’’کینسر کا مریض ہوں ،عمر اُنہتر برس ہے،قوتِ مدافعت انتہائی کم ہے،نیب میں پیش نہیں ہو سکتا‘‘ یہ سطر ،قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف اورتین بار وزیرِ اعلیٰ رہنے والے میاں شہباز شریف کے اُس خط سے لی گئی ہے ،جو چند دِن اُدھر نیب کو لکھا گیاتھا۔اُنہوں نے اس خط میں نیب سے استدعا کی کہ لاک ڈائون کے خاتمے، کورونا وباء کے خطرے تک ،اُنہیں مہلت دی جائے۔شہباز شریف ستمبر1951ء میں پیدا ہوئے ،عملی سیاست میں 1988ء میں قدم رکھا ،یہ تین بار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ رہے ،1997ء کے انتخابات میں پہلی بار یہ منصب سنبھالا،بعدازاں 2008ء سے 2018ء تک کے عرصہ میں دوبار وزیرِ اعلیٰ رہے۔یہ بہ ظاہر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے،مگر آپ اِن کو لاہور کا وزیرِ اعلیٰ کہہ سکتے ہیں ،اگر آپ میری بات سے متفق نہیں ،تو لاہور کے قریبی اضلاع کو بھی شامل کر لیں ۔ یہ بہت سخت اور بہترین منتظم کے طور پر پہچان رکھتے ہیں۔اِن کی پہچان کا ایک حوالہ ’’خادمِ اعلیٰ‘‘کا بھی ہے۔مگر اِن کی وہ خدمات ،جن کی بدولت یہ خادمِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، کم ازکم مجھے تو معلوم نہیں ہیں۔البتہ اِن کی بعض ’’خدمات‘‘متنازعہ ضرور ہیں۔جیسا کہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین منصوبوں کے ضمن میں خدمات۔یہ خدمات جو متنازعہ ہیں،اہلیانِ لاہور کے لیے مخصوص ہیں،یا راولپنڈی یا پھر ملتان کے باسیوں کے لیے۔اِن کے بہترین منتظم کی اعلیٰ مثالیں یہ ہیں کہ وزارتِ اعلیٰ کے دوران کئی سرکاری ہسپتالوں کے ایم ایس معطل کئے اور سرکاری کالجز کے اِساتذہ سے ڈینگی کے خاتمہ کے لیے آگاہی مارچ کروایا۔لاہور کے پڑوس میںتاریخی شہر قصور پڑتا ہے۔قصور میں 2015ء سے جنوری 2018ء تک آٹھ چھوٹی بچیوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور پانچ بچیاں بدسلوکی کے بعد قتل بھی کی گئیں،اس دوران ایک نوجوان کو بچیوں کا قاتل قراردے کر پولیس مقابلے میں ماردیاگیا،پھر جب آٹھویں بچی زینب درندگی کا شکار ہوئی ،سماجی دبائو بڑھا،تو عمران علی مجرم پکڑا گیا تومعلوم پڑا کہ اس سے پہلے درندگی کا شکار ہونے والی سب بچیوں کا قاتل یہی تھا۔اس سارے عرصہ میں شہباز شریف صاحب وزیرِ اعلیٰ تھے۔زینب کیس عالمی گونج بنا تو یہ گاہے بہ گاہے قصور جا پہنچتے اور روزانہ نوید سناتے کہ قاتل بہت جلد پکڑاجائے گا۔کئی دِن اور پنجاب کے کئی شہروں کی پولیس لگانے کے بعد قاتل اپنی غلطی سے پکڑا گیا ۔مگر اس کے باوجود شہباز شریف صاحب بہت سخت اور بہترین منتظم کے منصب پر فائز رہے اور خادمِ اعلیٰ کی حیثیت بھی برقرار رہی۔یہ سیلاب کے دِنوں میں خوب شہرت سمیٹتے رہے ہیں،سیلاب کے پانی میں اُتر جانا اور کسی بڑھیا کے سرپر ہاتھ پھیرنا ،اِنہیں ہردِل عزیز رہنما بنادیتا۔ان کے بہترین انتظام اور خدمات کے باوجود ادارے پنپ سکے اور نہ ہی لوگوں کے زخم بھرسکے اور نہ یہ خود کو پورے پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ تسلیم کرواسکے۔اِ ن کے تیسرے دور میں ماڈل ٹائون کا واقعہ ،کوئی معمولی واقعہ تو نہیں تھا؟مگر یہ واقعہ معمولی ہی بن کر رہ گیا۔وجہ یہ کہ مرنے والے معمولی لوگ تھے۔یہاں کے’’ معمولی لوگ ‘‘کون ہوتے ہیں ؟جو اپنی طبعی عمریں پوری نہیں کرپاتے،جن کے پیٹ میں رات کو درد پڑے تو صبح دَم مساجد کے اسپیکر ز جنازوں کے اعلان سے پھٹ پڑتے ہیں۔یہ معمولی لوگ دوسروں کی خدمات کے لیے پیدا ہوتے ہیں ،مگر پھربھی اِن کی ’’خدمات‘‘کی بدولت کوئی انہیں ’’ادنیٰ خادم‘‘بھی نہیں سمجھتا۔یہ لوگ درندگی کا نشانہ بننے ،سڑکوں پر ٹریفک کے نیچے آنے سے ،سیلاب میں ڈوبنے سے ،تیز بارش میںگھرکی چھت گرنے سے ،بوسیدہ عمارت کے زمین بوس ہونے سے اوراندھی گولی چلنے سے ، سہولت سے مَر جاتے ہیں۔ان کا مَرنا کوئی واقعہ نہیں بنتا۔بھلا!جڑی بوٹی کا تلف ہونا بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے؟شہبا ز شریف سیاست دان ہیں اور ہر سیاست دان اپنی مخصوص شہرت کی حامل عمارت بناتا ہے اور اُس عمارت میں اپنی باقی ساری سیاست گزار دیتا ہے،اس شہرت کی عمارت میں اگلی نسلیں بھی بسیراکرتی ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی ،کپڑااور مکان،کی عمارت تعمیر کی تھی،اُن کی تیسری نسل عمارت کے سائے میں جیے جارہی ہے۔شہباز شریف ایسی عمارت تعمیر کرنے میں یکسر ناکام رہے ہیں۔اِن کے بڑے بھائی تین بار کے وزیرِ اعظم بھی ایسی کوئی عمارت بنانے میں کامیاب نہ ٹھہرے۔’’ووٹ کو عزت‘‘بہت مضبوط عمارت بن سکتی تھی ،مگر ابھی اُس کی نیو ہی ڈالی گئی تھی کہ ’’بیانیہ‘‘بدل دیا گیا۔البتہ شہباز شریف نے عمارت بنانے کی کوششیں ضرور کیں،یہ کوششیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم سے گریز کی تھیں، مگر اِن کی کوششوں پر 2016ء پانامہ اسکینڈل کے بعد ،بڑے بھائی کی بدولت پانی پھرتا رہا۔تاہم یہ ساری کوششیں ’’جھونپڑی‘‘ بنانے تک محدود رہیں،’’اہرامِ مصر‘‘جیسی عمارت کی تعمیر شہبازشریف کی سوچ نہ بن سکی،خیر ایسی سوچ تو ملک کے کسی رہنما کی نہ بن سکی۔اہرامِ مصر کی تعمیر مشکل اَمر ہر گز نہیں۔یہ محض ’’سماجی خدمات ‘‘کے ہتھیار سے بھی ممکن ہے۔مگر ’’خادمِ اعلیٰ ‘‘کہلوانے والا اس ہتھیار کو استعمال میں لانے سے قاصر رہا۔شہباز شریف کی سیاست کا دائرہ دوشخصیات کے دائروں کے مابین پھنسا ہوا ہے۔ایک دائرہ میاں نواز شریف کا ہے،میاں نواز شریف سیاست دان نہ ہوتے تو شہباز شریف ایک کاروباری تو ہوتے ،لیکن تین بار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ہرگز نہ ہوتے،دوسرا دائرہ مریم نواز کا ہے ،مریم نواز کے دائرے سے اِن کادائرہ کیونکر بڑا ہوسکتا ہے؟یعنی میاں شہبازشریف کی سیاست کادائرہ میاں نواز شریف کی وجہ سے وسیع رہا اور اب یہ دائرہ مریم نواز کی عملی سیاست سے سکڑتا ہوامحسوس کیا جارہا ہے۔میاں شہباز شریف صاحب کو خداجلد صحت دے ۔مگر اُنہوں نے یہ کیوں کہا کہ ’’کینسر کا مریض ہوں ،عمر اُنہتر برس ہے،قوتِ مدافعت انتہائی کم ہے،نیب میں پیش نہیں ہوسکتا‘‘وہ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ ’’تین بار وزیرِ اعلیٰ رہا ہوں ،بلاتفریق سماجی خدمات کی وجہ سے پنجاب کے ہر شہر ،گائوں ،گلی کے لوگ اِن کو ’’خادمِ اعلیٰ‘‘ کہتے ہیں ،انہی خدمات کے عوض ،یہ کورونا وباء کے خطرہ تک نیب میں پیش نہیں ہوسکتے‘‘مگر یہ ایسا نہیں کہہ سکتے کہ میاں شہباز شریف نے 1988سے 2018ء اور لمحہ موجود تک ’’جھونپڑی ‘‘بنانے پر توجہ مرکوز رکھی ،یہ اہرامِ مصرجیسی عمارت کی تعمیر کی طرف دھیان نہ دے پائے۔