وزیر اعظم عمران خاں مہنگائی کی سونامی میں ڈوبتے ہوئے عوام کو جب بھی یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ، عوام کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔ مجھے ہنسی آتی ہے کہ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق لڑکپن کا ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے ان دنوں گائوں میں شاد یوں کا بے صبری سے انتظار رہتا ہ تھا کہ بارات کے ساتھ جائیں گے اور اس بہانے سیروسیاخت بھی ہو جائیگی ا۔نئے نئے شہر اور دیہات دیکھیں گے۔ شادی کا دن مقرر ہوا اور جب یہ سنا کہ اس گائوں کی بارات پہلی دفعہ بڑی بس پر جائے گی تو مارے شوق کے دن کاٹے نہیں کٹتے تھے۔ آخر کار وہ دن بھی آ گیا۔ بس کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر قرب و جوار اور قابل دید مناظر دیکھنے کا اور ہی لطف ہے چنانچہ گائوں کے سکول کی گرائونڈ میں آ کر بس نے زور دار ہارن بجایا تو سب ہم جھولی کسی فاتح کے استقبال کی طرح دوڑ اٹھے۔بچے کچھ چلتی میں اور کچھ رکتی میں سوار ہو گئے۔ ڈرائیور نے بچوں کا شوقدیکھ کر سکول کے نلکے سے ساری بس دھلوائی۔ ایک بزرگ نے کہا کہ دو باراتیں جانی ہیں یہ نہ ہو کہ ہم دیر سے پہنچیں اور ہماری ناک کٹ جائے۔ بزرگ وار نے ڈرائیور سے کہا کہ میں نے تمہیں کبھی بڑی سڑک پر بس چلاتے ہوئے نہیں دیکھا تم تو کنڈیکٹر ہو۔ وہ بولا فکر نہ کریں میں سارے کام جانتا ہوں۔ ڈرائیور بھی،‘ کنڈیکٹر بھی‘ ہیلپربھی، حتیٰ کہ بس خراب ہو جائے تو میں ہی ٹھیک کرتا ہوں۔ خیر،گائوں کے قبرستان میں شاہ جی کے مزار پر دولہا سلامی دے کر آیا اور بارات چل پڑی۔ دوران ڈرائیورنگ جب بھی کچی سڑک پر گیئر بدلا جاتا۔یوں لگتا کہ کوئی چیز ٹوٹ رہی ہے۔ اس حرکت پر جب سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ماسٹر صاحب اسے ٹوکتے کہ ہر آٹھ دن بعد شہر جاتا ہوں اور اسی بس پر جاتا ہوں مگر ایسی کبھی آواز نہیں آتی۔ خود ساختہ ڈرائیور بولا کہ گھبرائیں نہیں۔ راستہ کچا ہے اس وجہ سے گیئر آواز کرتا ہے ا۔تنی دیر میںچھوٹی نہر آ گئی ،پل ذرا تنگ تھا مگر ڈرائیور نے سامنے سے آتے ہوئے ٹریکٹر کے گزرنے کا بھی انتظار نہ کیا۔ بمشکل بس نہر میں گرتے گرتے بچی۔ سب باراتیوں نے کہا کہ بلا جی کچھ تو خیال کرو مگر وہ کہتا کہ گھبرانا نہیں۔ میں نے سب کا احتجاج ختم کروانے کے لئے اونچی آواز میں ٹیپ لگا دی۔ چنانچہ عارفانہ کلام پر مشتمل قوالی کے احترام میں سب خاموش ہو گئے۔ خدا خدا کر کے کچا راستہ ختم ہوا اور جونہی بڑی سڑک آئی میں نے کلمہ شکر ادا کیا کہ سامنے آتی ہوئی گدھا گاڑی کے ساتھ بس ٹکرا گئی۔ گدھا گاڑی ریڑھی بان سمیت الٹ گئی اور منجھے ہوئے ڈرائیور نے گاڑی سڑک پر ڈال دی۔ گردو غبار کے بادلوں میں جائے حادثہ اور ڈرائیور کی ڈرائیوری کے متاثرین کی کوئی خبر نہ تھی۔ بس فراٹے بھرنے کی بجائے کچی سڑک والی رفتار پر ہی جا رہی تھی کہ سب نے کہا کہ استاد گیئر بھی بدلو۔ مگر وہ پوری توانائی سے گیئر بدلنے کی کشتی کرتا رہا۔ پھر ماسٹر جی بولے کہ تمہیں بس چلانا نہیں آتی تو ڈرائیونگ سیٹ پر کیوں بیٹھے تھے۔ وہ کہنے لگا گیئر پھنس گیا ہے ،تھوڑی دیر بعد خود بخود ٹھیک ہو جائے گا بس کی یہ رفتار دیکھ کر سب کی امیدوں پر پانی پھر گیا کہ دوسری بارات سے پہلے پہنچنا مشکل کام ہے۔ بارات کا سفر شروع ہوا تو ڈرائیور نے گاڑی خوب بھگائی آدھے گھنٹے بعد دوسرا شہر آ گیا۔ شہر کے باہر والے موڑ پر ٹریفک پولیس نے روک لیا کاغذات منگوائے ڈرائیور کا لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے جرمانہ ہوا۔ بس شہر کا سینہ چیرتے ہوئے جا رہی تھی کہ سامنے آنے والے خود ہی اپنی گاڑی کو بچانے کے لئے راستہ دیے جا رہے تھے۔ شہر کے باہر والا موڑ آ گیا۔ بڑے بڑے سپیڈ بریکروں کی ڈرائیور نے پرواہ نہ کی اچانک آواز آئی اور بس رک گئی۔ پھرتیلے ڈرائیور نے نیچے آ کر دیکھا تو بس کا ایکسل ٹوٹ گیا تھا مگر کمال مہارت نے اس نے کہا کہ گھبرانا نہیں میں آپ کو بروقت پہنچائوں گا۔ باراتیوں نے اب ڈرائیور کی پٹائی کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر دولہے کے والد نے سب کے آگے ہاتھ جوڑ دیے کہ بس مالکان میرے دوست ہیں اور یہ رشتہ بھی انہوں نے طے کروایا تھا۔ عصر کی اذانیں ہونے لگیں اور سردیوں کے دن ہونے کی وجہ سے دن کی روشنی میں بارات کا لڑکی والوں کے گھر پہنچنا محال نظر آ رہا تھا ایک سیانے نے کہا کہ یہ بس صبح تک ٹھیک ہو گی کیا رات،بارات نے اس بس میں گزارنی ہے؟اس نے مشورہ دیا کہ کوئی متبادل انتظام کرو۔ کچھ تانگے ریڑھے ایک ویگن بڑی مشکل سے دستیاب ہوئی ۔ہفتہ وار تعطیل کی وجہ سے زیادہ تر بسیں شادی بیاہوں کے لئے بک تھیں۔سورج غروب ہو چکا تھا۔ دوسری بارات وہیں سے فاتحانہ نعرے لگاتے ہوئے گزر گئی۔ متبادل انتظام کرتے کرتے مغرب ہو گئی ابھی دس بارہ کلو میٹر منزل دور تھی سردی کی شدت کے ساتھ بھوک نے بھی سب کو نڈھال کر رکھا تھا ۔ دولہے کے علاوہ سب کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں(دولہے کے سہرے کی وجہ سے جھکی ہوئی گردن نظر نہیں آ رہی تھی) گائوں پر میزبانوں کی بجائے کتوں نے بھونک بھونک لگا کر استقبال کیا۔ گائوں میں کوئی فوتیگی ہو چکی تھی‘ شرلیاں اور پٹاخے گندے نالے میں پھینک دیے گئے اور چوروں کی طرح دبے پائوں لڑکی والوں کے گھر پہنچے۔ بیورو کریسی کی سرد مہری سے بھی زیادہ ٹھنڈا کھانا حلق سے اتر نہیں رہا تھا حکم ملا کہ جنازے سے پہلے پہلے بارات واپس چلی جائے۔ اپنے گائوں آتے آتے رات کا پچھلا پہر ہو چکا تھا۔ اس بار گائوں گیا تو نوے کی دہائی کو کراس کرنے والے دو چار بزرگوں کی عیادت کرنے گیا انہوں نے وزیر اعظم کے شکریے کا حکم دیا کہ اس کمر توڑ مہنگائی میں ہم ہنس ہنس کر دوہرے ہوتے رہتے ہیں کہ جب وزیر اعظم صاحب ہر بحران پر کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں۔ تو ہم نمبرداروں کی بارات کو یاد کر کے عمر کے آخری دنوں کو زعفران زار بنائے رکھتے ہیں اور مجھے جب وہ سب کچھ یاد آنے لگتا ہے کہ گاڑی کے مالک بارات کا استقبال کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ گھبرانا نہیں ۔اگلی بارات تک ڈرائیور جہاز اڑانے کی بھی تربیت حاصل کر لے گا اور ہمارے پوتے اور نواسیوں کی بارات جب جہاز کے ذریعے کراچی جائیگی تو یہی بلا ڈرائیور جہاز اس طرح اڑائے گا کہ قومی ہیرو ایم ایم عالم کو ہم بھول جائیں گے۔