آصف زرداری کو آج بھی انتظار ہے کہ اس کواچانک اطلاع مل سکتی ہے ’’صاحب! آپ کے جانے کا وقت آگیا ہے،، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی گرفتاری عمل میں کیوں نہیں آ رہی؟آصف زرداری اور اس کی گرفتاری کے درمیاں قربان ہونے والے بکروں کی قطار نہیں ہے۔ آصف زرداری کافی وقت پہلے گرفتار ہو چکے ہوتے مگر ان کی گرفتاری عمل میں نہ لانے والے دونوں محاذوں پر ایک وقت میں جنگ شروع کرنا نہیں چاہتے۔ ان کا خیال تھا کہ پہلے نواز لیگ کا محاذ ذرا ٹھنڈا ہوجائے اس کے بعد پیپلز پارٹی پر ہاتھ ڈالیں گے۔ زرداری کی گرفتاری میں کچھ وقت دیر کا سبب سندھ حکومت کو گرانے میں عجلت بھی ہے۔اگر سندھ حکومت گرانے کے لیے طوفانی سرگرمی نہ ہوتی تو شاید دونوں اہداف ہاتھ آجاتے ایک طرف زرداری کی گرفتاری عمل میں آجاتی اور دوسری طرف سندھ حکومت کسی پکے ہوئے میوے کی مانند وفاقی حکومت کی جھولی میں گرجاتی۔ اقتداری سیاست میں صبر کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ سیاست میں کسی مظہر کا صرف ایک سبب نہیں ہوتا۔زرداری کی گرفتاری کا ایک سبب یہ ہے کہ حکومت دونوں محاذ پر لڑائی لڑنے کے موڈ میں نہیں۔ اور یہ اچھی حکمت عملی ہے۔ کیوں کہ زرداری نے گرفتاری سے بچنے کے لیے مولانا فضل الرحمان کو سرگرم ہونے کا اشارہ بھی دیا۔جب کہ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ زرداری کی گرفتاری عمل میں نہ آنے کا اصل سبب یہ ہے کہ زرداری اور اسٹیبلشمنٹ میں پس پردہ اس بات پر مذاکرات ہو رہے ہیں کہ اگر زرداری پیپلز پارٹی کی عملی قیادت اپنے صاحبزادے کے حوالے کریں اور لوٹی ہوئی دولت ریاست کے حوالے کردیں تو ان پر نرمی برتی جاسکتی ہے۔آصف زرداری اس بات پر انکار نہیں کر رہے مگر وہ بارگینگ کے ذریعے زیادہ فائدہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔زرداری بہت ہوشیار ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس بارگینگ کے دوران بھی مذاکرات کرنے والوں کا موڈ خراب ہوسکتا ہے اور وہ فیصلہ کرنے والوں کو یہ رپورٹ دے سکتے ہے کہ ’’سر! مزید گفتگو فضول ہے،، اس کے بعد زرداری صاحب کا انتظار ختم ہوسکتا ہے اور میڈیا کو ایک گرما گرما بریکنگ نیوز مل سکتی ہے مگر اس عمل میں ابھی کچھ دیر ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے آپ کو بکھرنے سے بچانے کے لیے سندھ میں یہ افواہ عام کردی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور زرداری صاحب میں مکمل انڈر اسٹینڈنگ ہوچکی ہے۔ پیپلز پارٹی نے تو سندھ میں اس حد تک بات پھیلادی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور زرداری صاحب کے درمیان بنیادی ڈیل ہو چکی ہے ۔ اب صرف تفصیلات طے ہو رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سندھ کے سیاسی سرکلز میں اس حد تک بات بڑھادی ہے کہ زرداری صاحب کی ذہانت نے نہ صرف سندھ حکومت کو محفوظ رکھا ہے بلکہ عمران خان کی حکومت کو سہارا دینا اور ضروری قانون سازی میںاس کا ساتھ دینے کے صورت میں نہ صرف آصف زرداری کے سر پر لٹکتی ہوئی گرفتاری کی تلوار ہٹانے بلکہ انہیں ایک بار پھر ایوان صدر کی رونق بنانے اور انہیں صدارتی منصب کی زرہ پہنانے کے بارے میں سب کچھ طے ہوچکا ہے۔ جب ایسی باتیں سندھ میں ’’رات والی محفلوں،، میں ہوتی ہیں تب اکثر لوگوں کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں کہ ’’سب پہ بھاری زرداری،، پیپلز پارٹی کے تجربہ کار اور سینئر رہنما صرف اس بات کو مدنظر نہیں رکھتے کہ زرداری جیل جائیں گے یا نہیں؟ ان کی نظر پارٹی کی قیادت پر ہے۔ وہ زرداری کی بگڑتی ہوئی صحت کے باعث سوچ رہے ہیں کہ اگر کل ایسا ویسا ہوا تو کیا بلاول میں بات ہے کہ وہ منتشرہوتی ہوئی پارٹی کو منظم رکھ سکے؟اس وقت تو پوری پارٹی زرداری کے ہاتھ میں ہے اگر کل کچھ بھی ہوجائے آصف زرداری کو اللہ لمبی عمر دے لیکن اگر ان کے ہاتھ میں ہتھ کڑی بھی لگتی ہے تو پیپلز پارٹی میں لازمی طور پر انتشار پیدا ہوگا۔ آصف زرداری کی طرف سے اپنی بہن فریال تالپور کو آگے لانے کا سب سے بڑا سبب یہی تھا کہ ان میں پارٹی کو اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑ کر رکھنے کی صلاحیت ہے مگر کرپشن کیسز میں تو دونوں گرفتارہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیپلز پارٹی کی قیادت کس کے پاس ہوگی؟ پیپلز پارٹی کے موقع پرست اس بات سے پریشان نہیں کہ آصف زرداری جیل جاتے ہیں یا نہیں؟ ان کو صرف اس بات کا خوف ہے کہ اگر سندھ حکومت پیپلز پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئی تو پھر ان کو تحفظ کون فراہم کرے گا؟پیپلز پارٹی کی صفوں میں یہ پریشانی بھی ہے کہ پارٹی میں موجود دھڑے بندی ابھر کر آجائے گی اور اس کے باعث ایسا ماحول وجود میں آسکتا ہے کہ پارٹی کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف سلطانی گواہ بن جائیں۔ آصف زرداری کو اس بات کا بھی خوف ہے وہ لوگ جو شروع سے ان کے خلاف ہیں اور ان کو مجبوری کے باعث برداشت کر رہے ہیں وہ ابھر کر سامنے آجائیں گے۔ اس طرح پیپلز پارٹی بحرانوں کے طوفانوں میں گھر جائے گی۔ آصف زرداری کے لیے یہ فیصلہ آسان نہیں کہ وہ کس طرف جائے؟ کیا وہ اپنی دولت اور پارٹی قیادت سے دستبردار ہوجائیں؟ یا وہ اس عمر میں جیل کی سختی برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجائے؟ زرداری کی گرفتاری بہت سارے سوالات میں گھری ہوئی ہے۔ زرداری کی گرفتاری صرف پیپلز پارٹی کے حوالے سے اہم نہیں ہے بلکہ ان کی گرفتاری عام طور پر پاکستان اور خاص طور پر سندھ کی سیاست میں بہت بڑی تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ سندھ میں آصف زرداری نے بڑی ہوشیاری سے اپنے نعم البدل کو ابھرنے نہیں دیا۔ سندھ میں آصف زرداری نے نہ صرف ن لیگ بلکہ جیئے سندھ اور دیگر قومپرست جماعتوں کو بھی نہیں بخشا۔ زرداری نے سندھ میں ہر سرگرم شخص کو پیپلز پارٹی میں شامل کرنے کی جو پالیسی چلائی ہے اس کے باعث دیگر جماعتوں کے لیے اپنا وجود قائم کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لیے اگر آصف زرداری کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو سندھ میں دیگر جماعتیں ان کی گرفتاری کی مذمت کرنے کے بجائے ایک فرحت کی کیفیت محسوس کریں گی۔ آصف زرداری اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاست کی دنیا میں اس کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔ اس لیے وہ گرفتاری کے نام سے گھبراتے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر ان کی گرفتاری عمل میں آگئی تو پھر نہ صرف ان کے ہاتھوں سے پارٹی چھوٹے گی بلکہ وہ سارے مزے جو ایک بہت امیر شخص کو میسر ہوتے ہیں وہ ان سب سے محروم ہو جائیں گے۔ کیوں کہ یہ مشرف کا دور حکومت نہیں کہ وہ ڈاکٹر عاصم جیسا کوئی کردار تلاش کریں اور ہسپتال میں عیاشی کے ساتھ رہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں اگر میاں نواز شریف بھی اس عمر میں اسیری کی تکلیف سے گزر رہے ہیں تو پھر یہ سب کچھ ان کے مقدر کا حصہ بھی بن سکتاہے۔ ان ساری باتوں کے باعث آصف زرداری اس وقت سخت کشمکش میں ہیں۔ وہ دولت اور طاقت سے محروم ہونا بھی نہیںچاہتے اور وہ جیل جانے سے بھی ڈر رہے ہیں؟ اس صورت میں وہ کیا کریں؟ وہ ان دو سوالات کے درمیان لٹک رہے ہیں۔ا ن کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ کون سا فیصلہ لیں؟ ان کے لیے ایک طرف آگ اور دوسری طرف پانی ہے۔ وہ کہاں جائیں؟ کبھی کبھی لوگ فیصلہ نہیں کرپاتے اور وہ چاہتے ہیں کہ حالات ان کے بارے میں فیصلہ کریں ۔ آصف زرداری کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں وہ مشکل حالات میںتوکل پر سب کچھ چھوڑ دینے والے شخص بھی نہیں۔ اس لیے ان کے حصے میں آنے والی مشکلات زیادہ الجھ گئی ہیں۔ ان کو سلجھانے کے لیے بہت وقت اور بڑی محنت درکار ہے۔ جب کہ زرداری صاحب یہ دونوں کام نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ اب ان کی عمر محنت کرنے والی نہیں اور ان کے پاس حالات کے دباؤ کے باعث وقت بھی بہت کم ہے۔