نفسیاتی مسائل

میں بہت شرمندگی میں آپ کو خط لکھ رہی ہوں، پتا نہیں آپ سمجھ پائیں گی یا نہیں، مگر ضمیر سے مجبور ہو کر مجھے لکھنا پڑا۔ ویسے تو میں نارمل ہوں، مگر مجھے لوگوں کی چھوٹی موٹی چیزیں بغیر اجازت اپنے پاس رکھنے کی بُری عادت ہے۔ حالانکہ مجھے اُس کی ضرورت بھی نہیں ہوتی، ایک عجیب سی بے چینی اور تحریک ملتی ہے کہ میں چیز اُٹھا لوں، بعد میں چاہے بس اُسے اپنے پاس ہی رکھ لوں اور استعمال نہ کروں۔ اِس عادت کو کیسے قابو میں لاؤں۔(آر۔ایم مرزا… راولپنڈی)

پہلی بات تو یہ کہ اِس میں سمجھ نہ آنے والی کوئی بات نہیں تھی، آپ کو شاید جان کر حیرانی ہو، مگر نفسیات میں اِس مسئلے کے لیے ایک باقاعدہ ٹرم موجود ہے، جسے ’’Kleptomania‘‘ کہتے ہیں اور اِس کا تعلق آپ کی تحریکی قابوکی خرابی ہے، آپ اپنی ’’impulse‘‘ تحریک کو قابو میں لانے سے قاصر ہوتے ہیں اور اِس کا اظہار آپ کی شخصیت کے دوسرے حصوں میں بھی ہوتا ہو گا، مثلاً کھاتے وقت نہ رک پانا، حد سے زیادہ کوئی کام کرنا (سونا، خرچہ کرنا، غصہ کرنا وغیرہ) اور بعد میں افسوس کرنا وغیرہ۔ اِس مسئلے کے لیے آپ کو کسی ماہرنفسیات کے ساتھ باقاعدہ سیشن کی ضرورت ہے، آپ کی اپنی مدد کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر بتا رہی ہوں، جن سے آپ اپنی شخصیت پر اپنے کنٹرول میں اضافہ کر سکتی ہیں۔

خواہش کی تکمیل میں توقف برتیںاِس سے مراد ہے اپنی تحریک اور خواہشات کو اُسی وقت پورا کرنے کی بجائے ایک وقفے کے بعد پورا کرنا۔ جیسے آپ کو کچھ کھانے کا دل چاہے تو فوراً سے اُسے کھانے کی بجائے ایک طرف رکھ دینا اور خود سے کہنا کہ اِسے 5 منٹ بعد کھانا ہے، اگر کسی بات پر غصہ آئے تو خود سے کہنا کہ میں اِس وقت کسی سے کچھ نہیں کہوں گی، کچھ کہنے سے پہلے 10 منٹ ویٹ کرنا۔ آپ شروع میں ان وقفوں کو کم کر سکتی ہیں، جیسے 10 سے 1 تک الٹی گنتی گننا۔ مگر آہستہ آہستہ دورانیہ بڑھائیں۔

اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لے کر بڑی بڑی چیزوں میں بھی نظم و ضبط لے کر آئیں، وقت پے اٹھنا، سونا، وقت پر کھانا، ٹی وی دیکھنا کام کاج وغیرہ سب کو مناسب وقت دیں اور اُن کو مقررہ وقت پر یاد رکھیں کہ نفسیاتی مسئلے کسی کے کردار کے خراب ہونے کی علامت نہیں، اِن کو عام بیماریوں کی طرح حل کیا جاسکتا ہے، ایک اور کام یہ کریں کہ خود سے اِس کے متعلق بات کریں کہ ایسی عادت ہونا کتنا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ دوسروں کو اِس کا کیا نقصان ہوتا ہے۔ مذہب اِس کے بارے میں کیا کہتا ہے اور کبھی بھی اپنی بیماری کو ’’بہانے‘‘ یا ’’وجہ‘‘ کے طور پر پیش نہ کریں۔

٭… ٭… ٭