مولانا کے ساتھ نہ بلاول ہے نہ میاں شہباز۔ بلاول کے والد بیمار ہیں… شدید بیمار۔ انہیں بھی وہیں سہولتیں اور نرمیاں درکار ہیں جو چھوٹے میاں صاحب … بڑے میاں صاحب کے لیے حاصل کرلینے میں کامیاب رہے۔ منطق کے عین مطابق ایسے میں مولانا کو سیاسی طور پر تنہا ہوکر ریورس گیئر لگالینا چاہیے تھا مگر مولانا مستقل مزاجی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔ مولانا بلف کر رہے ہیں یا مولانا کے پاس واقعی ترپ کا پتہ ہے۔ دھرنے کی جو وجوہات تھیں ان کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ بلکہ سکرپٹ سے ہٹ کر بھی بہت سے فوائد لیے جاچکے ہیں۔ مولانا نے نہیں … کسی اور نے۔ اب ایک طرف پارلیمنٹ کے اندر ہنگامہ ہے دوسری جانب مولانا کا دھرنا۔ یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے؟ سیاست میں ہوتے ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے ہیں کچھ اور۔ انسان کی افتاد اور طبع ہی اس کا مقدر ہوتے ہیں۔ عمران نے وہ سب کچھ کیا جو اس سے پہلے دونوں جماعتیں کبھی نہ کرسکیں۔ مگر خان فاسٹ بائولر ہے۔ اسے وکٹیں نظر آتی ہیں گیند کرواتے ہوئے۔ کاش وہ سیاست کی وکٹ پر بڑھتی ہوئی نمی کو بھی دیکھ سکتا۔ وکٹ نم ہوچکی ہے۔ چھوٹے میاں کی کاوشیں رنگ لائیں۔ نون کے لیے ستاروں کی گردش یک لحظہ تھم سی گئی۔ مریم نواز بھی خاموش ہوگئیں اور مریم اورنگزیب بھی۔ وہ جو مریم کو انقلابی بنانا چاہتے تھے، پرویز رشید اینڈ کو … اور وہ بھی جو پین لہرا کر مریم کو ڈٹ جانے کے مشورے دیتے تھے۔ میاں شہباز کی لائن اور محنت کام کرگئی۔ شکنجہ نرم تر ہوگیا۔ منفرد شاعر منیر نیازی کیا خوبصورت بات کہہ گئے ؎ کس دا دوش سی کس دا نئیں اے گلاں ہن کرن دیاں نئیں ویلے لنگھ گئے توبہ والے تے اے راتاں ہن ہوکے بھرن دیاں نئیں گل جدی اک وار شروع ہوجاوے تے فیر اے ایویں مک دی نئیں بات شروع ہوچکی ہے۔ وہ جو بیچتے ہیں دوائے دل … وہ دکان بڑھا نہیں رہے بس دوا کی پڑیاں تسلی بخش علاج کے لیے کسی اور کو بھی ملنے لگی ہیں۔ پرویز خٹک ناکام ہوگئے مولانا کو رام کرنے میں۔ خان زچ ہوگیا تو پھر چودھریز آن بورڈ کیسے آئے؟ انہیں کس نے کہا کہ مولانا سے مذاکرات کریں؟ خان نے تو ہرگز نہیں۔ اب مولانا اور چودھریز کے درمیان جو کچھ cook ہورہا ہے وہ نہ تو میڈیا کو پتہ ہے اور نہ خان کو۔ خان کو تو یہ بھی نہیں پتہ کہ چھوٹے میاں صاحب کی کس سے کیا بات ہوئی؟ کسی شاعر نے خوب کہا: مفصل ملاقات پھر ہوگی … یہ ملاقات، ملاقات کا دیباچہ ہے۔ چھوٹے میاں کی ملاقاتیں دیباچہ ہیں یا کتاب کا پہلا باب۔ مگر حکومت کے لیے لگتا ہے کہ شباب ختم ہونے جارہا ہے اور شاید اک عذاب بھی۔ مولانا جو مذاکرات کررہے ہیں وہ اس پر نہیں ہیں کہ میں دھرنا کب اور کیسے ختم کروں گا؟ مولانا اگلے رائونڈ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ رائونڈ تو ختم ہو ہی جائے گا۔ مولانا اپنا دھرنا ختم کردیں گے۔ مگر کب؟ اسی پر چودھری پرویز الٰہی مسلسل مسکرا رہے ہیں۔ پس پردہ چودھریز اور نون میں بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے۔ خان اور بزدار کو ہٹانے کے لیے کوئی سے دو پیج ایک صفحے پر لائے جاسکتے ہی۔ پاور بروکرز اس Mess جیسی صورتحال سے اکتا چکے ہیں۔ جو خان نے دینا تھا دے چکا۔ جو ڈلیور کر سکتا تھا … ہوگیا۔ ناپسندیدہ غیر سیاسی فیصلے بھی کرلیے۔ سیاست کی لغت میں بڑا دلچسپ انگریزی مقولہ ہے: "The bed fellows of today can be the enemies of tommorrow." آج کے دوست … قریب ترین دوست کل کے بدترین دشمن بھی ہوسکتے ہیں۔ آپ اپنی چشم تخیل سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ کون کس کا کل دوست تھا؟ کون کس کا آج دوست ہے؟ ان ہی کمبی نیشنز کو بدل بدل کر دیکھیں۔ آج کی پس پردہ سیاست کے کردار اور سکرپٹ بغیر میک اپ نظر آنا شروع ہوجائیںگے۔ حکومت رہے گی یا نہیں؟ اس حکومت کے بعد کیا ہوگا؟ مولانا دھرنا کن شرائط پر ختم کریں گے۔ کون سی شرائط عوام کے لیے ہوں گی اور کون سی صرف خواص کے لیے؟ چودھریز اس کھیل سے مکمل فاتح کی حیثیت سے کیسے طلوع ہوں گے؟ اور ہر قسم کی مسلم لیگ ایک صفحے پر کیسے آسکتی ہے؟ یہ سب وہ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں یا وہ بادبان کھلنے سے پہلے کا اشارہ دیکھ رہے ہیں۔ مولانا کے حصے مستقبل کے انتظامات میں سے کیا آئے گا؟ اس مقامی سرد جنگ کے نتیجے میں بزدار اور محمود خان کی جگہ کون آئے گا؟ دھرنے کی ٹائمنگ بڑی اہم تھی۔ جب زرداری اور شہباز مولانا سے درخواست کررہے تھے کہ اسے تھوڑا سا آگے لے جائیں تو مولانا کیوں مصر تھے اسی وقت دھرنا دینے کے لیے؟ مولانا نے بالکل درست ٹائمنگ کے ساتھ بالکل ٹھیک جگہ پر صحیح نشانہ لگایا ہے۔ دھرنے کے مقاصد پورے ہوچکے جو تیس چالیس فیصد باقی ہیں وہ چودھری اور مولانا پورے کرلیں گے۔ اس سارے کھیل میں تین کھلاڑیوں کو داد نہ دینا بدذوقی ہوگی۔ مولانا، چھوٹے میاں صاحب اور چودھریز۔ اسی کے ساتھ ساتھ خان اور اس کی ٹیم کی عاقبت نااندیشی پر انہیں بھی نمبر ملنے چاہئیں۔ خان کو حکومت سنبھالنے سے پہلے اور حکومت سنبھالنے کے بعد کبھی یہ ادراک ہی نہیں ہوا کہ اس کھیل میں بھی ٹیم کس قدر اہم ہوتی ہے۔ سیاسی بندشوں کے باوجود کاش وہ کے پی کے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کا انتخاب ہی درست کرلیتے۔ مگر اب وہ جب ایسا کریں گے تو نقصان کا ازالہ اور تلافی ممکن نہ ہوگی۔ بہرحال ہم دو جماعتی نظام سے تین جماعتی نظام کی طرف آئے مگر یہ تجربہ کچھ اتنا کامیاب نہ رہا۔ شاید اس کا احساس ان پاور بروکرز کو بھی ہوگیا ہے جنہیں ہم ان سطور میں پاکستان کے موورز اینڈ شیکرز لکھا کرتے ہیں۔ وہ جو دل لگانے کے گُر جانتے ہیں ترکیب در ترکیب سارے ہنر جانتے ہیں