آج کل پی ٹی وی پر ڈرامہ غازی ارطغرل دکھایا جا رہا ہے۔ اس کا پہلا سیزن اردو ڈبنگ کے ساتھ ایک انٹرٹینمنٹ چینل سے دکھایا جا چکا ہے، اس ڈبنگ میں نام کو ارتغل کہا گیا تو یہی نام مشہور ہوگیا۔ ترک لب ولہجہ میں البتہ کردار اس نام کو’’ ارطرل‘‘ کہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو اس انداز سے کہ’’ ارطورو‘‘سنائی دیتا ہے، آخر میں ہلکا سا ’’ل‘‘ کا اشارہ ۔پچھلی والی اردوڈبنگ میںکرداروں کے ناموں کو خود ساختہ ایڈیٹنگ کے تحت بدل دیا گیاتھا۔ ارطغرل کو ارتغل، بامسے کو بابر، سیلجان کو شہناز، گوکچے کو روشنی اور سب سے برا یہ کہ ترگت کو نورگل کر دیا گیا تھا۔ یہ تکنیکی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے غلط تھا۔ ترگت ترکی میں مشہور نام ہے، ایک شہر بھی اس مجاہد کے نام پر ہے، اسے نور گل کہنا سراسر زیادتی تھی۔ اسی طرح شہناز ، شاہینہ جیسے مقامی نام کیوں رکھے جائیں؟ پی ٹی وی نے اپنی ڈبنگ میں کم از کم یہ اچھا کام کیا کہ ناموں کو درست کر دیا۔ ارطغرل کے ہمارے جیسے مداحین کے اندازوںکے عین مطابق اس ڈرامے کے پی ٹی وی سے نشر ہونے سے تہلکہ مچ گیا ہے۔اگرچہ اس اردو ڈبنگ میں چند ایک خامیاں ہیں۔ اس کے باوجود ڈرامہ میں اتنا سحر ہے کہ وہ آتے ہی چھا گیا۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ عام آدمی کو بھی پتہ چل گیا کہ اسے یوٹیوب پر کہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ کئی لوگ دھڑلے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگارہے ہیں کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ جو ارطغرل ڈرامہ دیکھ چکے ہیں، دوسرے جنہوں نے نہیں دیکھا۔ ارطغرل کی اس غیرمعمولی مقبولیت بلکہ اسے پاکستانی سماج میں اِن فیشن دیکھ کرہمارے ہاں ایک حلقہ ٹھیک ٹھاک قسم کا مضطرب ہوچکا ہے۔ خاص طور پر جنہیں مذہب اور اہل مذہب سے خاص نوع کی بیزاری ہے یا پھر وہ دل وجاں سے پاکستانی سماج کو سیکولر بنانے کے خواہاں ہیں۔ جب تک ہمارے ڈراموں میں اللہ رسول کا نام نہیں لیا جاتا تھا ، کردار بسم اللہ کہنے کی زحمت نہیں کرتے تھے، بڑوں کا ادب یا کسی بڑے کو دیکھ کرالسلام علیکم کہنے کا کوئی رواج نہیں تھا، تب تک اس حلقے کو ٹی وی ڈرامے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ عشق ممنوع جیسے فضول موضوع پر بنے ترک ڈرامے نے پاکستان میں انٹرٹینمنٹ چینلز کی بلند ترین ریٹنگ حاصل کی، تب یہ معترض نہیں ہوئے۔ بولڈ موضوعات پر مبنی کئی اور ترک ڈرامے پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینلوں پر چلے، بعض آج کل بھی نشر ہو رہے ہیں، اتنے بولڈ کہ انتظامیہ کو بعض مناظر ایڈٹ کرنے پڑ جاتے ہیں، چند ایک کو (بادلِ نخواستہ )دھندلا کرنا پڑتا ہے۔اس کے باوجود ہمارے ان لبرلز، سیکولر کیمپ کے لوگوں کو کبھی کسی ڈرامے پر اعتراض ہوا نہ یہ خیال آیا کہ اس طرح غیر ملکی ڈرامہ پاکستان میں مقبول ہوجائے گا۔ترک فنکار یہاں مقبولیت حاصل کر لیں گے تو مقامی ڈرامہ انڈسٹری کو نقصان ہوگا۔ یہ خیال کبھی کسی کو نہیں آیا۔ ڈرامہ ارطغرل نے چند ہفتوں میں ہی ان حلقوں کو یہ سب باتیں سجھا دی ہیں۔ یہ خیال بھی آگیا ہے کہ اس سے سماج میں شدت پسندی بڑھے گی۔ ایک حلقے نے اسے طنزاً نسیم حجازی کے ناولوں جیسا ایک ڈرامہ قرار دے دیا۔ نسیم حجازی کو ہمارے لبرلز، سیکولرسٹ ہمیشہ طنز اور تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔ شائد اس لئے کہ وہ اپنے ناولوں میں ممتاز مسلم کرداروں کو موضوع بناتے ہیں۔ محمد بن قاسم،یوسف بن تاشفین، طارق بن زیاد، حیدر علی، ٹیپو سلطان وغیرہ۔ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ نسیم حجازی پر شدت پسند فکر فروغ دینے کا الزام کیوں لگایا جاتا ہے۔ میری نسل کے ہر اس لڑکے نے جسے پڑھنے میں دلچسپی تھی، اس نے ایک خاص عمر میں نسیم حجازی کے ناول ضرور پڑھے، بعد میں وہ آگے بڑھ گئے۔ اپنے مزاج، پسند کے مطابق مختلف سمتوں میں چلے گئے۔ نسیم حجازی کی تحریر نے ہمیں کبھی شدت پسندی کی طرف مائل نہیں کیا ۔ میرے دوستوں اور جاننے والوں میں سے کئی ہیں جنہوں نے اپنے مطالعے کے سفر میں نسیم حجازی کو پڑھا، مگر ان میں بالکل ہی شدت نہیںآئی۔ بعض تو بعد میںماڈریٹ لبرل بھی بنے۔ میری دلی خواہش ہے کہ میرے بچے نسیم حجازی کے ناول پڑھیں۔ ایسی خوب صورت رواں نثر، ایسے صاف ستھرے کردار، شائستہ رومانویت اور جرات، عزیمت اور عزم سے بھرپور پاور فل ہیرواور کہاں ملیں گے؟بیٹ مین، سپر مین ، سپائیڈر مین سے بہتر نہیں کہ حقیقی تاریخی فائٹنگ ہیروز سے محبت پیدا ہو۔ ارطغرل کے خلاف پروپیگنڈا صرف اس لئے ہے کہ اسے دیکھنے کے بعد ایک عام مسلمان اپنی جڑوں، اپنی بنیادوں سے خود کو زیادہ قریب محسوس کرتا ہے۔ مسلم کلچر میں جو عام چیزیں ہیں، وہ ارطغرل میںدکھائی گئیں۔ہمارے جیسے گھرانوںمیں جس طرح بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ کھانے سے پہلے بلند آواز میں بسم اللہ پڑھو، ہر بڑے کام سے پہلے دعا مانگو، نماز پڑھو، اللہ پر یقین رکھو، مشکلات سے گھبرائو نہیں بلکہ اپنی پوری کوشش کر کے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو، دوسرے مسلمانوں کا دکھ درد محسوس کرو اور ایثار سے کام لینا سیکھو ، وغیرہ وغیرہ… یہ تمام جھلکیاں ارطغرل ڈرامہ میں نظر آتی ہیں۔ جو دکھایاگیا وہ سب فطری اور منطقی ہے۔ قبائلی رسم ورواج میں مہمان نوازی، شجاعت، فیاضی، سخاوت اور دلیری سے کٹھنانیوں کا مقابلہ کرنا ہی سکھایا جاتا ہے۔ ارطغرل کے زمانے کی تاریخ پڑھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صوفی درویش شہر شہر، گائوں، مختلف قبیلوں میں گھومتے پھرتے رہتے تھے ۔سفر ہی ان کا علم حاصل کرنے،علم بانٹنے کا وسیلہ تھا۔وہ بطور داعی دین کے مثبت پہلوئوں کو پھیلاتے تھے۔ شیخ ابن عربی جیسے بڑے بزرگ کی ارطغرل سے ملاقات کا تو دستاویزی ثبوت تو معلوم نہیں ہے یا نہیں، مگر یہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بھی اسی طرح گھومتے اور مختلف ترک قبائل میں آتے جاتے رہتے ۔شیخ ابن عربی جس نرمی اور شفقت سے سردار زادے ارطغرل کی ہمت بندھاتے، اسے سمجھاتے ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔دل پگھلنے لگتا ہے۔ ارطغرل دیکھنے والا یہ سب باتیں لاشعوری طور پر نوٹ کرتا ہے۔ میراسات سالہ بیٹا عبداللہ ارطغرل دیکھنے کے بعد سے جب بھی اس کے سامنے ہمارے آقا حضور ﷺکا نام آتا ہے تو وہ ہمیشہ اپنا دایاں ہاتھ سینے پر دل کی جگہ رکھ کر احتراماً سر جھکا دیتا ہے۔ ارطغرل کے والد سلیمان شاہ اور پوراترک قبیلہ ایسا ہی کرتا ہے۔ ارطغرل کے خلاف چلنے والی مہم کے پس پردہ یہ فیکٹر ہے کہ کہیں اس ڈرامے کے ذریعے عام آدمی اپنی مذہبی بنیاد وںسے زیادہ قریب نہ ہوجائے،اپنے مسلم کلچر پر نازنہ کرنے لگے۔ اسی مذہب بیزاری کی ایک اور جھلک پچھلے ہفتے راجہ داہر کے حق میں چلنے والا سوشل میڈیا ٹرینڈ ہے۔ ایک منظم پلاننگ کے تحت سندھی قوم پرست حلقے نے’’ راجہ داہر ہماراقومی ہیرو ہے ‘‘کے نام سے ٹرینڈ شروع کیا۔ ابتدا میں تو لوگوں نے اسے مذاق سمجھا، زیادہ اہمیت نہیں دی۔ جب ٹرینڈ بڑھا تب جواب میں محمد بن قاسم کے لئے ٹرینڈ شروع ہوا جو فطری طور پر راجہ داہر کے ٹرینڈ سے بہت آگے بڑھ گیا۔ راجہ داہر جیسا شکست خوردہ نالائق حکمران، جس کی اخلاقی حیثیت سخت متنازع ہے، اس کے قصیدے گانا اور محمد بن قاسم کے خلاف پروپیگنڈہ کرناایجنڈے کا حصہ تھا۔ قائداعظم کا ایک فقرہ مشہور ہے کہ پاکستان اسی دن بن گیا جب محمد بن قاسم سندھ آیا۔ یہی فقرہ وہ خنجر ہے جو آج بھی کچھ لوگوں کے دل میں پیوست ہے۔ مسئلہ محمد بن قاسم نہیں، وہ نوجوان سالار پاور پالیٹیکس کا شکار ہو کر اپنے ہی مسلمان خلفاکے ستم کا نشانہ بن گیا۔ ان سب کا مسئلہ اسلام، نظریہ پاکستان اور مسلم کلچر ہے۔اس کے لئے دانستہ تاریخی مغالطے پیدا کئے جاتے ہیں ۔یہ فسانہ کہ سادات کے کچھ لوگوں کو راجہ داہر نے پناہ دی تھی ، اسی لئے بنوامیہ کے خلفا نے فوج بھیجی۔ یہ بالکل غلط قصہ ہے، اس کے کسی بھی قسم کے تاریخی شواہد موجود نہیں۔جی ایم سید نے اپنی کتاب میں دانستہ یہ غلط واقعہ لکھا کہ ان کی تھیوری کو اس سے سپورٹ ملتی تھی۔ دھرتی واسی ، باہر سے آنے والے حملہ آور کی تکرار بھی غلط اور بے بنیاد ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہاں بیشتر قبائل ، اقوام باہر سے آئیں، فرق صرف وقت کا ہے۔ کوئی دو ہزار سال پہلے آیا، کوئی ہزار سال اور کوئی چار پانچ سو سال پہلے۔ پاکستان بلکہ ہندوستان کی بیشتر اقوام آریا ہونے کی دعوے دار ہیں، آرینز باہر ہی سے آئے تھے۔ مقامی ہندوستانوں کو تو انہوں نے کھدیڑ کر سائوتھ انڈیا میں دھکیل دیا۔ ممکن ہے سندھ کے کولی ، بھیل قبائل مقامی ہوں، مگر ان کی سندھ میں کیا حیثیت ہے؟۔ جب سب ہی باہر سے آئے تو کون دھرتی واسی، کون حملہ آور؟ صاحبو!تاریخ کے سفر میں بہت کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔ ہم آج جس دنیا میں زندہ ہیں، اس کے اپنے مسائل، گمبھیرتا اور چیلنجز ہیں۔ کورونا، پوسٹ کورونا دنیا میں نجانے کون بچتا ہے، کون نہیں؟ آج کے چیلنجز کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے، ہمارا آج ہی آنے والا کل بنے گا۔ ارطغرل جیسے ڈراموں سے سیکھا یہ سبق ہمارے کام آ سکتا ہے کہ مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں ، تب بھی حوصلہ ہارنے کے بجائے لڑا جائے۔ اپنی سی پوری کوشش کے بعد رب تعالیٰ سے مدد مانگی جائے اورنتیجہ اس پر چھوڑ دیا جائے۔ کورونا اور پوسٹ کورونا دنیا کے لئے ہم جیسوں کا یہی وظیفہ ہونا چاہیے۔