روزنامہ 92 نیوز کی چوتھی سالگرہ ملک بھر میں جوش و خروش سے منائی جا رہی ہے۔ روزنامہ 92 نیوز کا آغاز 10 اپریل 2017ء کو لاہور سے ہوا۔ ایک ماہ کے وقفے کے بعد کراچی سے اس کا آغاز ہوا بعدازاں اسلام آباد، فیصل آباد، پشاور، سرگودھا، کوئٹہ سے بھی یہ اخبار شائع ہونا شروع ہوا۔ ملتان میں روزنامہ 92 نیوز کی اشاعت 14 مئی 2018ء کو شروع ہوئی۔ ہم جیسے طالبعلموں کیلئے یہ خوشی کا دن تھا کہ صحافتی حوالے سے ملتان کو اہمیت حاصل ہو رہی تھی اور ملتان میڈیا سنٹر بننے جا رہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ آج بھی روزنامہ 92 نیوز وسیب کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے اور وسیب کے مسائل اور ایشوز کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جا رہا ہے۔ بہت تھوڑے عرصہ میں روزنامہ 92 نیوز اور 92 نیوز چینل نے صحافت کی دنیا میں اپنا مقام بنایا ہے۔ اس اخبار کے نام میں بھی برکت ہے کہ 92 کا عدد نبی آخر الزماں حضرت محمد ؐ کے اسمائے گرامی کے حوالے سے ہے۔ صحافت کا لفظ صحیفے سے ماخوز ہے اس لیے اسے شیوہ پیغمبری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ صحافت کے اساتذہ بتاتے ہیں کہ صحافت کے تین اصول ہیں ان میں انفارمیشن، ایجوکیشن اور انٹرٹینمنٹ اس لحاظ سے جب ہم روزنامہ 92 نیوز کو دیکھتے ہیں تو لوگوں کو با خبر رکھنے اور اچھائی کی تعلیم دینے اور مثبت تفریح کے ذریعے لوگوں کو مایوسیوں سے بچانے کیلئے یہ اخبار بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کچھ افراد کے عمل نے صحافت کو گالی بنایا مگر روزنامہ 92 نیوز جیسے اداروں کے باعث آج پاکستان کی صحافت سرخرو ہے اور عالمی سطح پر بھی اسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ بلا شبہ روزنامہ 92 نیوز نے ہمیشہ مثبت صحافتی اقدار کو روشناس کرایا۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی و استحکام کیلئے جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا اور اُن کے نقطہ نظر کو اجاگر کیا ہے۔ اعلیٰ صحافتی روایات کی وجہ سے روزنامہ 92 نیوز کا شمار آج ملک کے مقبول اخبارات میں ہوتا ہے۔ روزنامہ 92 نیوز کا ایک کریڈٹ یہ بھی ہے کہ زرد صحافت سے اجتناب کیا گیا اور اداروں کے استحکام کیلئے روزنامہ 92 نیوز نے بھرپور کردار ادا کرکے اپنے وطن سے محبت کا ثبوت دیا۔ یہ بھی نا قابل فراموش حقیقت ہے کہ 92 نیوز چینل نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ چینل دنیا بھر کے مسلمانوں کی آواز ہے ۔ آج جبکہ چینل یا اخبار جاری کرنا بہت مشکل کام ہے اور یہ اتنا بھاری پتھر ہے کہ بڑے بڑے صاحب حیثیت لوگ اسے چوم کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں ۔ ان حالات میں دنیا کے جدید ترین چینل کا اجراء اور بیک وقت ملک کے 8 بڑے شہروں سے بہت بڑا کام ہے جس کے لئے ادارے کے مالکان مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ گو کہ آج صحافت کو بھی تجارت بنا دیا گیا ہے جب اخبار کا ذکر آئے تو اسے اخباری صنعت کے نام سے پکارا جاتا ہے ، مگر صحافت میں بہت سے ادارے ایسے ہیں جو مشن کے طور پر کام کرتے ہیں ، ان میں ایک 92 بھی ہے ۔ اس ادارے کی طرف سے ہر آئے روز کوارٹر پیج کا کلر اشتہار فرنٹ پر مذہبی حوالے سے شائع ہوتا ہے ، جو کہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کیلئے شائع کیا جاتا ہے ۔ یہ واحد اخبار ہے جو سب سے زیادہ حبیب خداؐ کی محبت میں مذہبی ایڈیشن شائع کرتا ہے۔ اسی طرح 92 نیوز چینل کے دینی و مذہبی پروگرام پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا آج روزنامہ 92 نیوز کی سالگرہ ہے میرے لیے خوشی کا دن ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ اخبار ہمیشہ کیلئے قائم رہے اور اخبارات کی دنیا میں اسے بلند پایہ مقام حاصل رہے اور اخبارات کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو روزنامہ 92 نیوز کا نام سرفہرست آئے ۔ اردو اخبارات کی تاریخ پر ہم نظر ڈالتے ہیں تو برصغیر پاک و ہند کے پہلے مسلم صحافی مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر تھے۔ اُن کے اخبار کا نام اردو اخبار تھا جو 1836ء میں جاری ہوا۔ دوسرا اخبار 1837ء میں سید الاخبار کے نام سے سر سید احمد خان کے بڑے بھائی سید محمد خان نے دلی سے جاری کیا۔ مغل فرماروا بہادر شاہ ظفر نے بھی 1841ء میں ایک نیوز لیٹر جاری کیا ۔ سر سید احمد خان نے انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں تہذیب الخلاق کے نام سے جریدہ جاری کیا۔ مسلم صحافت میں ایک بڑا قدم مولانا ظفر علی خان کا اخبار زمیندار ہے جو کہ مولانا ظفر علی خان کے والد نے اپنے گائوں کرم آباد ضلع گوجرانوالہ سے ہفت روزہ کی شکل میں جاری کیا تھا بعد میں لاہور میں یہ روزنامہ بنا۔ گورنمنٹ کی طرف سے اس اخبار کو بند بھی کیا گیا مگر اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ بنگال سے مسلمان بنگالی زبان میں اخبار نکالتے تھے جو کہ تاریخی حیثیت کے حامل ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم اخبارات کی اہمیت سے واقف تھے اسی بناء پر سیٹھ آدم جی، سیٹھ اصفحانی اور سیٹھ عبداللہ ہارون کی مشاورت سے مسلمانان ہند کی نیوز ایجنسی پرنٹ پریس آف انڈیا کے نام سے قائم کی گئی اور 1942ء میں انگریزی اخبار ڈان شروع ہوا۔ اسی طرح اخبارات کی ایک تاریخ ہے جو کہ صحافت کے طالبعلموں کیلئے کارآمد ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ روزنامہ 92 نیوز بھی تاریخی حیثیت حاصل کرے گا اور اس کا شمار حوالے کے طور پر سامنے آتا رہے گا۔ ادارہ 92 نیوز کا ایک چینل بھی ہے جسے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی پذیرائی اور اعزاز حاصل ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے یہ سب سے ماڈرن چینل ہے۔ اس کا سٹوڈیو دنیا کا بہترین سٹوڈیو ہے ، 360 ڈگری کا ورچوئل سٹوڈیو ایشیاء میں کسی کے پاس نہیں ۔ یہ اس چینل کی بہت بڑی کامیابی ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات جو ہوتی ہے وہ کنٹنٹ ہوتا ہے۔ اگر ہم اس کے پروگرام، خبریں ، رپورٹنگ ، تجزیے دیکھیں تو ہر جگہ ایک انفرادیت نظر آتی ہے۔ اس چینل کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ اس نے پاکستان سے محبت اور عشق رسولؐ کا جذبہ اجاگر کیا۔گروپ ایڈیٹر جناب ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ آزاد اور بیباک ، غیر جانبدرانہ صحافت لیکن پوری ذمہ داری اور اس احساس کیساتھ کی جاتی ہے کہ پورے معاشرے کو ہم نے بنانا ہے، بگاڑنا نہیں ہے۔ ہم نے قوم کی تربیت کرنی ہے ، قوم کا مزاج خراب نہیں کرنا۔ 92 نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی خبر کی سچائی کے بارے میں جاننا ہو تو لوگ 92 نیوز کا رخ کرتے ہیں ۔