میرے لیے یہ امر باعثِ حیرت و مسرت ہے کہ آج حیدر آباد دکن سے جناب مصطفی کمال کا فون آیا۔ اس بھری دنیا میں دو ہی شہر ایسے ہیں جن کے باسی ’زندہ دلان‘ کی نسبت سے معروف ہیں۔ ایک وہ جہاں سے آج فون آیا، دوسرے وہ جہاں یہ فون مجسم شادمانی کے ساتھ وصول کیا گیا۔ کبھی کبھی تو اس سلطنتِ جلوہ آرائی کی رانی محترمہ فیس بُک اور ہر ایک دل کے عزیزجنابِ وٹس ایپ کی دل و جان سے بلائیں لینے کو جی مچلتا ہے کہ نئے زمانے کے ان سہولت کاروں کی مدد سے ہم نے نہ صرف بسلسلہ روزگاری و قبیل داری مدتوں سے بچھڑے اور دنیا بھر میں پھیلے دل کے جانیوں کو ڈھونڈ نکالا بلکہ علم و ادب کے دور و دراز مراکز میں جھانکنے اور جہاں بھر کی علمی ادبی شخصیات کو آنکنے کا بھی موقع مل گیا۔ مصطفی کمال کا کمال یہ ہے کہ وہ زندہ دلانِ حیدرآباد کی زندہ دلی کا بھرم بھرپور انداز میں قائم رکھنے کے لیے ہمارے دلوں میں بسنے والی اس سر زمین سے شگفتہ ادب کا ’’شگوفہ‘‘ گزشتہ چوّن (54) سال سے کھلائے ہوئے ہیں۔ اُس دور کے اٹھائیس( 28)سالہ نوجوان مصطفی کمال اب زندگی کی ترکیب اورہندسوں کی ترتیب ادل بدل کے (82) برس کے برگد کو چھُو چکے ہیں لیکن اب تک اس پھول کو مرجھانے اور کمھلانے سے بچائے ہوئے ہیں۔ طنز و مزاح تحریری ہو یا تقریری، تصویری ہو جُگتیری، دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ ملکۂ ظرافت کی ڈھنگ سے ناز برداری کرنے والے ہر زبان اور ہر ملک میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں۔ اس کی طلب اور رسد میں ہمیشہ زمین آسمان کا فرق رہا ہے۔ ایسے میں ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو مزاح کے نخریلے نظم نگاروں، شرمیلے نثر برداروں اور ہٹیلے کارٹونیوں کے فن پاروںسے مزین پرچہ تیار کر کے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا تو کاغذ پہ کلیجہ نکال رکھنے کے مترادف ہے۔ جناب مصطفی کمال یہی مشکل فریضہ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے نہایت ذمہ داری کے ساتھ نبھائے چلے جا رہے ہیں۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ ہندوستان والے حیدرآباد میں بیٹھ کر پاکستان، انڈیا، امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، جرمنی اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی اپنی مرضی سے مقیم خواتین و حضرات مزاح نگاروں کی نگارشات کو ساڑھے چھے سو مہینوں تک مجلد حالت میں بھوکے، ننگے، کورے، چٹخورے، مفت خورے شائقینِ ادب کے دستر خوان پہ نہار منھ دھرتے چلے جانا کسی بہت بڑی توفیق اور جذبۂ مسرت افزائی و خوش ادائی کے بغیر بھلا کیسے ممکن ہے؟ اب تو کچھ عرصے سے ڈاک کے بوسیدہ نظام اور ادب کے ممکنہ انجام کے پیشِ نظر یہ لذیذ ڈش پی ڈی ایف کی کوری رکاب میں سجا کے بھی پروسنی پڑتی ہے۔ لگے ہاتھوں ہم حیدر آباد دکن میں بسنے والوں کو یہ نوید بھی سنا دینا چاہتے ہیں کہ یہ علاقہ کسی کے بھی زیرِ نگیں ہو، یہ نگر آج بھی ہمارے پُر جوش دلوں کی پوش دھڑکنوں میں ہنستابستا ہے ۔ بقولِ شاعر: تُو ساتھ کسی کے بھی ہو پاس ہے میرے برِصغیر میں اُردو شاعری کے باقاعدہ آغاز میں سر اٹھا نے اور رُبع صدی تک عوام و خواص حلقوں میں دھوم مچائے رکھنے والی ایہام گوئی کی تحریک کے نمایاں شاعر شاکر ناجی نے دیکھیے اس شہر کو کس حیلے وسیلے سے یاد کیا تھا: محبت میں علی کی دیکھ ناجیؔ ہوا ہے دل مِرا حیدر آباد فلم اور کھیل کے رسیا حیدر آباد دکن کو دیا مرزا اور ثانیہ مرزا کے حوالے سے جانتے ہیں لیکن ہماری اس شہر سے محبت ایک اور مرزا، یعنی مرزا فرحت اللہ بیگ سے شروع ہوتی ہے۔ ہم اس دیار کو جامعہ عثمانیہ کی روشنی کے ساتھ آنکھوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے دھیان میں ہے کہ ہمارے اُردو زبان و ادب کی ابتدائی کونپلیں اسی سر زمین سے پھوٹی تھیں۔ اُردو ادب کے شناور یہاں کے بہمنی، عادل شاہی اور قطب شاہی ادوار کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟ اُردو غزل کے باوا آدم قلی قطب شاہ کا پچاس ہزار اشعار کا حامل دیوان اور ’’سب رس‘‘ کے ذریعے ناول، افسانے کی ماں یعنی کہانی نویسی کی بنیاد رکھنے والے مُلّا وجہی کو ادب نصیب کہاں بھولے ہوں گے؟ بقول حکیم جی: محو ہوتے ہیں کہاں دھیان میں بسنے والے بے نیازی کا فقط ڈھونگ رچایا ہوا ہے پھر اُردو غزل کی آنکھوں کا تارا، جمال دوست ولی دکنی بھی تو اسی فضا میں پروان چڑھا، جس نے اُردو غزل کو معیار سے اُستوار کر کے اُردو شاعری میں وہی کردار ادا کیا ،جو انگریزی ادب میں جیفری چاسر نے۔ ہمیں تو یہ تک یاد ہے کہ گیارہ ستمبر 1948ء کو جب پورا ملک پاکستان بابائے قوم کی ناگہانی موت کے صدمے سے نڈھال تھا، چاتر و شاطر ہمسائے نے ہمارے ساتھ الحاق کے جذبے سے سرشار اِس من موہنی دھرتی پہ شب خون مار کے ہندو مسلم دشمنی پہ مزید تیل چھڑکا تھا۔ ہم یہ بھی کہاں بھولے ہیں کہ جب اُسی روز جے پور اسمبلی کے جاری اجلاس میںایک من چلے ہندو نے اسی’خوشی‘ میں چھٹی کا مطالبہ کیا تو اسمبلی کے مسلمان سپیکر نے صدمے سے دوچار دل کے ساتھ استفسار کیا کہ کل کلاں کو اگر پاکستان کشمیر پہ اسی طرح قبضہ کر لے تو تب ہمیں کتنی چھٹیاں کرنا ہوں گی؟ اس پر اسمبلی میں وہ ہُلڑ مچا کہ مذکورہ سپیکر اور ان کے ڈپٹی کمشنر بیٹے نے ہندوستان اور اپنے عہدے چھوڑ کر پاکستان منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ جاننے والے جانتے ہیں یہ سپیکر جناب عبدالکریم یوسفی اور بیٹا اُردو دنیا کا سب سے بڑا مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی تھا۔ بات ذرا دُور نکل گئی، اصل میں تو ہم اُردو مزاح کے فروغ کے جذبے سے سرشار شخصیات اور رسائل کا ذکر کرنا چاہ رہے تھے، جس کا آغاز لکھنو سے ’فسانۂ آزاد‘ والے رتن ناتھ سرشار کے ’’اودھ اخبار‘‘ سے ہوا۔ پھر یکم جنوری 1877ء کو اسی شہر سے ’حاجی بغلول‘ والے منشی سجاد کی ادارت میں حالی وسرسید کے انتقام سے کھَولتا ’’اودھ پنچ‘‘ جاری ہوا، جس کا ’حاصلِ ضرب‘ اکبر الہٰ آبادی ہیں۔(جاری)