علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی  

 

 حضور نبی اکرم افتخار آدم وبنی آدم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مقدسہ کا ذکر چھڑ تا ہے تو ہر صاحب ایمان کا سر اللہ کے حضور فرط تشکر سے خم ہو جاتا ہے اور جبین ہستی سجدہ ہائے شکر ادا کرتے نہیں تھکتی

 

قرآن مجید کے پڑھنے سے جو ایمان افروز موضوعات ایک قاری کے قلب و جان کو جگمگاتے ہیں ان میں سے ایک موضوع میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔جب حضور نبی اکرم افتخار آدم وبنی آدم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مقدسہ کا ذکر چھڑ تا ہے تو ہر صاحب ایمان کا سر اللہ کے حضور فرط تشکر سے خم ہو جاتا ہے اور جبین ہستی سجدہ ہائے شکر ادا کرتے نہیں تھکتی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کائنات میں مبعوث فرما کر دکھی انسانیت کے غم و آلام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مداوا کر دیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ِ با سعادت کی صبح سعادت آفریں پر ابد تک کی صبحیں نثار کہ اسی صبح سعادت نے بے کسوں ،مجبوروں اور بے بسوں کی پریشان حالی کو دور کرنے کی خاطر اپنے دامن سے امید ورجا کا وہ مہرِ جہاں افروز طلوع کیا جس نے خاک نشینوں کو آداب شہنشاہی کا سلیقہ عطا کر دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد مقدس قرآن کے دلآویزمتن کی زینت بنا ہوا ہے ۔قرآن مجید میں شانِ میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اولین اظہار یوں ہوتا ہے ۔’’اور جب اللہ نے نبیوں سے عہد و میثاق لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت سے سرفراز فرمائوں اور پھر تمہارے پاس میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری تصدیق فرماتے تشریف لائیں تو تم ضرور ان پر ایمان لائو گے اور اُن کی مدد کرو گے ۔فرمایا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس پر پکے ہو گئے ۔سب نبیوں نے کہا ہم نے اقرارکیا تو فرمایاگواہ ہو جائو ایک دوسرے کے اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں جو کوئی اس کے بعد اپنے عہد سے پھریں گے تو وہ فاسقوں میں سے ہوں گے۔‘‘(پارہ 3آیت82-81)

ازل کی حسین اور لازوال ساعتوں میں یہ وہ عہد تھا جس سے رب کریم نے باری باری کائنات میں تشریف لانے والے انبیاء و رُسُل کو اس حقیقت کا پابند کر دیا تھا کہ اگر اُن کی زندگیوں میں مطلوب دو عالم حضرت محمد مصطفیٰصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تو پھر انہیں اپنی نبوت و رسالت سے دستبردار ہو کر نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکو اپنا نا ہو گا اور انہی کی شریعت کی پیروی کرنا ہوگی ۔ میثاق انبیاء کی یہ محفل اس قدر پاکیزہ ٔ دلآویز اور ایمان آفریں تھی کہ امیر خسرو بے اختیار پکاراُٹھے۔

نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ من بودم بہرسو رقص بسمل بود شب جائیکہ من بودم

خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسرو ؔ محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شمع محفل بود شب جائیکہ من بودم

یہ ہستی جس کی نبوت کو عالمگیر اور جس کے پیغام کو ہمہ گیر بنانے کے لئے میثاق انبیاء کا اہتمام کیا گیا تھا وہی ذات والا صفات ہے کہ جس کے نور کے ظہور کی خاطر بزم دو عالم سجائی گئی ۔اگر نور مصطفوٰی کا ظہور نہ ہونا ہوتا تو نہ زمین کا فرش بچھایا جاتا اور نہ آسمانوں کا سائبان لگایا جاتا ۔یہ شرق و غرب ،شمال و جنوب،چاند ستاروں کی ضوباری ،گُل و گلزار کی مہکباری ،آبشاروں کا ترنم ،پہاڑوں کی سربلندیاں ،دشت وجبل کی ہیبت ،سمندروں کی وسعت ،سبزہ وگُل کی لہلاہٹ ،غرضیکہ پوری کائنات کا وجود ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرہون منت ہے کہ اگر میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہتمام نہ ہوتا تو عالم انسانیت کے جد اعلیٰ سیدنا آدم علیہ السلام کو بھی وجود عطا نہ ہوتا حتیٰ کہ خدا بھی اپنا خدا ہو نا ظاہر نہ کرتا۔’’انوارالمحمدیہ‘‘میں امام یوسف نبہانی حدیث قدسی نقل کرتے ہیں۔ لولاہٗ وما خلقتک ولا خلقت سماء ولا ارضا۔(مدارج النبوت ،زرقانی از محمد بن عبد اللہ ،جواہر االبحار ، مواہب الدنیہ وغیرہ) ترجمہ’’اے آدم علیہ السلام وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اگر نہ ہوتا تو میں تجھ کو پیدا نہ کرتا اور نہ ہی آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرتا۔‘‘

اسی طرح میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے حوالے سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی حدیث بھی اسرارِ فطرت کو بے نقاب کر دیتی ہے ۔اول ما خلق اللّٰہ نوری۔’’سب سے پہلے اللہ نے جو چیز پیدا فرمائی وہ میرا نور تھا۔‘‘(خصائص کبریٰ ،کتاب الوفا، مستدرک ،زرقانی شریف)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہی نجات دہندۂ عالم تھی۔ یہی ہستی وحشت و بربریت کی آگ بھڑ کانے والی طاغوتی طاقتوں کے غرور کو خاک میں ملا کر امن و سکون کے گلاب اُگانے والی تھی ۔یہی ہستی مقصود عالم تھی اور یہی وہ ذات والا صفات تھی جس کا انتظار کرتے کرتے بزم عالم کی آنکھیں پتھرا چلی تھیں ۔اسی ذات قدسی کی نوید جملہ انبیا و رسل ایک دوسرے کو دیتے آرہے تھے اور ہر پیغمبرتمام عمر آپ کا انتظار کرتا اور جب اس کائنات خاکی سے رخصت ہونے کا وقت آتا تو اپنے جانشینوں کو محبوب خدا حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بارے میں بشارات اور نشانیوں سے آگاہ کرتے ہوئے وصیت کرتا کہ اگر وہ پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جن سے بڑھ کر اللہ کو اور کوئی ہستی محبوب نہیں ہے تمہاری زندگی میں آجائیں تو بلا تاخیر اُن کے دست حق پرست پر بیعت کر کے اپنی نجات اور سرخروئی کا سامان مہیا کر لینا ۔ تمام زندگی اس رسول موعود کے پابہ رکاب اور باطل قوتوں کے مقابلہ میں اُس کا پورا پورا ساتھ دینا یہی وہ عہد تھا جو اللہ نے پیغمبروں سے لیا تھا اور جملہ رُسل نے اس عہد کی کس طرح پاس داری کی اس کا اندازہ حضرت آدم علیہ السلام کی اس وصیت سے ہوتا ہے ۔

’’جب سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنے آخری وقت یعنی انتقال کا یقین ہو گیا تو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت شیث علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے بیٹے مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ میں تم سے نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں عہدلوں جو تمہاری پیشانی میں جلوہ گر ہے کہ تم اس کو پاکیزہ ترین عورت کی طرف منتقل کرنا ۔‘‘(کتاب الانوار و مصباح السرورصفحہ 716)

سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسٰی علیہ السلام تک پوری تاریخ انسانیت میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے تذکار میں مصروف تھی ہر صاحب ایمان کی یہی آرزو تھی کہ وہ اس نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موعود کے استقبال میں بازی لے جائے جو وجہ تخلیق کائنات ہے ۔ بشارت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام)یوحنّا کی انجیل باب 16میں ہے ’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جائوں گا تو اُسے تمہارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارہ میں قصور وار ٹھہرائے گا۔‘‘(16:8,7)قرآن مجید نے انجیل کی اس بشارت کی گواہی ان الفاظ میں دی:’’(اور یاد کرو کہ )جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے فرمایا اے بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں تمہاری طرف (میں ) تصدیق کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے تھی تو رات (میں)خوشخبری سناتا ہوں ایک ایسے رسول کی جو میرے بعد تشریف لائیں گے اور اُن کا اسم گرامی احمد ہو گا۔‘‘(الصف آیت 6)

جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بہت پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی مولود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اللہ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا فرماچکے تھے کہ الہٰی اس رسول عظیم کو مبعوث فرما دے جو گمراہوں کو پاک کرے اور تیری آیات اور نشانیاں بتا کر انہیں تیری طرف راغب کر ے ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی ۔ربنا وابعث فیھم رسول منھم یتلوا علیھم اٰیٰتک ویعلمھم الکتٰب والحکمۃ ویزکیھم ط انک انت العزیز الحکیمo’’اے ہمارے رب اسی جماعت کے اندر ان ہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کر دیجئے جو ان لوگوں کو آپ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنایا کرے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیا کرے ،بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے ۔‘‘(البقرہ 129)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اقوال اور مناجاتوں کی روشنی میں یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ :؎

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا

دعائے خلیل اور نوید مسیحا

ایک مرتبہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے نبی پاک صاحب لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا ۔اخبر ماعن نفسک۔ہمیں اپنی ذات والا صفات کے متعلق فرمائیے تو حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور جب میری والدہ ماجدہ مجھ سے حاملہ ہوئیں تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نور کا ان سے ظہور ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور وہ نور میں ہوں۔‘‘(دلائل النبوۃ  بیہقی ص11،دارمی شریف 17،خصائص الکبریٰ 114،تفسیر ابن کثیر360،البدایہ والنہایہ 275،مشکوٰۃ شریف 513وغیرہ وغیرہ)

اب اس نور اولین کے ظہور کا وقت قریب آچلا تھا جس سے صبحِ ازل ضوفگن ہوئی تھی چنانچہ ارشاد خداوندی ہوا۔قد جاء کم من اللّٰہ نور وکتاب مبین ۔’’بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب‘‘(پارہ 6)مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :’’بے شک نور سے مراد محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمہیں۔(تفسیر کبیر365مطبوعہ مصر)سید المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’بے شک آیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نور یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘(تفسیر ابن عباس 72مطبوعہ مصر)امام جلال الدین سیوطی تفسیر جلالین میں ،امام ابو البرکت عبد اللہ بن احمد نے ’’تفسیر مدارک‘‘ میں ،امام ابو جعفر محمد بن جریر الطبری نے تفسیر ابن جریر میں ،امام محمود آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں ،علامہ اسمٰعیل حقی نے تفسیر رو ح البیان میں ،قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری میں ،علامہ معید الدین واعظ کا شفی نے تفسیر حسینی میں ، حضرت قاضی عیاض نے شفا شریف میں ،ملا علی قاری نے موضوعات کبیر میں اوردیگر بے شمار محدثین اور مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں نور سے مراد ،ذات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلملی ہے ۔

اب میلاد مصطفویٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساعتیں قریب آرہی تھیں ،ستم رسیدگانِ ہستی کی مظلومیت کی زنجیریں کاٹنے والے نبیٔ الآخر الزماںصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت قدسی کا وقت آپہنچا تھا ۔ ان مقدس ساعتوں کا ماجرہ محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ سے سنئے۔ آپ تذکارِ مقدسہ کی روشنی میں لکھتے ہیں :’’سیدہ طیبہ طاہرہ سرکار مائی آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے پیارے فرزند حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی اپنے قد ومِ میمنت لزوم سے کائنات کو مشرف نہیں فرمایا تھا کہ جبریل امین میرے پاس آئے ۔اُن کے ہاتھ میں دودھ سے زیادہ سفید ،شہد سے شیریں اور مشک سے زیادہ خوشبودار شربت کا پیالہ بھرا ہوا تھا ۔مجھے دیا کہ اسے پی لیں ۔میں نے اس کو پی لیا پھر جبریل علیہ السلام نے مجھے کہا کہ سیر ہو کر پیو تو میں نے خوب سیر ہو کر پیا ۔پھر اُس نے کہا اور پیو میں نے اور پیا ۔پھر اس نے ہاتھ نکال کر ،میرے شکم پر پھیر کر کہا:اظہر یا سید المرسلین، اظہر یا خاتم النبیین ، اظہر یا رحمۃ اللعالمین ،اظہر یا نبی اللّٰہ ،اظہر یا رسول اللّٰہ ،اظہر یا محمد بن عبد اللّٰہ ،فظہر کا البدر المنیر الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ ۔ (بیان المیلاد45)’’اے رسولوں کے سردار ظہور فرمائیے ،اے خاتم النبیین جلوہ افروز ہو جائیے ۔اے رحمۃ اللعالمین قدم رنجہ فرمائیے ۔اے نبی اللہ رونق افروز ہو جائیے ۔اے رسول اللہ تشریف لائیے ۔اے خیر الخلق جہاں جلوہ افروز ہو جائیے ۔اے نور من نو ر اللہ جلوہ افروز ہو جائیے ۔اے محمد بن عبد اللہ تشریف لائیے ۔پھر حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہویں رات کے چاند کی مانند چمکتے ہوئے جہاں میں رونق افروز ہوئے ۔الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللّٰہ ۔

سبحان اللہ !وہ کیا سماں ہو گا ۔کیامنظر ہو گا۔مجبوروں کے آنسو کس طرح خود بخود خشک ہو رہے ہوں گے ۔ویرانی کو بہاروں کا حسن عطا ہو رہا ہوگا ۔مایوس دل اُمید و رجا سے آباد ہو رہے ہو ں گے ۔ ہر طرف نور و نگہت کی فضا ہو گی ۔اس حسن فطرت پر فطرت خود تصدق ہو رہی ہو گی ۔ولادت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے انتظار کی گھڑیاں ختم کر دی تھیں اور وہ وجودِ مسعود کائنات میں جلوہ افروز ہو چکا تھا جو رحمۃللعالمین کے لقب سے پکارا جانا تھا ۔حق تو یہ ہے ۔؎

تبسم ہی تبسم تھے نظارے لالہ زاروں کے

ترنم ہی ترنم تھے کنارے جو ئباروں کے

بصد اندازِ یکتائی بغائت شانِ زیبائی

امیں بن کر امانت آمنہ کی گود میں آئی

جہاں میں آج جشن عید کا سامان ہو تا ہے!

اِدھر ابلیس تنہا اپنی ناکامی پہ روتا ہے

میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا مفہوم فقط یہی نہیں ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت کے حالات پر اکتفا کیا جائے ،بلکہ میلاد مصطفوی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ولادت باسعادت کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص ،کمالات ،انعامات اور اعزازات کا تذکرہ کیا جائے تاکہ عالم انسانیت کو احساس ہو سکے کہ جو شخصیت کائنات  میں جلوہ گر ہو رہی ہے اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے ۔حکم ربانی ہے ۔واما بنعمۃ ربک فحدث۔’’اور میری نعمتوں کا خوب چرچا کرو۔‘‘

           میلاد مصطفوی کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اور خصائص و کمالات کا تذکرہ کیاجائے تاکہ عالم انسانیت کو احساس ہو سکے کہ جو شخصیت اس روز کائنات میں جلوہ گرہوئی اس کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟   

اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کی وہ کون سی نعمتیں اور انعامات ہیں جن کا چرچا رب کریم کو مقصود ہے ۔رب کریم سورۂ آلِ عمران میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے وجود کو احسان اور انعام عظیم سے تعبیر کر رہے ہیں ۔’’حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جبکہ ان میں انہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا(آل عمران164)گویا آیت مذکورہ کی رو سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود اقدس اہل ایمان کے لئے اللہ کا احسان عظیم اور نعمت کبیر ہے۔تو پھر بندوں کو چاہئیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا چرچا کرنے اور ذکر کو عام کرنے کیلئے میلاد کی پاکیزہ محافل اور مجالس سجائیں۔

محفل میلاد

مسلمانوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ولادت باسعادت ۔معجزات و کمالات اورصورت و سیرت کا بیان کرنا خوشی و مسرت کا اظہار کرنے کا نام میلاد ہے۔ یہ سنت خدا ،سنت انبیائ، سنت صحابہ اور طریقہ بزرگان دین بھی ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :قل بفضل اللّٰہ وبرحمۃ فبذالک فلیفرحوا ط ھو خیر مما یجمعون۔’’اے محبوب لوگوں سے فرمادیجئے اللہ کے فضل اور رحمت کے ملنے پر چاہیے کہ وہ خوشی کریں وہ بہتر ہے اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں ۔(پارہ11رکوع11)اس آیت میں فضل و رحمت کے حصول پر خوشی منانے اور مال خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکی ذات گرامی اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا فضل اور اللہ کی رحمت ہے جیسا کہ قرآن کریم میں حضور کو رحمت فرمایا گیا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : وما ارسلنٰک الا رحمۃ اللعالمین۔’’اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔‘‘اس آیت مقدسہ سے معلوم ہوا کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحمت ہیں اس لئے آپ کی ولادت با سعادت پر خوشی منانا یہ قرآن کریم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا میلاد منایا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے پیر شریف کے دن روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’’اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی کی ابتدا ہوئی ۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)اس سے معلوم ہوا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیر شریف کے روزے کا اہتمام فرماکر خود اپنی ولادت کی یاد منائی ۔میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے متعلق خلفائے راشدین کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

 خلیفہ اوّل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :جس شخص نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد شریف پڑھنے پر ایک درہم بھی خرچ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔(النعمۃ الکبریٰ)

خلیفہ دوئم سید نا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا :جس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر ایک درہم بھی خرچ کیا اس نے گویا اسلام زندہ کیا (النعمۃ الکبریٰ)

خلیفہ سوئم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کہ جس نے حضور نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر ایک درہم بھی خرچ کیا گویا وہ غزوہ  بدر و حنین میں حاضر ہوا۔(النعمۃ الکبریٰ)

خلیفہ چہارم سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی تعظیم کی اور میلاد خوانی کا سبب بناوہ دنیا سے ایمان کے ساتھ جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گا۔محفل میلاد مصطفیٰصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرکت باعثِ برکت اور نجات دارین ہے یہ شکرانہ کا حسین موقعہ اور رضائے الہٰی کا پاکیزہ ذریعہ ہے ۔ جشن میلاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممنانے سے شرک کا قلع قمع ہوتا ہے اور توحید کا پر چار۔ماہ ربیع الاول میں ہر مسجد ،ہر مدرسہ اور ہر گھر محفلِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمسے سجانا چاہیے تاکہ رب کائنات کی خوشی و رضا حاصل ہو۔

٭…٭…٭