نواز شریف جا رہے ہیں اورپتہ نہیں مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی اسی ہفتے چلے جائیں گے اور شاید دسمبر تک آصف زرداری بھی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لیں۔ کیا مولانا فضل الرحمٰن کا اس ساری سیاسی ہجرت کے اہتمام سے کوئی تعلق ہے، شاید ابھی یہ ثابت کرنا مشکل ہو لیکن مولانا فضل الرحمٰن جس شدّ و مد سے نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن مقدمات میں گرفتاری اور سزا کے حوالے سے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بات کرتے ہیں اس سے انکا اپنے ان دو پرانے حکومتی حلیفوں کے لئے درد صاف جھلک رہا ہوتا ہے۔ اقتدار میں حلیف تو جنرل پرویز مشرف کے بھی رہے لیکن انکے خلاف مقدمات پر وہ کبھی دکھی نہیںہوئے ۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے انہوں نے پاکستان کی تاریخ کی وفادار ترین اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ بھلے جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدام کو آئینی تحفظ دینا ہو یا پھر جنرل مشرف کو وردی میں صدر منتخب کرانا ہو۔ایسے لچکدار سیاسی لیڈر کی اقتدار میں موجود اصحاب اور قوتوں کو ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن اس دھرنے کے اغراض و مقاصد میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن انہوں نے ایک بار پھر اپنا سیاسی وزن بڑھا لیا ہے، اسکا فائدہ انہیں کب ہو گا یہ آنے والا وقت بتائے گا اور بہت جلد بتائے گا۔ نواز شریف جا رہے ہیں اور مریم صفدر بھی انکے ہمراہ ہونگی۔ اب تک تو یہی آثار ہیں۔ ممکن ہے جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں دونوں باپ بیٹی عازم لندن ہو چکے ہوں۔میاںنواز شریف کی بیماری کے حوالے سے کسی بھی شک کا اظہار کئے بغیر اب یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ڈیل کے نتیجے میں باہر جا رہے ہیں اسکی تفصیلات بہت عرصے سے مختلف با خبر صحافی، تجزیہ نگار اور کچھ کم با خبر سیاستدان بیان کر رہے تھے۔ کسی کا خیال تھا کہ وہ کسی دوست ملک کے صدر کی سفارش پر چلے جائیں گے اور انکی طرف سے ریکوری بھی انہی صدر کے ذمے ہو گی۔ابھی کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ مولانا کے دھرنے نے اس ڈیل کو مفت کرا دیا ہے اور اب شریف خاندان کو کوئی ادائیگی نہیں کرنی ہو گی۔ شہباز شریف کے بارے میں کہا گیا کہ وہ میاں نواز شریف کو اس ڈیل پر راضی کرنے میں پیش پیش رہے اور بالآخر اس میں سرخرو ہوئے، کس کی نظر میں ہوئے، یہ انکی مستقبل کی سیاسیplacement سے پتہ چلے گا۔ سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہے لیکن آپ دیکھیں گے کہ مسلم لیگ(ن) کی طرف ایک بھرپور قسم کی مہم شروع کی جائے گی جس میں میاں صاحب کی صحت کو لیکر ایسا بیانیہ بنایا جائے گا کہ گویا اسکے علاوہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ بیرون ملک جاتے اور کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ ہمارا لیڈر جان دے سکتا ہے لیکن ڈیل نہیں کر سکتا وغیرہ وغیرہ۔سب کچھ آپ کے سامنے ایسے واضح انداز میں ہو رہاہے کہ ڈیل کے حوالے سے کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر کچھ کنفیوژن ہے تو یہ کہ ڈیل ہوئی کیا ہے۔ نواز شریف اور مریم کتنا عرصہ ملک سے باہر رہیں گے ، کیا وہ کوئی سیاسی بیان بازی کرینگے، کوئی پیسے بھی ادا کئے گئے ہیں کہ نہیں۔مریم صفدر کہہ رہی ہیں کہ ڈیل کی باتیں کرنے والوں کو شرم آنی چاہئے، والد کی صحت پہلے سیاست بعد میں۔ لیکن کسی کو اس وقت شرم کیوں نہیں آئی جب سیاست پہلے تھی اور والدہ کو لندن میں بستر مرگ پر چھوڑ کر پاکستان آکر انتخابات سے پہلے اپنے اس جرات مندانہ اقدام کو کیش کرانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔لیکن یہ ڈیل کو کبھی نہیں مانیں گے۔ شریف خاندان نے2000 ء میں جنرل مشرف سے تحریری ڈیل کی جس پر میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے دستخط موجود ہیں، ساری دنیا کے پاس اسکی کاپیاں موجود ہیں۔ اس ڈیل پر سات سال شریف خاندان عمل پیرا رہا۔ اس ڈیل کے ضمانتی سعودی عرب اور لبنان کے حکام پاکستان آکر 2007 ء میں پریس کانفرنس کر کے اسکی تصدیق کر چکے ہیں، لیکن آج تک شریف خاندان اور اسکے حواری اسکو ماننے کو تیار نہیں۔ جمعہ کے روز پارلیمنٹ میں خواجہ آصف نے تقریر کرتے ہوئے جوش خطابت میں کہا کہ جلد انتخابات ہونگے اور ہمارے مطالبے پر ہونگے۔ انہوں نے حکومتی ارکان کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ جو ہمیں پتہ ہے وہ آپکو پتہ نہیں ہے۔ بہت بھولے ہیں خواجہ آصف، خود ہی ڈیل کا اشارہ دیدیا۔ انکی پیش گوئی اگلے سال کے بجٹ کے بعد شاید درست ثابت ہو جائے لیکن اس میں پی ٹی آئی اور انکے اتحادیوں کے لئے ہی بہتری ہوگی، خواجہ آصف کی جماعت کو کچھ نہیں ملنے والا۔ پہلے عرض کیا ہے کہ شہباز شریف کی placement سے پتہ چلے گا کہ اس ڈیل میں انکے لئے کیا طے پایا ہے۔ میری اطلاع ہے کہ فی الحال تو انکے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں ہے ۔انکو مسلم لیگ(ن) کو بچانے کی کوششیں تیز تر کرنے کی ضرورت ہے کہ میاںنواز شریف اور مریم صفدر کے باہر جاتے ہی انکے بہت سے وفادار رسیّ تڑوا کر بھاگیں گے۔آپ لاکھ انکو قائل کریں کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی وہ نہ مانیں گے۔ اس ڈیل کے مکمل ہوتے ہی آصف زرداری کی قسمت جاگنے کے امکانات پائے جاتے ہیںاور شاید دسمبر تک جب سردیاں عروج پر ہونگی وہ بھی علاج کے لئے بیرون ملک سدھار جائیں۔اسکے بعد بلاول بھٹو کے لئے امتحان ہوگا کہ وہ پیپلز پارٹی کو کیسے سنبھالتے ہیں۔ کیا وہ سندھ میں اپنی حکومت کو بچا پائیں گے اور قومی سیاست میں کوئی اہم پوزیشن بنا پائیں گے۔ پیپلز پارٹی میں اگرچہ مسلم لیگ(ن) جیسی اتھل پتھل کا کوئی خطرہ نہیں لیکن پنجاب میں جس طرح اسکا صفایا ہو چکا ہے اس میں بھی بہتری کے کوئی امکانات نہیں پائے جاتے۔ ملک میں اگلے ایک دو ماہ میں سیاسی افراتفری ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور اگر جون 2020 ء تک ملکی معاشی لحاظ سے اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا اور کاروبار و صنعت کے معاملات جیسے بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں تو پھر عمران خان کی حکومت ایک ایسا بجٹ بھی لا سکتی ہے جسکے بعد وہ نئے عوامی مینڈیٹ کے لئے انتخابات کا اعلان کر دے۔