آج19، ذوالحجہ1441ھ ہے ،آج سے چودہ سو، چھ سال قبل،18 ذوالحجہ35ھ کو ، مدینتُہ الرسول میں، آپ ﷺ کے پیارے صحابیؓ، اور داماد جن کے عقد میں آپ ﷺ کی دو صاحبزادیاں ، حضرت ِ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرتِ اُمِّ کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا،یکے بعد دیگرے آئیںاور آپ ﷺ نے فرمایا’’ اگرمیری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں، تو میں ایک کے فوت ہوجانے کے بعد دوسری کی شادی عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہُ سے کردیتا ۔۔۔‘‘ نہایت مظلومیت کے ساتھ مدینہ منورہ میں شہید ہوئے۔ امیر المومنین، خلیفہ سوم،ذوالنورین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے ملتِ اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ کے لیے اپنی جان قربان کردی، لیکن حق پر ہونے کے باوجود ، اپنی حکومت اور اقتدار کو بچانے کے لیے ، شہرِ رسول ﷺ میں خونریزی نہ ہونے دی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے خون سے وہ قرآن ِ حکیم رنگین ہوگیا، جس کی تدوین و ترویج کے لیے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے اپنی بہترین صلاحیتیں وقف اور صَرف فرمائیں۔قرآن پاک کے اوّلین مخاطب اہل عرب تھے ، جن کی مادری زبان عربی تھی ، اگرچہ سب قبائل کی مشترک زبان عربی ہی تھی ، لیکن ان کے لہجوں میں الفاظ کے تلفظ اور بعض اِعراب میں واضح تفاوت تھا ۔یہ صورتحال دنیا کی ہر زبان میں کسی نہ کسی طور پر موجودہ ہوتی ہے ۔ یہی حال ہماری قومی زبان اردو ، مقامی اور مادری زبان پنجابی کے ساتھ بھی ہے ۔ ہر زبان تقریباً سو کلو میٹر کے فاصلے کے بعد ، اپنا رنگ اور لہجہ بدل لیتی ہے، یوں تقریباً ہر ڈویژن، خطے یا علاقہ کا لہجہ ’’Accent‘‘ مختلف ہوجاتا ہے۔ ابتدأ اسلام میں مختلف قبائل کی سہولت کے پیش نظر ، انہیں ، ان کے مخصوص اندازا ور لب و لہجے کے مطابق ’’قرأتِ قرآن‘‘ کی اجازت تھی ،عرب چونکہ اپنی زبان دانی اور فصاحت و بلاغت کے سبب معروف اور معتبر تھے ، اس لیے ان کے لب ولہجہ کے تفاوت سے قرآن کے کسی معنی یا مفہوم میں کسی غلط فہمی کا امکان نہ تھا ، لیکن جب اسلامی فتوحات کا سلسلہ و سیع ہوا، اور اسلام کی آفاقی اور الہامی تعلیمات جزیرہ عرب کی سر حدیں عبور کر گئی ، دوسرے ملک اور خطے اسلامی قلمروکا حصہ بنے ،وہاں کے مقامی باشندے اسلام کے دامنِ کرم سے وابستہ ہو گئے، تولا محالہ ، انہوں نے قرآنِ پاک پڑھنا شروع کیا ،ہر ایک نے فقط اسی لہجہ اور تلفظ کو صحیح سمجھا، جو اس نے اپنے استاد سے پڑھا اور سیکھا۔ اس طرح مختلف علاقوں میں ، مختلف اساتذ ہ سے قرآن پڑھنے والے ’’قرأتِ قرآن‘‘ میں ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے ، یوں فتنہ کی آگ آہستہ آہستہ سلگنے لگی۔اسی نوعیت کا ایک واقعہ حضر ت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے عہد خلافت میں، حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سا منے پیش آیا ، جس سے سب ہی متنبہ(Warned) ہوگئے، حضرت حذیفہؓ کو ’’ راز دارِ نبوت‘‘ بھی کہا جاتا ہے، نبی اکرمﷺ اپنے اصحاب کی خداداد صلاحیت کے مطابق، ان کو ذمہ داریاں تفویض فرماتے اور یوں’’صحیح آدمی سے صحیح کام‘‘ کا اہتمام ہوتا، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بھی نبی اکرمﷺ نے ایسا ہی فرما یا ، جس کے سبب حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت بلند مقام حاصل تھا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آرمینیا کے ایک فوجی معرکے میں شریک تھے ، جو کہ موجودہ آذربائیجان کے قریب ہے۔عراق اور شام کے نو مسلم حضرات بھی اس جنگ میں شریک تھے ، ہر ایک اپنے معلم کی سکھائی ہوئی قرأت کے مطابق قرآن پڑھتا، اس کا ’’ کلا ئمیکس‘‘ یوں ہوا، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو مختلف اوقات، مختلف فوجی کیمپوں اور دستوں کے درمیان سے گزرتے ، ایک روز مغرب یا عِشأ کی نماز میں ، ایک دستے کے ساتھ شامل تھے ، نماز میں، امام نے ایک خاص لہجے میں قرآن پاک کی تلاوت کی ، نماز کے بعد کچھ لوگوں نے امام صاحب کی قرأت اور لہجہ پر اعتراض کیا۔ انہوں نے جواب دیا میں نے بالکل صحیح پڑھا ہے اور میں نے فلاں صحابیؓ سے ایسے ہی سیکھا ہے۔ معترض نے بھی دلیل کے طور پر کسی صحابیؓ ہی کا نام پیش کیا۔ بحث میں شدّت آگئی ، جو کہ نزاع کی شکل اختیار کرگئی ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر سخت فکر مند ہوئے اور فوراً مدینہ منورہ کا قصد کیا ، طویل مسافت طے کرکے، شدّت کی گرمی میں، دوپہر کے وقت مدینہ منورہ پہنچے، لوگ شوقِ دیدار میں آگے بڑھے ، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے فرمایا میں بلا تاخیر امیر المومنین سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے خلیفۃُالمسلمین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا اور فرمایا ’’اَدْرِکْ ھٰذِہِ اْلاُ مَّۃَ قَبْلَ اَنْ تَھْلِکَ‘‘ یعنی :اس اُمت کی چارہ سازی کیجئے، قبل اس سے کہ یہ ہلاک ہوجائے اور پھر سارا ماجرا بیان کیا ، اور نہایت فکر مندی اور دلسوزی سے کہا کہ مجھے اس بارے میں سخت اندیشہ ہے کہ کہیں یہودو نصاریٰ کی طرح، مسلمان بھی اپنی کتاب میں اختلاف نہ کرنے لگ جائیں۔ قرآن پاک کا نزول’’ لغتِ قریش ‘‘کے مطابق ہوا، محض آسانی اور سہولت کے پیش ِ نظر ، دوسرے قبائل کو اپنے اپنے لب و لہجہ میں اس کی تلاوت کی اجازت تھی ، یہ رخصت ، اب ایک فتنہ کا باعث ہوسکتی تھی، چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے اس پر شوریٰ کے مشورہ سے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کو یہ ذمّہ داری تفویض کی کہ وہ لغتِ قریش کے مطابق قرآن پاک کی ایک کاپی تیار کریں۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے ’’ المصحف الا مام‘‘ کا تصور پیش کیا ، جس کا مطلب ہے کہ ’’لغت قریش‘‘ کے مطابق قرآن ِ حکیم کا ایک ایسا نسخہ تیار ہو ، پوری امت مسلمہ جس کی تلاوت ، کتابت طباعت اور اشاعت میں تعمیل اور تقلید کرے ۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہُ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سعید بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہُ اور حضرت عبد الرحمن بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہُ پر مشتمل کمیٹی تشکیل پائی ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہُ کے عہدِ خلافت میں تیار کردہ مصحف قرآن، جو اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس محفوظ تھا ، منگوایا گیا اور اس کی مدد سے ایک ایسا مصحف تیار کرنے کا ٹاسک اس کمیٹی کو سونپا، جو ’’لغت قریش‘‘ کے مطابق ہو ۔ اس کمیٹی میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ُ اورحضرت ابی بن کعبؓ کے علاوہ باقی تینو ں اصحاب کا تعلق قریش سے تھا ، اور انہیں کی رائے کو ترجیح دینے کی ہدایت جاری ہوئی ۔ اس کمیٹی نے بڑی احتیاط سے جو نسخہ تیار کیا، اسے’’ المصحف الامام‘‘ کا نام دیا گیا ، پھر اس کی متعدد نقلیں تیار ہوئیں اور بلادِ اسلامیہ کے مختلف مراکز بالخصوص کوفہ، بصرہ ، مصر، شام وغیرہ روانہ کی گئیں، مزید یہ کہ ان صحیفوں کے ساتھ، ماہر قرأ بھی بھجوائے گئے، جو صحیح قرأت سے لوگوں کو آگا ہ کرتے۔اس موقعہ پر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہُ نے یہ حکم نامہ بھی جاری فرمایا کہ:’’میں نے اُمتِ مسلمہ کو ایک مصحف پر جمع کرنے کے لیے ’’ لغت قریش‘‘ کے مطابق ایک نسخہ تیار کروادیا ہے ، اس کے علاوہ میرے پاس جو کچھ تھا اسے میں نے تلف کردیا ہے ، لہٰذا اس کے سوا، جو کچھ تمہارے پاس ہو ، تم بھی اس کو تلف کردو‘‘۔ چنانچہ ساری اُمت نے امیر المومنینؓ کے اس حکم کے سامنے سرِ تسلیم خَم کردیا اور پوری مِلت اسلامیہ میں آج تک آپ کا تیار کردہ مصحف اور اسکا رسم الحظ ہی رائج ہے۔