا اپنی بد ترین مخالف تحریک انصاف سے بنی گالہ میں جو معاہدہ ہوا اس پر1988ء میں ہونے والے اس معاہدے کی یاد تازہ ہوگئی جب کم و بیش ایسی ہی محاذ آرائی اور اقتدار کیلئے ووٹوں کی کھینچا تانی میں پیپلزپارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کیلئے متحدہ کے مرکز90پر بانی تحریک کے حضور حاضری د ینی پڑی تھی۔۔۔ تین دہائی قبل یہ تاریخ کا جبر ہی تھا کہ پی پی کو اپنی بد ترین مخالف جماعت سے وزارت عظمیٰ کے حصول کیلئے52نکاتی معاہدہ کرناپڑا۔ مگر اُس معاہدے اور اِس معاہدے میں یہ فرق ہے کہ پی پی اور پھر ن لیگی قیادت کی طرح پی ٹی آئی کے قائد عمران خان چل کر کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز پر حاضر نہ ہوئے گو کہ ضرورت اور مجبوری ایم کیو ایم کی نہیں۔۔۔ پی ٹی آئی کی تھی۔۔۔ مگر اس دوران محاورے کی زبان میں’’پلوں کے نیچے سے ایک سمندر بھی تو بہہ چکاہے‘‘ کم و بیش33سال بعد یہ پہلے الیکشن تھے جو ایم کیو ایم( پ) نے بانی تحریک کے بغیر لڑے۔۔ جو لندن سے بیٹھ کر اپنے فون کال پر قومی وصوبائی اسمبلی کے کھمبے نامزد کرتے اور پھر پولنگ کے بعد رات کی سیاہی پھوٹنے سے پہلے ہی عزیز آباد کے جناح گراؤنڈ میںسندھ کے شہری علاقوں سے کامیاب ہونے والے90فیصد ارکان اسمبلی اسکرین پر الطاف بھائی کے سامنے صف بستہ دست بستہ کورنش بجالارہے ہوتے تھے۔۔ سندھ کے شہری علاقوں پر تین دہائی سے اوپر بلاشرکت غیرے راج کرنے والی ایم کیو ایم جو ہر الیکشن میں قومی اسمبلی کی20میں سے17اور کبھی18اور صوبائی اسمبلی51/52نشستیں جیتا کرتی تھی۔۔۔ 25جولائی2018ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی6اور صوبائی اسمبلی کی16نشستوں تک کیسے پہنچی۔۔۔ اس کیلئے معذرت کے ساتھ ماضی کی بھول بھلیوں میںجانا پڑے گا۔ جو اپنی جگہ عبرتناک بھی ہے اور سبق آموز بھی۔مگر سیاستدانوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ بیشتر توتاریخ کامطالعہ ہی نہیں کرتے۔۔۔ تاریخ انہیں یاد آتی بھی ہے تو اس وقت تک وہ انہیں روند چکی ہوتی ہے۔۔۔ اسی کی دہائی کے آغاز میں جن نوجوانوں کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں انہوں نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنیAPMSOکے نام سے کراچی یونیورسٹی میں ایک تنظیم بنائی اردو اسپیکنگ یا مہاجروں کی ۔۔ اور پھر جب ان نوجوانوں کو کراچی یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلبہ نے بذور ڈنڈاباہر نکالا تو نہ صرف یہ مہاجر قومی موومنٹ بن گئی بلکہ وہ جو کہتے ہیں کہ’’وہ آئے، انہوں نے دیکھا اور فتح کرلیا‘‘۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں سندھ کے دونوں بڑے شہروں یعنی کراچی اور حیدرآباد کے دور میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات میں سندھ کے دونوں بڑے شہروں یعنی میونسپل کارپوریشنوں کی میئر شپ پر مقبولیت کی ساری حدوں کو پارکرجانے والے بانی تحریک کے نامزد کردہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کامیئر ایک23سالہ نوجوان فاروق ستار اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر کے میئر ایک نسبتاً گمنام وکیل آفتاب شیخ بنے اور پھر جب جنرل ضیاء الحق کی رحلت کے بعد وطنِ عزیز میں11سال بعد قومی انتخابات ہوئے تو مہاجر قومی موومنٹ جو متحدہ قومی موومنٹ اس دوران بن چکی تھی۔۔۔1988ء کے انتخابات میں سندھ میں دوسری اور قومی سطح پر تیسری بڑی قوت بن کر ابھری۔۔ اپنی عوامی مقبولیت کے سبب پاکستان پیپلزپارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر تو ابھری مگر حکومت بنانے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو کو عزیزآباد کے120گز کے مکان پر بانی تحریک کے پاس جانا پڑاجہاںبانی تحریک نے اپنی بہن بی بی بے نظیر بھٹو کو عالم اسلام کی پہلی وزیراعظم بننے کی مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ52نکات بھی تھمادیئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو جس جوش و خرو ش سے وزیراعظم بنانے کے لئے بانی تحریک کی ایم کیو ایم نے ساتھ دیاتھا۔ وہیں نو ماہ بعد اسے گرانے اور پھر ان کے بد ترین مخالف میاں نواز شریف کے سرپہ وزارت عظمیٰ کاتاج رکھنے میں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ بڑھ کر جوش وخروش سے اپنا وزن ڈالا۔ یوں نوے کی دہائی میں متحدہ قومی موومنٹ ملک کی ایسی سیاسی قوت بن چکی تھی جو جس پلڑے میں وزن ڈالتی وہ بھاری ہوجاتا اور اس کا مخالف خاک چاٹ رہاہوتا۔ بانی تحریک کے اشارے کے بغیر سندھ میں’’پتہ‘‘ نہیں ہلتاتھا۔ کہتے ہیں اور بہر حال جس کے مستند شواہد نہیں کہ جنہوں نے بانی تحریک اور ان کی تنظیم کو بنایا’’انہی‘‘ کیلئے وہ ایک خطرہ بن گئے۔۔۔1992ء کے ’’فوجی آپریشن‘‘ سے پہلے بانی تحریک ملک چھوڑ گئے مگر لندن میں بیٹھ کربھی وہ سندھ کے شہر ی عوام کے بے تاج بادشاہ تھے۔۔ 2002ئ۔2008ء بلکہ2013 ء تک سندھ کے شہری علاقوں کی ایک ہی نمائندہ جماعت اور قائد تھا۔ مگر یہ مئی2013ء کے الیکشن ہی تھے جس کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں دراڑیں پڑنی شروع ہوئیں اور پھر جس کے بعد ہی برسوں سے’’بانی تحریک‘‘ کے ہاتھوں مارکھانے والوں نے سرگوشیوں میںکہنا شروع کردیاتھاEnough is Enough۔بد قسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں میں جہاں اپنی’’قیادت‘‘ کو دیوتا کا درجہ دے دیا جاتاہے، وہیں جب اس’’دیوتا‘‘ کے خلاف بغاوت ہوتی ہے تو اس میں بھی تمام اخلاقی حدیں پار ہوجاتی ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے جو بات بلند اور دبنگ انداز میں بانی تحریک کے خلاف کی، وہی ذرا دھیمے اور نرم لہجے میں مرنجا مرنج فاروق ستار کے منہ سے بھی تین دہائی بعد جھڑنا شروع ہوئی۔آپریشن ایک طول طویل موضوع ہے ۔اس آپریشن سے گزر کر متحدہ مزید طاقتور بن کر ابھری ۔۔۔اگست2016ء متحدہ قومی موومنٹ کی تاریخ میں ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ ہے کہ جس کے بعد لندن میں26سال سے سندھ کے شہری علاقوں پر راج کرنے والے بانی تحریک کے زوال کاآغازہوا۔ تاہم اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ پہلا پتھر مارنے کااعزاز تو سابق میئر مصطفی کمال کو ہی جائے گا کہ جب کراچی کے ایک پوش علاقے میں انہوں نے بانی تحریک کیخلاف دہاڑنا شروع کیا تو برگد کے پتوں کی طرح سیکٹر انچارج اور ارکان اسمبلی ان کی جھولی میںگرنے لگے۔۔۔ پانچ ماہ بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ہونے والی بغاوت تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ مگر ’’بانی تحریک کی دیو مالائی شخصیت ‘‘الیکشن2018ء کے آتے آتے اس طرح مٹی کاڈھیر بن جائے گی اس کاتصور کراچی والے آنکھیں مَل مَل کے بھی نہیں کرتے۔۔ مستند شواہد نہیں مگرہوا یہ ایک طویل المدت حکمت عملی اور منصوبہ بندی ہے۔۔۔ اسلام آباد اور اس کے بعد کراچی میں بیٹھی اسٹیبلشمنٹ نے2013ء کے الیکشن میں اندازہ لگالیاتھا کہ لوہے سے زیادہ آہنی تنظیم کے اندر بھوسا بننے کا عمل شروع ہوچکاہے۔۔ اورپارٹی کی مقامی قیادت کسی تنکے کی تلاش میں ہے اور پھر اس حقیقت سے اس شہر کراچی میں کون واقف نہیں تھا کہ درمیانہ طبقے کی جماعت کی قیادت کب کی120گز کے پلاٹوں سے ڈیفنس،کلفٹن منتقل ہوکر۔۔۔ سیاسی اشرافیہ کا حصہ بن کر اپنی محروم، مظلوم، قوم سے دور ہوچکی ہے۔ یوں جولائی2018ء کے الیکشن میں اردو اسپیکنگ یامعروف معنوں میں مہاجر قوم کے نام پر ووٹ مانگنے کیلئے ایک نہیں۔دو، بلکہ تین وارث دست وگریباں تھے۔۔ اس دوران لندن میں بیٹھ کر جو جس’’اسکرین‘‘ سے سندھ کے شہری علاقوں میں حکمرانی کرتاتھا۔۔۔ اس کا سوئچ جی ایچ کیو نے آف کردیا۔۔۔ جولائی2018ء سے پہلے’’سوشل میڈیا‘‘ پر ہذیانی اندازمیں ’’بائیکاٹ بائیکاٹ‘‘ کانعرہ لگانے والے بانی تحریک کی ’’ پرجا‘‘ نے ایک نہ سنی۔۔۔ باخبر ذرائع خبریں تواور بھی دیتے ہیں مگر میں روایتی لکھاری ہوں حوالے کے بغیر بیانیہ دینے سے گریزکرتاہوں۔۔۔ سندھ کے شہری علاقوں سے جو6نشستیں ایم کیو ایم پاکستان کوملیں۔۔ یقین سے کہہ سکتاہوں کہ اس پر ایم کیو ایم کے بہادرآباد مرکز میںشکرانہ ادا کیاگیاہوگا۔۔۔ رہی پاک سرزمین پارٹی کی تو بس ایک جملے پر اکتفا کروں گا کہPoorمصطفی بھائی کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔۔۔ یوں اگر بچی کچھی بلکہ کٹی پٹی ایم کیو ایم نے ’’بنی گالہ‘‘ کی دہلیز پر حاضری دے کر سندھ کے شہری علاقوں میں حاضری دی تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ بہرحال یہ بانی تحریک کی ایم کیو ایم نہیں۔۔۔ اور پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ کیامائنس ون یعنی بانی تحریک کے بغیر ایم کیو ایم (پ) کاکوئی مستقبل ہے۔۔؟