کلپٹومینا (Keleptomaina) ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے جس کی تعریف کچھ یوں ہے کہ A recurrent urge to steal, something. سائیکالوجی میں اس بیماری کو Impulse Control Disorder کی کیٹیگری میں ڈالا گیا ہے کیونکہ دوسروں کی چیزیں چوری کرنے کی بیماری میں مبتلا شخص اور بھی کئی طرح کے نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتا ہے۔ مثلاً شدید ڈپریشن‘ انزائٹی نیند نہ آنے یا بہت زیادہ کھانے کی بیماری وغیرہ۔ایسا شخص بظاہر صحت مند دکھائی دیتا ہے۔ تمام لوگوں کی طرح سوشلائز بھی کرتا ہے لیکن جہاں اس پر کلپٹومینا کا دورہ پڑ جائے وہ اپنے ساتھیوں دوستوں یہاں تک کہ مہمانوں کی چیزیں چرا کراپنی تسکین کرتا ہے۔ کلپٹومینک انسان ضروری نہیں کہ قیمتی چیزیں ہی چراتے ہیں جو کچھ اس کے ہاتھ لگے وہ چوری کرلیتا ہے۔ تازہ ترین شرمناک واقعہ اسلام آباد میں پیش آیا جب ایک سینئر بیوروکریٹ جوائنٹ سیکرٹری ضرار حیدر نے کویت سے آئے ہوئے وفد کے سربراہ کا بیگ چرالیا۔ ظاہر ہے اس بیگ کی ڈھنڈیا پڑی تو پاکستانی میزبانوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ کویتی مہمان کا بیگ کہاں جاسکتا تھا اور اتنی ہائی پروفائل میٹنگ میں جہاں اندر آنے والوں کے لیے ایک سکیورٹی چیک لگا ہو‘ بیگ کون لے جاسکتا ہے۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کوکھنگالا گیا تو پتہ چلا خیر سے اسی میٹنگ میں موجود ایک جوائنٹ سیکرٹری صاحب نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اب بتائیے اس کو کیا کہیے۔ یعنی مصائب اور تھے پر جی کاجانا۔ عجب اک سانحہ سا ہوگیا ہے والی کیفیت ہے۔ یعنی کہ اخلاقی زوال کا یہ سانحہ ہونا ابھی ہماری قسمت میں باقی تھا اور یہ جو لفظ شرمندگی اور خجالت ہیں یہ بھی اس شرمناک قصے کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ یعنی کہ پورے اقوام عالم میں ناک کٹوا کے رکھ دی۔ گھر آئے معزز مہمان کے ساتھ ہم یہ سلوک کرتے ہیں۔ گرنے کا بھی کوئی معیار ہوا کرتا ہے۔ ہم ہیں کہ مہمانوں کے بٹوے تک چرانے لگ گئے ہیں۔ ویسے کیسے کیسے گوہر نایاب کیسے کیسے اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہیں۔ جوائنٹ سیکرٹری صاحب جو اس انتہائی افسوسناک حرکت کرتے پکڑے گئے ہیں وہ اچانک ہی تو کلپٹومینک نہیں ہو گئے ہوں گے۔ اگر وہ اس نفسیاتی عارضے میں واقعی مبتلا ہیں تو پھر ان پر یہ دورہ اکثر و بیشتر پڑتا ہوگا جیسا کہ کلپٹومینک لوگوں میں ہوتا ہے۔ ان کے ساتھی ان کی ایسی وارداتوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے (کلپٹومینک لوگوں کا میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے جس کو بیان کرنے کے لیے یہاں ابھی جگہ ہے نہ موقع۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ کلپٹومینک تواتر سے چوریاں کرنے کے عادی ہوتے ہیں)۔ اس لیے یہ کیس نفسیاتی عارضے کلپٹومینا کا نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ یہ کیس اخلاقی زوال کی بیماری کا ہے۔ ہوس اور لالچ کا ہے‘ بے شرمی اور دیدہ دلیری کا ہے کہ گھر آئے ہوئے معزز مہمان بھی آپ کی واردات سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔ اقتصادی کونسل کی میٹنگ میں قطری مہمان کا بٹوہ مہارت سے چراتے ہوئے بیوروکریٹ کی ویڈیو بھی منظر عام پر آ گئی ہے۔ یادداشت ساتھ دے تو اس ہار کا تذکرہ نہ ہو جائے جو ترکی کے صدر طیب اردگان کی اہلیہ نے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دیا تھا اور مبینہ طور پر وہ قیمتی ہار اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اہلیہ نے سیلاب فنڈ میں دینے کے بجائے خود کھسکا لیا تھا۔ اس وقت اخبارات میں اس پر بڑی لے دے ہوئی تھی اور تفصیل اس شرمناک واقعہ کی یہ تھی کہ طیب اردگان اور ان کی اہلیہ نے ایک قیمتی ہار اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور ان کی اہلیہ کو دیا کہ اسے آکشن کروا کر اس سے حاصل ہونے والی خطیر رقم سیلاب زدگان کی امداد پر خرچ کریں۔ بعدازاں جب متعلقہ حکام نے ہار کو آکشن کرنے کا فیصلہ کیا تو ہار ندارد۔ ہار کی ڈھنڈیا پڑ گئی‘ ہار کہیں نہ ملا۔ تحقیقات کا آغاز ہوا اور کھوجی کا کُھرا چلتے چلتے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے گھر تک جا پہنچا۔ یہ تحقیقات ایف آئی اے نے کیں۔ گیلانی صاحب نے اعتراف بھی کیا کہ ہار ان کی ملکیت ہے اور اس چوری کی عجیب و غریب توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طیب اردگان کے خاندان کے ساتھ ہمارے قریبی مراسم ہے۔ (یعنی اتنے قریبی مراسم ہیں کہ آپ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دی گئی ان کی امانت میں خیانت کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔) اس وقت بھی پاکستان کی خوب بدنامی ہوئی۔ ترکی جیسے دوست ملک سے کس قدر خفت اور شرمندگی اٹھانا پڑی ہوگی۔ اس وقت میں نے اس واقعہ پر کالم لکھا تھا۔ ’’ایک ہار کیلئے‘‘ جس کا آخری پیراگراف کچھ یوں تھا کہ: ’’اس ہار کے غائب ہونے پر سابق وزیراعظم گیلانی کا بیان آئیں بائیں شائیں سے زیادہ کچھ نہیں‘ ایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ایک احتساب مگر ملتان کے سید زادے کو خود اپنا بھی کرنا چاہیے کہ قدرت نے انہیں زندگی کے سفر میں جو عزت و وقار اور رتبہ دیاشاید وہ ان سے سنبھالا نہیں گیا۔ کیا انہوں نے سن رکھا کہ If character is gone every thing is gone ایک ہار کیلئے ملتان کے سید زادے نے کیا کچھ ’’ہار‘‘ دیا ہے۔ اخلاقی زوال کی یہ مثالیں ایک ایسا آئینہ ہیں جس میں ہم اپنے معاشرے کا بدنما چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ اسی معاشرے کے لوگ ہیں جو ہوٹلوں سے چمچے چراتے ہیں‘ کسی ریسٹ ہائوس یا ہوٹل میں قیام کریں تو واپسی پر وہاں کے باتھ روموں میں رکھی شیمپو‘ ٹوتھ پیسٹ اور صابن کھسکا لیتے ہیں۔ سرکاری گھروں کو چھوڑتے ہوئے چھتوں کے پنکھے تک اتار لیتے ہیں اور یہی لوگ سارا دن سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر دوسروں کو اخلاقیات پڑھاتے ہیں مگر موقع ملنے پر مہمانوں کے ساتھ بھی واردات کرنے سے باز نہیں آتے۔