تقریباً پینسٹھ سال کے بعد پاکستان اپنی تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر ایک بار پھر آ کھڑا ہوا ہے جہاں ایک عدالتی فیصلہ وقت کا دھارا بدل بھی سکتا ہے اور ایسے فیصلے سے اجتناب ملک کو پرانی پٹڑی پر رواں رکھے گا جس کے آخر میں گہری کھائی ہے۔ اس ملک میں اکتوبر 1958ء کا دوسرا اور تیسرا ہفتہ بھی اسی طرح کی سیاسی اُلجھنوں اور سازشوں سے گھرا ہوا عرصہ تھا۔ ملک میں 7 اکتوبر کو ایک سویلین صدر سکندر مرزانے مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں اور حکومتیں توڑ کر مارشل لاء نافذ کر دیا اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو اس کا منتظم اعلیٰ (Supreme Commander) مقرر کیا تھا۔ اعلان کے آخر میں سکندر مرزا نے کہا’’میں اپنا یہ اعلان ان الفاظ پر ختم کرتا ہوں کہ جہاں تک غدّاروں کا تعلق ہے، میں ان سے یہی کہوں گا کہ اگر ممکن ہو تو ملک چھوڑ کر چلے جائیں کہ یہی ان کے لیے بہتر ہے‘‘۔ سابقہ بیوروکریٹ اور سویلین صدر سکندر مرزا اور فوج کے سربراہ ایوب خان کے مابین یہ رومانس چند دن خوب چلا۔ شروع میں تو فوج ’’منتظم اعلیٰ‘‘ کے ہی عہدے پر راضی ہو گئی۔ مگر دو ہفتوں کے بعد ایوب خان کو احساس ہوا کہ طاقت اور قوت تو ساری فوج کی ہے اور سکندر مرزا صرف ایک اعلان کے بل بوتے پر تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔ ایوب نے مزید اختیارات کا مطالبہ کیا تو سکندر مرزا نے 24 اکتوبر کو اسے ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔ ایوب خان نے اسی دن اپنی کابینہ کا اعلان کیا جس میں تین فوجی، لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان، لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی اور لیفٹیننٹ جنرل کے ایم شیخ شامل تھے جبکہ سویلین وزراء میں منظور قادر، ایف ایم خان، حبیب الرحمن، ابوالقاسم، حفیظ الرحمن، مولوی ابراہیم اور مستقبل کا وزیر اعظم، قائد اعوام، فخرِ ایشیاذوالفقار علی بھٹو سمیت آٹھ افراد نے مارشل لاء کابینہ کا حلف اُٹھایا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جنم دن تھا۔ ایسا سب کچھ بالکل اچانک نہیں ہو گیا تھا، بلکہ اس کے پیچھے خواہشات اور ترغیبات کے علاوہ امریکی آشیرباد کی ایک لمبی کہانی ہے۔ لمبی پلاننگ کے باوجود اس مارشل لاء کا فوری نفاذ ایک اہم سیاسی رہنما اور اس کی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی مقبولیت کے خوف کے نتیجے میں کیا گیا۔ پاکستان میں 1956ء کا آئین نافذ تھا اور اس کے تحت 19 جولائی 1958ء کو یہ اعلان کیا گیا تھا کہ انتخابات فروری 1959ء میں منعقد ہوں گے۔ پاکستان مسلم لیگ کی قیادت اس وقت ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں تھی جو صوبہ سرحد میں اپنی کارکردگی کی وجہ سے انتہائی مقبول ہو چکا تھا۔ خان عبدالقیوم خان، جس کے جلسوں میں عوام کا ہجوم اُمڈتا تھا۔ عبدالقیوم خان نے عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے 7 اکتوبر 1958ء کو ایک ایسا جلوس نکالا جس کی لمبائی جہلم سے گجرات تک 32 میل تھی اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر پُرجوش نعرے لگاتے ہوئے اس کے ہمراہ تھا۔ خان عبدالقیوم خان نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’عوام کے ان جذبات کا احترام کرتے ہوئے فوج اور بیوروکریسی آئندہ آئین اور قانون کے مطابق کام کرے گی‘‘۔ اس عظیم الشان جلوس اور قیوم خان کی تقریر کے صرف چند گھنٹوں کے بعد رات کو ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ اس کے بعد، پاکستان کی سپریم کورٹ میں بھی مارشل لاء کے خلاف اپیل کی صورت ایک منظرنامہ تحریر ہونے لگا۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے متنازعہ چیف جسٹس محمد منیر اس اپیل کو سن رہا تھا۔ وہ اس سے پہلے گورنر جنرل غلام محمد کی اسمبلی توڑنے کے اقدام کو جائز قرار دے چکا تھا۔ انگریز نے اس شخص کو پنجاب کی تقسیم کے وقت ’’بائونڈری کمیشن‘‘ کا رکن بنایا تھا۔ یہ وہی کمیشن ہے جس کی وجہ سے ایک سازش کے تحت پٹھانکوٹ بھارت کو دے دیا گیا تھا تاکہ بھارت اور کشمیر کے درمیان واحد زمینی راستہ بھارت کے پاس چلا جائے۔ سکندر مرزا کے مارشل لاء کے خلاف اپیل تاریخ میں دو سو کیس (Dusso case) نام سے مشہور ہے۔ اس اپیل کی تاریخ بھی بالکل سپریم کورٹ کے موجودہ سو موٹو ریفرنس سے ملتی جلتی ہے، جس میں سپریم کورٹ کے دو ججوں نے غلام محمد ڈوگر سی سی پی او لاہور کی تعیناتی والے مقدمے میں آبزرویشن دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو یہ درخواست کی کہ ملک میں دو اسمبلیوں کے انتخابات آئین کے مطابق نہیں ہو پا رہے، اس لیے سوموٹو ریفرنس کے تحت فیصلہ صادر کیا جائے۔ ’’دو سو‘‘ کیس کا آغاز بھی کچھ اسی طرح ہوا۔ بلوچستان کے شہر لورا لائی کے ایک شہری ’’دوسو‘‘ کو قتل کے مقدمے میں جرگہ نے جرگہ قانون (فرنیئر ریگولیشن) کے مطابق سزا سنائی تو اس کے رشتے داروں نے سزا کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ’’ملک میں اب ایک آئین نافذ ہو چکا ہے اس لیے اس کے آرٹیکل 7 کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اس لیے جرگہ کا قانون غلط ہے‘‘۔ اس فیصلے کے بعد جیسے ہی ملک میں مارشل لاء لگا تو ساتھ ہی آئین بھی ختم کر دیا گیا۔ ’’دو سو‘‘ کا مقدمہ سپریم کورٹ کے پاس تھا سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا اب جرگہ قانون نافذالعمل ہے یا نہیں۔ مگر عدالت نے اس چھوٹے سے کیس کے دائرۂ کار کو وسیع کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں سکندر مرزا کے مارشل لاء کو بھی جائز قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ انتہائی فلسفیانہ اور تاریخی حوالوں کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ اس عبارت کو بھی غور سے پڑھیں، ’’اگر تبدیلی کے تحت برسراقتدار آنے والے اشخاص آبادی کو نئی حکومت کے مطابق چلنے پر آمادہ کر لیتے ہیں تو انقلاب بوجہ خود قانون بنانے والی حقیقت بن جاتا ہے۔ اس کا قانونی اختیار منسوخ کردہ آئین کے ریفرنس سے نہیں بلکہ خود اپنی کامیابی کے ریفرنس سے پہچانا جاتا ہے۔ اس اُصول کے تحت پرانے نظام کے تمام ضابطے اپنی قانونی حیثیت کھو دیتے ہیں‘‘۔ اکتوبر کی ستائیس تاریخ کو صبح جسٹس منیر، جسٹس شہاب الدین، جسٹس امیر الدین کے ساتھ ساتھ جسٹس اے آر کارنیلس نے متفقہ فیصلہ سنایا۔ جس کے نتیجے میں طاقت کے اصل سرچشمہ یعنی فوج کے سربراہ ایوب خان نے اسی رات سکندر مرزاکو ایوانِ صدارت سے نکال کر جلاوطن کر دیا۔ یوں سکندر مرزا اپنے ہی اعلان کے عین مطابق وہ پہلے غدّار تھے جو جلاوطن کئے گئے۔ پاکستان کی بیوروکریسی، فوج، لاتعداد سیاست دان یہاں تک کہ بڑے بڑے دانشور بھی ایوب خان کو مسیحا پکارنے لگے۔ جون ایلیا کے بڑے بھائی اور مشہور شاعر رئیس امرہوی نے سالِ تاریخ نکالا اور کہا: دیارِ پاک میں ہے کارفرما/بحمداللہ پاکستان کی فوج/نظر آتا ہے ملت کا ستارہ/بلاخر مائل صد عظمت و اوج /وہاں ہیں امنِ ساحل کے نظارے/جہاں سیل بلا ہے موج در موج/گرفتِ پنجۂ افواج کا سال/نہیں جز پنجۂ فوجِ ظفر موج (۱۳۷۸ھ) ایسے میں سول سروس سے عدلیہ کے جج بننے والے عظیم جج، جسٹس ایم آر کیانی نے 11 دسمبر 1958ء کو کراچی بار میں تقریر کرتے ہوئے کہا، ’’مارشل لاء کا نفاذ سب سے بڑی آفت ہے جو قوم پر نازل ہوئی ہے۔ بدنصیبی تنہا نہیں آتی اس کے ساتھ فوجی دستے بھی ہوتے ہیں، لیکن اس بار تو پوری فوج اس کے ساتھ ہے‘‘۔ (جاری ہے)