معزز قارئین!۔ جب بھی مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند کشمیریوں پر بھارت کی مسلح افواج کے ظلم و ستم کی داستان دہرائی جاتی ہے تو پاکستان کے حکمرانوں ، سیاستدانوں خاص طور پر تحریک پاکستان کے کارکنوں کی طرف سے اہل پاکستان کو علاّمہ اقبالؒ، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم ’’ قائد ملّت ‘‘ خان لیاقت علی خانؒ ، کے افکار و نظریات سے آگاہ کرنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے ۔ اِس بار بھی مودی حکومت کی طرف سے صدارتی فرمان کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور A35 ختم کرنے پر ، مقبوضہ کشمیر میں حُریت پسند جماعتوں، آزاد کشمیر اور پاکستان میں جو ردّ ِ عمل ہُوا، اُس میں حسبِ روایت ایسا ہی ہُوا۔ وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی صاحب نے بھارت کو ’’ قائدِ ملّت‘‘ کا ’’ مُکّا ‘‘ یاد دِلایا۔ 6 اگست کو جوہر ٹائون لاہور میں ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب مجید نظامی کے بسائے ہُوئے وسیع و عریض ’’ ایوانِ قائداعظمؒ ‘‘ میں ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے زیر اہتمام وائس چیئرمین ’’ نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد، کی صدارت میں منعقدہ تقریب میں (خاص مہمان ) گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور دوسرے اکابرین ، تحریک پاکستان کے نامور راہنما اور ’’ قائد ِ ملّت شہیدؒ ‘‘ کے ’’ پولیٹکل سیکرٹری ‘‘ نواب صدیق علی خان مرحوم کی سوانح عمری ’’ بے تیغ سپاہی‘‘ کی تقریب رونمائی میں اکٹھے ہُوئے تھے ۔ معزز قارئین!۔ قائداعظمؒ پر قاتلانہ حملے کے بعد ’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کی ہائی کمان کی حفاظت کے لئے ، ’’مسلم لیگ نیشنل گارڈز ‘‘ کے نام سے جو، تنظیم بنائی گئی تھی ، نواب صدیق علی خان اُس کے سربراہ بھی تھے ۔ نواب صدیق علی خان کا تعلق ناگ پور سے تھا۔ تحریک پاکستان میں اُنہوں نے متعصب ہندوئوں کی تحریک ’’شدھی‘‘ اور ’’ سنگٹھن‘‘ کے اثرات سے مسلمانوں کو محفوظ کرنے کے لئے تبلیغی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لِیا تھا ۔ نواب صاحب بہت جلد قائداعظمؒ اور خان لیاقت علی خان ؒکے قریبی ساتھیوں میں شمار ہونے لگے اور قیام پاکستان کے بعد وہ، پاکستان آگئے۔ قائد ِ ملّت کا مُکاّ! قائدِ ملّت وزیراعظم پاکستان تھے کہ ، جب جولائی 1951ء میں بھارت نے سرحدوں پر اپنی فوجیں جمع کردیںتو، پاکستانی عوام کا "Morale" بلند کرنے کے لئے قائدِ ملّت نے 27 جولائی 1951ء کو خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’ برادرانِ ملّت !۔ یہ پانچ انگلیاں جب تک علیحدہ ہوں اُس کی قوت کم ہوتی ہے لیکن ، جب یہ مل کر مُکاّ بن جائیں تو مکاّر دشمنوں کا مُنہ توڑ سکتا ہے! ‘‘۔ معزز قارئین!۔ قائد ملّتؒ نے مسلسل تین منٹ تک اپنا تاریخی مُکاّ تان کر رکھا جو، بہادری کے پیکر کی حیثیت سے ایک علامت بن گیا لیکن، صدرِ پاکستان اور وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے ، آصف زرداری اور نواز شریف نے کبھی بھارت کی طرف مُنہ کر کے اُسے مُکّا نہیں دِکھایا اور نہ فضا میں لہرا کر اُنہیں مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کِیا۔ قائدِ ملّت کی شہادت ! قائدِ ملّت ؒ 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی کے کمپنی باغ ( اب لیاقت باغ) میں مسلم لیگ کے جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے کہ ، جب ڈیوٹی پر موجود سب انسپکٹر پولیس صیدؔا کبر نے دو گولیاں چلا کر اُنہیں شہید کردِیا تھا۔ نزع کے وقت قائدِ ملت‘ؒنے دو مرتبہ کلمہ طیبّہ کا ورد کِیا اور پھر ڈُوبتی ہُوئی آواز میں کہا کہ ’’ خُدا پاکستان کی حفاظت کرے!‘‘ جلسہ گاہ میں موجود 15 ہزار سے زیادہ حاضرین نے وہ منظر دیکھا۔ جلسہ گاہ میں موجود راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نجف ؔخان نے پولیس اہلکاروں کو حکم دِیا کہ ’’گولی چلانے والے ( قاتل) کو فوراً مار ڈالو!‘‘ ۔ پھر سید اکبر، پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بن کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اگر قاتل سیداکبر کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے بجائے ، اُسے زندہ گرفتار کرلِیا جاتا تو ، قائدِ ملتؒ کے قتل کی سازش کرنے والے وطن دشمن لوگوں کو ضرور گرفتار کِیا جاسکتا تھا؟۔ عجیب بات ہے کہ بعد ازاں ’’ ایس ۔ پی‘‘ نجف خان کو ترقی دے کر ڈی۔ آئی ۔ جی پولیس بنا دِیا گیا تھا ۔ قائدِ ملّتؔ ؒ کی شہادت کے اگلے روز17 اکتوبر 1951ء کو وزارتِ خارجہ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’ سیداکبر ، افغانستان کا باشندہ ہے اور کچھ مدت سے ایبٹ آباد میں مقیم تھا۔ تلاشی کے بعد اُس کی جیب سے دو ہزار چالیس روپے برآمد ہُوئے ہیں اور ایبٹ آباد میں اُس کے گھر کی تلاشی پر ، دس ہزار روپے برآمد ہونے پر یقین کِیا جاتا ہے کہ ، قائدِ ملّتؔ ؒ کے قتل کے لئے سید اکبر کو خریدا گیا تھا‘‘۔ قائد ملّت ؒ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے قتل کی سازش کرنے پر، بعض مسلم لیگی لیڈروں نے (اْس وقت کے ) وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ پر (جلسوں اور اخباری بیانات میں) الزام لگایا تھا، لیکن اْن لیڈروں میں سے، کسی نے بھی تھانے میں جا کر، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ صاحب کے خلاف ایف۔ آئی۔ آر۔ درج نہیں کرائی لیکن، جب بھی کسی تقریب میں قائدِ ملّت خان لیاقت علی خانؒ کا تذکرہ ہوتا ہے تو، اُن کی شہادت کی سازش میں شریک ملزموں کو یاد ضرور کِیا جاتا ہے ۔ معزز قارئین!۔ نواب صدیق علی خان کی کتاب کا انتساب یوں تھا کہ ’’ قائداعظمؒ کے اُن دس کروڑ بے تیغ سپاہیوں کے نام ، جنہوں نے تن من دھن کی بازی لگا کر پاکستان حاصل کِیا ‘‘۔ 6 اگست کو ’’ ایوانِ قائداعظمؒ ‘‘ میں گورنر چودھری محمد سرور ، پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد ، معروف صحافی میاں مجیب اُلرحمن شامی ، میاں فاروق الطاف ، پیر سیّد حبیب اللہ عرفانی، مسعود احمد پوری، مولانا محمد شفیع جوش، بیگم مہناز رفیع، جناب قیوم نظامی اور سیّد شاہد رشید نے اپنے اپنے انداز میں، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے علاّمہ اقبالؒ ، قائداعظمؒ اور قائدِ ملّتؒ کی قومی خدمات پر اُنہیں خراج عقیدت پیش کِیااور اِس کے علاوہ مظلوم کشمیریوں کے خلاف بھارت کے ظلم و ستم پر اُس کی مذمت بھی خوب کی۔ "Muslim Holocaust of 1947" معزز قارئین!۔ نواب صدیق علی خان صاحب نے اپنی کتاب میں متحدہ ہندوستان کے اُن ’’دس کروڑ بے تیغ سپاہیوں‘‘ کو خراجِ عقیدت پیش کِیا ہے جنہوں نے تن من دھن کی بازی لگا کر پاکستان حاصل کِیا تھا لیکن، اِس وقت تو، پاکستان کے ’’22 کروڑ بے تیغ سپاہی‘‘ ( عوام) اللہ اور اُس کے رسولؐ کے بعد پاک فوج پر اعتماد کر کے اپنی اپنی زندگی جی رہے ہیں ۔ جب بھی بھارتی جارحانہ کارروائیوں سے ، ہندوستانی اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بعد اہلِ پاکستان کی تکلیفوں اور دُکھوں میں اضافہ ہو جاتا ہے تو، مجھے تحریکِ پاکستان کے دَوران( 1947ء میں) متعصب ہندوئوں اور سِکھوں کے ہاتھوں 18 لاکھ سے زیادہ شہید ہونے والے مسلمان یاد آ جاتے ہیں ۔ خاص طور پر مشرقی ( اب بھارتی ) پنجاب میں سِکھوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے 10 لاکھ مسلمان اور وہ 55 ہزار مسلمان عورتیں یاد آ جاتی ہیں ، جنہیں اغوا کر کے سکھوں نے اُن کی آبر ریزی کی تھی۔ 7 دسمبر 2016ء کو ’’ ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں ۔ کئی سال سے لندن میں مقیم ، تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹر سعید احمد کی کتاب ’’"Muslim Holocaust" کی تقریب رونمائی ہُوئی تھی، جس میں مصنف نے گلہ کِیا تھا کہ ’’جرمنی کے "Adolf Hitler" اور اُس کی فوج کے ہاتھوں (1945-1939ئ) میں 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام کو "The Holocaust" ( مرگِ انبوہ / آگ یا ایٹم بم سے مکمل تباہی ) کو تو، اسرائیل اور دُنیا کے مختلف ملکوں میں آباد یہودی قوم اُس ’’قتلِ عام ‘‘ کو نہیں بھولی اور وہ ہٹلر اور نازی جرمنی ( بلکہ پوری جرمن قوم ) کی مذمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی لیکن، 1947ء کے "Muslim Holocaust" پر پاکستان کی کسی بھی حکومت نے مسلمان دشمن ہندوئوں اور سِکھوں کی غیر انسانی حرکا ت پر کسی بھی بین اُلاقوامی "Forum" پر تشہیر کبھی نہیں کی‘‘۔ معزز قارئین!۔ شایدبین الاقوامی سطح پر "Muslim Holocaust of 1947" کی تشہیر کا وقت شاید اب آگیا ہے۔