سال2002ء ہی تھا۔۔۔ مہینہ یاد نہیں۔۔۔ میں ان دنوں پاکستان کے پہلے نجی چینل انڈس نیوز سے وابستہ تھا۔۔۔ قلم کی گھسائی کرتے دودہائی ہوچکی تھیں۔ مگر اس جوتوں کی گھسائی کے باوجود’’یافت‘‘ بس اتنی ہوتی کہ ساتھ عزت کے گھر کا چولہا جلتا یا چلتارہتا۔ انڈس کیوں کہ پہلا نجی چینل تھا اس لئے سرکاری ٹی وی سے ہٹ کر کہ اس میں آزادی ہی آزادی تھی۔ یوں مہینے دو میں ہماری تنخواہ کامیٹر بڑھنے لگا۔ اور شہر میں ہر تیسرا چوتھا۔۔ سلام بھی دینے لگا۔۔ 2003ء کے الیکشن کی آمد آمد تھی۔۔۔ بڑے مرکزی سیاسی رہنما اس لئے ایک ٹیلی فون کال پر آجاتے کہ ٹیلی ویژن کی تاریخ میں یہ ایک نیا تجربہ تھا کہ سرکاری، درباری، سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو بھی بھرپور اس بات کا موقع ملتا کہ اس میں اپنی جی بھر کے بھڑاس نکالیں۔۔۔ دراصل میں تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنی یادوں کو تازہ کرنا چاہتا ہوں کہ پہلی بار خان صاحب سے میری ملاقات2002ء کے آخر میں ہوئی تھی۔ ورلڈ کپ کے فاتح کپتان کی حیثیت سے اس وقت بھی ان کی ’’شہرت‘‘ اپنے عروج پر تھی۔۔۔ مگر ایک سیاستداں کی حیثیت سے انہیں سنجیدگی سے نہیں لیاجاتاتھا۔۔۔ سیاست اور صحافت کے جغادری ان پر پھبتی کستے کہ سیاست کرکٹ اور کینسر ہسپتال نہیں۔۔۔ یہاں پگڑی اچھلتی ہے ۔۔۔۔اسے مے خانہ کہتے ہیں۔ جاگیرداروں، وڈیروں، برادریوں، کروڑوں بلکے اربوں روپے پانی کی طرح بہانے کے ساتھ ساتھ ۔۔پنڈی آب پارہ کے بغیر اسلام آباد کا تخت نہیں ملتا۔۔۔ اب اس دور کا ذکر چھیڑا ہی ہے۔۔۔ تو خان صاحب کے حوالے سے گفتگو آگے بڑھانے سے پہلے ذرا چند دلچسپ واقعات کو یاد کرتاچلوں۔۔۔اس زمانے میں ’’پارٹیوں‘‘ کے مرکزی قائدین کے ساتھ اسی طرح ’’ہٹوبچو‘‘والا ہجوم نہ ہوتا تھا۔۔۔ ایم کیو ایم کی شہر پر مکمل گرفت تھی۔۔ سیکورٹی اتنا بڑامسئلہ نہیںتھا۔۔۔ ون آن ون انٹرویو کے ساتھ پینل انٹرویو کا بھی ہم نے سلسلہ شروع کیاہواتھا۔۔۔ اے این پی کے صدر اسفند یار ولی کراچی شہر میں آئے تو ہم نے ان کے ساتھ جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر غفور احمد کو بھی بلالیا۔۔ اب جو پروفیسر غفور اور اسفند یار ولی کا آمنا سامنا ہوا۔۔۔ تو اسفند یار ڈٹ گئے۔۔۔ کہ میں پروفیسر غفور کے ساتھ ہرگز نہیں بیٹھوں گا۔۔۔’’بابایہ میرے والدکا دوست رہا ہے میں اس کے سامنے زبان کھولوں ۔۔۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔۔۔ ہماری نئی نئی نوکری تھی۔۔ پروفیسر صاحب سے کہا کہ انہیں راضی کر لیں۔۔۔ ورنہ ہمارا شو نہیں ہوسکے گا۔ پروفیسر صاحب نے کوشش بھی کی۔۔ مگر ہمارے اسفند یار ولی کی ‘‘پختونیت‘‘ کے آگے ان کی بھی ایک نہیں چلی۔۔۔ سو یہ ہوتی تھی اس زمانے کے میڈیا کی روایت اور ایک آج کا یہ میڈیاہے کہ’’ریٹنگ‘‘ کیلئے بدزبانی، بدلگامی بلکہ ہاتھاپائی تک کیلئے مہمان سیاستدان اینکروں کا ہاتھ بٹارہے ہوتے ہیں۔۔۔ ایس ایم ظفر، میاں محمد اظہر، خواجہ آصف، اعجاز الحق، میاں خورشید قصوری، ظفراللہ جمالی، فیصل صالح حیات، تہمینہ دولتانہ، غنویٰ بھٹو، چوہدری اعتزاز احسن، چوہدری شجاعت حسین۔ کونسا ایسا مرکزی سیاسی رہنما تھا جو ایک فون کال پر نہ آجاتا ہو۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔۔ ایک دن ایک اور بھی مشکل پیش آئی کہ ہمارے سابق چیئرمین سینیٹ محترم رضا ربانی نے ن لیگ کے سابق گورنر سندھ محمد زبیر اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اسد عمر کے والد محترم جنرل عمر کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کردیا کہ میں یحییٰ خان جیسے آمر کے دست راست کے ساتھ بیٹھنا تو کیا اس کی شکل دیکھنا بھی گورا نہیں کرتا۔۔ رضا ربانی یونیورسٹی کے زمانے کے دوست ۔بڑی مشکل سے راضی کیا ۔مہینوں ہمارے بلاوے پہ نہ آئے۔ جیسا کہ ابتداء میں کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی یادوں کو تازہ کرنے کیلئے یہ کالم باندھا تھا۔۔۔ یہ بھی خیال آیا کہ بھئی’’وزیراعظم‘‘ بننے کے بعد اپنے ذاتی تعلق کی تشہیر کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ کسی تازہ تازہ حکمراں بننے والے کا۔ ابھی ہفتہ بھر پہلے وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق وغیرہ اپنے دیرینہ ساتھی کو بنی گالہ مبارکباد دینے گئے تو کرکٹ بورڈ میں عہدہ لینے کابازاری الزام لگادیاگیا۔۔۔ خیر ہم تو عمر کے اس پہر میں ہیں کہ عندلیبیں کتنی ہی آہ و زاریاں کریں ان پر کان نہیں دھرنا۔۔ یہ لیجئے ابھی تک2002ء میں محترم عمران خان سے پہلے دوٹوک انٹرویو سے نکل نہیں پارہا کہ جس میں میرا پہلا سوال ہی یہ تھا کہ خان صاحب آپ عظیم کپتان ضرور ہوں گے مگر سیاست کے اس وقت تو آپ بارہویں کھلاڑی ہیں۔۔۔؟ پہلے تو خان صاحب نے اپنی شرمیلی مسکراہٹ سے بولڈ کردیا پھر۔۔ بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے پتہ ہے یہ طویل کٹھن راستہ ہے مگر میں اسپورٹس مین ہوں۔۔ آخری گیند تک مقابلہ کروں گا، مخالفین نے کہا کہ اب کرکٹ کوچنگ کریں گے۔۔۔ مگر 2008ء میں پھر خان صاحب میدان میں تھے۔۔۔ میانوالی سے اکلوتی نشست جیتی تو سیاسی اور صحافتی پنڈتوں نے مشورہ دیا۔۔۔ شوکت خانم کے چندوں پر زیادہ توجہ دیں۔۔۔ سیاست میں شریفوں، زرداریوں،جتنی دولت اور موروثی سیاسی گھرانوں کے بغیر کامیابی نہیں ملتی۔۔۔ مگر خان صاحب کے اندر کا کھلاڑی ڈٹا رہا۔۔۔ 2013ء کے الیکشن سے2دن پہلے کراچی کی آخری انتخابی مہم میں ،میںان کی گاڑی میں تھا۔۔۔ خان صاحب نے بڑے عزم سے کہا۔۔۔ میں نے مضبوط تنظیم بنائی ہے۔۔ اگر دھاندلی نہیں ہوئی تو دونوں کو Clean Boldکردوں گا ان کی مراد پاکستان پیپلزپارٹی ،پاکستان مسلم لیگ ن سے تھی۔۔۔ اسی رات روانگی تھی ۔۔۔ شام کے پہلے پہر میں خبر آئی کہ خان صاحب کرین سے گرگئے ہیں۔۔۔ کئی گھنٹے ذاتی صدمے میں گزرے۔۔مئی2013ء کے الیکشن کے دن خان صاحب خود انتخابی میدان میں نہ تھے۔۔۔ ہفتے بھر بعد جب میں شوکت خانم ان کی عیادت کے لئے گیا۔۔۔تو لگا کہ انہیں سیاسی میدان سجانے میں کئی مہینے لگیں گے۔ اور پھر 2014ء کا ہنگامہ خیز دھرنا جس سے سارا ملک دہل کر رہ گیا۔۔۔ خان صاحب اسلام آباد کے دھرنے میں جب امپائر کا ذکر کرتے۔۔تو کہا جاتاکہ پنڈی آب پارہ کے منتظر ہیں۔۔۔ بہر حال دھرنے کا اختتام ایک المیے سے تعبیر کیاجائے گا۔۔۔مگر بہرحال اس بات کی دادعمران خان کو دی جائے گی کہ انہوں نے اگلے الیکشن کی تیاری 2016ء سے ہی شروع کردی تھی۔۔۔ 25جولائی2018ء کے الیکشن میں خان صاحب کیلئے پچ تیار ہوچکی تھی۔۔۔2بڑے مخالفین میں سے ایک نااہل ہوکر جیل میں اور دوسرا صرف سندھ تک محدود ۔۔۔ 25جولائی کے انتخابی نتائج کوئی بہت غیرمتوقع نہ تھے۔۔۔ ہاں اگر10نشستوں کااضافہ ہوجاتا تو خان صاحب کو ایک ایک ووٹ لینے کیلئے ہیلی کاپٹر اور جہاز استعمال نہ کرنے پڑتے۔۔۔ساتھ ہی ایسے اتحادیوں کے پاس جانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی۔۔۔ کہ جن کا ساتھ تنکے کی طرح ہے۔۔۔ بہرحال عمران خان ایک طویل کٹھن فاصلہ طے کرکے۔۔۔ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔۔۔ مخالفین کا کہنا ہے اور یقینا اس میں تعصب غالب ہے۔۔کہ سال نہیں نکال پائیں گے۔۔۔ سیاست میں معجزے نہیں ہوتے۔۔۔ وہ سیاست کا ورلڈ کپ جیت چکے ہیں۔۔ اوریہی ان کے مخالفین اوردشمنوں کیلئے ایک ایسا صدمہ ہے ۔۔۔ کہ جس سے جانبر ہونے میں مہینوں نہیں برسوں لگیں گے۔۔