ڈاکٹر عامر طہ سین سیرت نگار ،محقق،مقرر،مفکر ،کالم نگار اور بلاگرہیں ،مدارس میں اصلاحات اورادیان میں رواداری ان کے خاص موضوع ہیں رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے مختلف زاویوں پر لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں ان کا کمال ان کی زاویہ نگاہ ہے وہ جس انداز سے کسی معاملے کودیکھتے ہیںاور پرکھتے ہیں وہ اسے خاص بنا دیتاہے ،ڈاکٹر صاحب آٹھ بار حکومت کی جانب سے بہترین سیرت نگار کا ایوارڈ لے چکے ہیں اور آج کل رحمت اللعالمین اتھارٹی میںفرائض انجام دے رہے ہیں ڈاکٹر صاحب کے والد مرحوم مولانا طہ سین اپنے وقت کے بڑے عالم دین تھے اوران علماء میں سے تھے جو اردگر دہونے والی تبدیلیوں اورمعاشرے کے تغیر پر نگاہ رکھتے تھے،جن دنوںپاکستان میں ٹیلی وژن نیانیا آیا تھا اورابھی پی ٹی وی نے رنگ نہیں پکڑے تھے تب وہ فتووں کی زد اورہمارے علماء کرام کے نشانے پر تھا۔ ان دنوں مولانا طہ سین مرحوم پی ٹی وی پر جاکر مذہبی پروگراموں میں شریک ہوتے تھے جس پر انکی مخالفت ہونا لازمی امر تھا ۔علماء کرام تنقید کرتے تھے ، البتہ علامہ بنوری رحمتہ اللہ علیہ سے قرابت داری کے سبب وہ اپنے ہم عصروں کی شدید مخالفت سے محفوظ رہے ۔ ڈاکٹر طہ سین نے اردگرد ہونے وا لی تبدیلیوں پر رکھنے والی نظر اپنے والد مرحوم سے ہی لی ہے۔ ڈاکٹر عامر طہ سوچتے ہیں اورسوال دباتے نہیں اور جواب کھوجنے نکل کھڑے ہوتے ہیں ،ڈاکٹر صاحب کا تعلق کراچی سے ہے لیکن عجیب اتفاق کہ ان سے کراچی میں زیادہ ملاقاتیں نہ رہیں ،اسلام آباد آئے رابطہ ہوا ،کہا کہ ملاقات ہونی چاہئے جواب دیا ضرور ہونی چاہئے اور پھر شہر اقتدار میں سیاسی افطار پارٹیوں سے پرے ایک ’’علمی افطار ‘‘ رکھ لی گئی ،ڈاکٹر صاحب میں تصنع بناوٹ ،پھوں پھاں نام کو نہیں ہے۔ وہ میرے دفتر تشریف لائے اورمیٹرو بس سروس میں بیٹھ کر ساتھ ہی گھر چلے آئے۔ ان سے طویل بے تکلف نشست ہوئی بات چیت کا آغاز جانے کہاں سے ہوا لیکن گھوم پھر کر مختلف ادیان پر آگیا۔ میرے ذہن میں کافی عرصے سے اک سوال کلبلا رہا ہے ،موقع غنیمت جان کر ڈاکٹر صاحب کے سامنے رکھ دیا عرض کیا ڈاکٹر صاحب ! یہودیوں کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے ؟ آپ مختلف مذاہب کے مذہبی پیشواؤں سے ملتے رہے ہیں کیا کبھی کسی یہودی عالم سے بھی ملاقات ہوئی ہے اور کیا یہودی بھی ہمارے لئے ایسے ہی جذبات رکھتے ہیں جیسے ہمارے ہیں ؟ ڈاکٹر صاحب مسکرادیئے کہنے لگے مجھے بھی یہودیوں سے ملنے ان کے بارے میں جاننے کا بہت اشتیاق تھاکہ یہ دنیا کی یہ چھوٹی سی قوم کیسے اتنی طاقتور ہوئی انہوں نے ایسا کیا کیا ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہودیوں سے کیسے اور کہاںملاجائے ؟ ایک بارمجھے انگلینڈ جانا ہوا وہاں میرے عزیز و اقارب رہائش پذیر ہیں۔ میں نے اپنے کزن سے اسی خواہش کا اظہار کیا تو وہ یوں بدکا جیسے میرے سینگ نکل آئے ہوں۔ کہنے لگا عامر بھائی ہم ان سے نہیں ملتے جلتے، فاصلے پر رہتے ہیں اور آپ بھی ملنے کی کوشش نہیں کریں گے،یہ پولیس کو بلا لیتے ہیں۔ وہاں انگلینڈ بلکہ دنیا بھر میں اقلیتیں مل جل کر رہتی ہیں۔ انگلینڈ میں بھی ان کے اپنے علاقے ہیں جہاں بڑی بڑی داڑھیوں والے یہودی سر پر ہیٹ رکھے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔میں اپنے کزن کے ساتھ ایسے ہی ایک علاقے کے پاس سے گزر رہا تھا کہ مجھے تین چاریہودی دکھائی دیئے۔ میں نے گاڑی رکوائی اور دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ میرا کزن مجھے روکتا رہ گیا۔ میں سیدھا ایک صاحب کے پاس گیا اور ایکسکیوزمی کہہ کرعرض کیا کہ میں تقابل ادیان کا طالب علم ہوں اور میں آپکے کسی عالم سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے میری بات سنی اور خندہ پیشانی سے کہا کہ میں ابھی آیا۔ایک منٹ رکئے گا یہ کہہ کر وہ فون بوتھ میں گھس گیا میرا کزن دانت پیس کر کہنے لگا کہا بھی تھا کہ ان سے مت ملو وہ پولیس کو کال کرنے گیا ہے اور ابھی ہمیں لگ پتہ جائے گا۔ لیکن تھوڑی دیر میں وہ شخص پبلک بوتھ سے باہر آیا اور اس نے ایک رقعہ میرے ہاتھ پر رکھ دیا جس میں ان کے کسی مذہبی عالم کانام اور نمبر تھا،وہ میرے لئے وقت لے چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ میں نے نوٹ کیا کہ یہودی بہت پلاننگ سے چلتے ہیں۔ اسرائیل میں جب کوئی یہودی خاتون حاملہ ہوتی ہے تو اسکا لائف اسٹائل یکدم تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسے احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ یہودی قوم کو تحفہ دینے والی ہے۔ اس کا بچہ ذہین اورغیر معمولی ہونا چاہئے ،اسکے لئے اس حاملہ عورت کا ڈائٹ پلان ترتیب دیا جاتا ہے۔ اسکے کھانے میں مچھلی،زیتون کا تیل ،بادام نٹس اور پھل فروٹ شامل کئے جاتے ہیں۔ یہ وہ سب اشیاء ہیں جن سے دماغی صلاحیتیں بڑھتی ہیں پھر وہ مخصوص ایکسرسائز کرتی ہیں۔ یہودی خاتون اور اسکا شوہر میز کے آمنے سامنے بیٹھ کر سوال جواب کرتے ہیں۔ الجبرا ،ریاضی کے سوال حل کرتے ہیںشکم مادر میں بچہ ان سب سوال جواب کا اثر لے رہا ہوتا ہے اور جب وہ بچہ اس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے تو اس کی تربیت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ یہودی کمیونٹی اس کے ساتھ ساتھ رہتی ہے آپ حیران ہوں گے دنیا بھر میں سودی نظام کا جال پھیلائے بیٹھے یہودی کمیونٹی کا ایک بنک اپنے نوجوانوں کو بلا سود قرضے دیتا ہے۔ ڈاکٹر عامر طہ سین سے طویل نشست کے بعد بھی میری سماعت میں ان کے جملے رکے رہے میں سوچنے لگا کہ دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ یہودی کہاں ہیں او ر امت مسلمہ کہاں ہے کیاکسی مسلم معاشرے میں آنے والے بچے کے لئے اس طرح کی محنت کی جاتی ہے ! ہم یہودیوں کو بہت برا بھلا کہتے ہیں اور اسکا پس منظر برسوں کا نہیں صدیوں کا ہے لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ دنیا بھر میں صرف ڈیڑھ کروڑ یہودی اتنے بااثر کیسے ہوگئے اور ہم اتنے باوسائل ہونے کے بعد اتنے بے اثر کیوں ہیں اور کب تک یونہی رہیں گے ،امت مسلمہ کبھی سوچے گی کبھی جاگے گی طے کرے گی کہ کچھ کرنا ہے !