حالیہ کچھ واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہورہے ہیں۔ پاکستانی حکومت نے باقاعدہ طور پر اعلان کیا ہے کہ جوہر ٹاون لاہور کے بم دھماکوںمیں بھارتی ریاست ملوث ہے جسکے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ دوسری طرف‘ بھارتی ائیر فورس کے سربراہ راکیش بھدوریا نے مقبوضہ جموں میں بھارتی ائیرفورس اسٹیشن پر ستائیس جون کو ہونے والے ڈرون حملوں کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا ہے۔بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف بپن راوت نے تنبیہہ کی ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی جانب سے کیے گئے ہیں تو بھارت انکے جواب میںپاکستان کے خلاف اپنے وقت‘ اپنی پسند کی جگہ پر‘ اپنی مرضی کے طریقہ سے جوابی حملہ کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت چین اور پاکستان کے خلاف بیک وقت جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ‘ اگر پاکستان نے چین سے ملکر بھارت کے خلاف جنگ کی تو بھارت جنگ میں پاکستان کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ یُوں لگ رہا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان خفیہ بات چیت کے ذریعے باہمی تعلقات کی بحالی کا عمل کامیاب نہیں ہوسکا۔ چند ماہ سے بین الاقوامی میڈیا میں خبریں گردش کررہی تھیںکہ بھارت اور پاکستان کے سلامتی اُمور اور انٹیلی جنس اداروں کے اعلیٰ حکام کے درمیان پس پردہ مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے دونوں متحارب ملکوں کو ساتھ بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بعض حلقوں میں یہ اُمید پیدا ہوچلی تھی کہ پاکستان اور بھارت مکمل سفارتی تعلقات بحال کرلیں گے اور باقاعدہ کھلے عام مذاکرات کی طرف پیش قدمی کریں گے۔ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان نے بھارت سے سفارتی تعلق کی سطح کم کر لی تھی۔ وزیراعظم عمران خان کا موقف رہا ہے کہ جب بھارت مقبوضہ جموں کشمیرکی پرانی خصوصی حیثیت بحال کرے گا صرف اسی صورت میں بھارت سے تعلقات معمول کی سطح پر لائے جاسکتے ہیں۔ لیکن دُور دُور تک امکان نہیں کہ بھارتی حکومت اس شرط کو تسلیم کرے۔ پاکستان کے ساتھ سختی سے پیش آنا اورمقبوضہ کشمیر پر بھارتی گرفت کو مضبوط کرنا وزیراعظم نریندرا مودی کی سیاست کا اہم جزو ہے۔ اگر وہ کشمیرپر نرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں توملک کے اندر انکی مقبولیت کو سخت دھچکا لگے گا۔ بین الاقوامی دباؤ‘ چین سے سرحدی کشیدگی‘ کورونا وبا کے باعث خراب معاشی صورتحال اور افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے بھارت نے پاکستان سے خفیہ مذاکرات شروع کیے ۔ گزشتہ سال لدّاخ میں بھارتی اور چینی افواج کی جھڑپیں ہوگئیں اور چین نے سینکڑوں کلومیٹر پر پھیلے رقبہ پر اپنی فوجیں تعینات کردیں۔ دونوں ممالک اس علاقہ کو اپنا اپنا حصہّ قرار دیتے ہیں۔بھارت کو چین سے ہزیمت اٹھانا پڑی اور اپنی فوجوں کی بڑی تعداد چین کے ساتھ سرحد پر لگانا پڑی۔ ابھی یہ محاذ آرائی ہورہی تھی کہ کورونا وبا نے بھارت میں تباہی مچا دی۔ اسکی معیشت مندی کا شکار ہوگئی۔کورونا وبا سے بڑے پیمانے پرہونے والے نقصان سے بھی مودی سرکار کی عوام میں مقبولیت کو چوٹ لگی۔ افغانستان کی صورتحال بھی بھارت کیلیے سازگار نہیں۔ امریکی فوجوں کا انخلا افغانستان سے تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ طالبان بہت تیزی سے وسیع علاقوں پر قابض ہوتے جارہے ہیں۔ افغان فوجی بھاگ رہے ہیں یا انکے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ بھارت نے امریکہ کی موجودگی میں افغانستان میں متعدد قونصل خانے کھولے ہوئے تھے۔ اب انہیں بند کردیا گیا ہے۔ بھارتی سفارتکار اور شہری افغانستان سے انڈیا واپس جارہے ہیں۔ دو دہائیوں سے بھارت کابل حکومت کے ساتھ ملکرپاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کراتا رہا اور پشتون و بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی مدد کرتا رہا۔ اب اسے یہ سہولت میسر نہیں۔ دلّی سرکار اپنا تھوکا چاٹ کر طالبان کے ساتھ خفیہ بات چیت میں بھی مصروف ہے۔ ایک بڑا ملک ہونے کی حیثیت سے انڈیا کے پاس اتنے مالی وسائل ہیںکہ وہ طالبان کو مالی امداد کی پیش کش کرکے ان سے بہتر تعلقات ِکار قائم کرسکے۔ بہرحال‘ انڈیا اور طالبان کے درمیان رشتے استوار ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ اس وقت تک بھارت کا مفاد اس میں ہے کہ پاکستان کو کسی نہ کسی قسم کی سفارت کاری میں اُلجھائے رکھے۔ پس ِپردہ مذاکرات کے نتیجہ میں اس سال فروری میں دونوں ملکوں کی افواج نے مقبوضہ جموںکشمیر کی لائن آف کنٹرول پر اٹھارہ سال پرانے سیز فائر معاہدہ پر سختی سے عمل درآمد کی تجدید کا اعلامیہ جاری کیا۔ یہ ایک بڑی پیش رفت تھی۔ اس وقت سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ بھارت سے تعلقات اور کشمیر تنازعہ پر پاکستان کے اندر اتفاق رائے اور یکسوئی نہیں ہے۔ اس بارے میں تین مختلف آراء کے حامل گروہ ہیں۔ ایک بڑا طبقہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے تنازعہ کا کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل چاہتا ہے ۔ ایک سخت گیر طبقہ غزوہ ہند میں یقین رکھتا ہے جس کے مطابق پاکستان اور بھارت میں فیصلہ کُن جنگ ہوگی اور پاکستان فتح یاب ہوگا اسلیے انکے خیال میں پاکستان کو اس معرکہ کی تیاری کرنی چاہیے۔ ایک تیسراصلح جُو لیکن بااثرگروہ کچھ افسران‘ بڑے کاروباری افراد اور لبرل اشرافیہ پر مشتمل ہے ۔یہ طبقہ مقبوضہ کشمیر کے تنازعہ کو نظر انداز کرکے بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کا حامی ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کا مفاد ہے کہ وہ بھارت اور افغانستان‘ایران و وسط ایشیا کے درمیان ایک راہداری بن جائے تاکہ اسکے راستے تجارت سے مال کمایا اور اپنی معیشت کو مستحکم کیا جاسکے۔ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کئی بار یہ بات دہرائی ہے کہ پاکستان اب جیو پالیٹکس کی بجائے جیو اکنامکس کی پالیسی اختیار کرچکاہے۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پاکستان مختلف خطوں کے درمیان پُل بننے کو تیار ہے۔ آسان لفظوں میں اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمسایہ ملکوں بشمول انڈیا کے ساتھ تعلقات میں معاشی اُمور کو اہمیت دی جائے گی۔ پاکستان جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اور اس محل وقوع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ اس حکمت عملی پر عمل کرنا اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کشمیر کے معاملہ پر فی الحال ٹھنڈا ہوکر بیٹھ جائے اور بھارت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔اس اعتبار سے کشمیر پر ہمارے سرکاری موقف اور جیو اکنامکس کی پالیسی میں گہرا تضاد ہے۔ ہماری ریاست اصل میں کیا چاہتی ہے اسکا تعین کرنا مشکل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے اعلیٰ حکام عوام کی ناراضی کے ڈر سے صاف بات کرنے سے کترا رہے ہوں۔ ہماری ریاست کی جو بھی پالیسی ہے وہ واضح اورتضادات سے پاک ہونی چاہیے۔ اس معاملہ پر قوم اور پارلیمان کواعتماد لیا جانا چاہیے۔