حاجی سید احمد سیلاب افغانستان میں ایک فلاحی تنظیم چلا رہے ہیں-یہ مشفق اوردرددل رکھنے والاانسان اُن تمام افغانوں سے مالی تعاون کرنا اپنی زندگی کا مشن بناچکے ہیں جوچالیس سالہ فسادات، طویل خانہ جنگی اور بیرونی یلغارکے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں اپاہج ، یتیم ، بے گھراور بے آسرا ہوچکے ہیں۔ویسے توسچ یہ ہے کہ افغان وطن ہرروز دل فگار خبروں کی زد میں رہتا ہے لیکن بعض اوقات اس ملک میں رونما ہونے والے کچھ واقعات دیر تک سوچنے اور رُلانے پر مجبور کر دیتے ہیں-پچھلے دنوں مجھے حاجی سید احمد سیلاب کی زبانی ایک ایسی کہانی سننے کو ملی جس کے اوپر خون کے آنسو بہانابھی میں کم سمجھتا ہوں-سید احمد سیلاب چندہفتے قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں مدعو تھے جہاں انہوں نے ایک دردبھرا واقعہ سنایا۔وہ بتارہے تھے کہ حال ہی میں ہماری فلاحی تنظیم کے دفتر میںکسی نے بادغیس صوبے کے ایک متاثرہ خاندان کی مجبوری کاحوالہ دیا ۔ہم امداد کیلئے وہاں پہنچے اور مذکورہ گھر کا دروازہ کھٹکٹایا۔اندر سے ایک خاتون کہنے لگی ، جناب! آپ ذرا اپناتعارف کرائیے۔سیلاب فرمارہے تھے کہ میں نے اپنااور اپنی تنظیم کے بارے میں اسے بتایا ۔یہ سنتے ہی وہ خاتون رو پڑی اور کہا ’’ میں پچھلے تین مہینوں سے آپ لوگوں کی راہ دیکھ رہی ہوں کہ خدا تمہیں ہماری پُرکرب زندگی سے باخبر کردے‘‘۔سیلاب کے مطابق اس خاتون نے مجھے اندر آنے سے پہلے اپنا روایتی برقع پہن لیااور پھر مجھے اندرآنے کا کہا۔میںجب وہاں گیا تواندر دروازے کے قریب میری نظرایک چھوٹی قبر پر پڑی-خاتون سے اس قبر کے بارے میں دریافت کیا توکہنے لگی کہ یہ ان کے شہید خاوند کی قبر ہے-سیلاب کہہ رہاتھا کہ میرے منہ سے بے اختیار یہ جملہ نکلا’’ بہن ایک بڑے انسان کی۔ اتنی مختصر اور چھوٹی کیسے ہو سکتی ہے؟ جواب میں اس خاتون نے رونگھٹے کھڑی کرنے والی ایک کہانی سنائی ۔کہنے لگیں کہ کئی مہینے پہلے ان کے ہاں ایک بچہ پیداہوااوربچے کی پیدائش کو چھ مہینے بیت گئے لیکن غربت اور محتاجی کی وجہ سے بہترکھانانہیں ملا۔گوشت کے ٹکڑے کیلئے وہ خود بھی ترس رہی تھی اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں بھی ۔ایک صبح میں نے اپنے شوہر سے منت کی کہ اگر ممکن ہوسکے تو آج بازارسے کچھ نہ کچھ گوشت اور گھی کابندوبست کرلیں۔خاوند نے کہا’’ٹھیک ہے، آج فلاں تاجر کے ساتھ دیہاڑی کرنے جارہاہوں اورشام کو آپ کیلئے گوشت ،آلو اور گھی لانے کا اہتمام کرلوں گا۔عورت کاکہناتھاکہ ان کا خاوند گھر سے نکلاتو فقط دوتین گھنٹے بعد کسی نے گھر کے دروازے پر دستک دی۔میں نے پہلے اپناپانچ سالہ بیٹا بھیجاکہ جاکر معلوم کروکہ دروازے پردستک کون دے رہاہے؟ بچہ نکلا،واپس آیاتو خوشی سے اچل رہاتھا اور کہا’’ امی جان !باہر دروازے پر ایک آدمی بہت سارے گوشت سمیت آیاہواہے ۔خاتون کے مطابق میںجونہی میں دروازے پرپہنچی تو گوشت کی بُو محسوس کی اور سوچنے لگی’’ شکرہے میرے اور میرے بلکتے بچوں کیلئے گوشت کا اہتمام ہوگیاہے۔جونہی باہر گئیں تودروازے کے ساتھ کھڑے انجانے آدمی نے مجھے تسلیاں دینا شروع کیں کہ ’’ بہن ! آپ کے خاوند ابھی کچھ دیر پہلے ایک دھماکے میں شہید ہوگئے اور یہ ان کے شہید جسم کی باقیات ہم لائے ہیں۔خاتون کا کہنا تھاکہ میں اس وقت حیرت سے پتھر ہوگئی کہ اے میرے مولا! یہ کیاماجراہے، اسی دوران گوشت کیلئے ترسنے والے میرے نادان بچہ پیچھے سے مجھے کپڑوں سے کھینچ رہاتھااور تتھیالی زبان سے کہہ رہاتھاامی جان ! پہلے مجھے اس گوشت سے ایک ٹکڑادیدو، میںسیخ کباب بنانا چاہتاہوں‘‘ ۔ حاجی سیداحمد سیلاب نے اس پروگرام میں یہ بھی بتایا کہ اس خاتوں کے شہید شوہر کے ذمے کسی کا کچھ قرض بھی باقی تھا جس کے بدلے ظالموں نے اس سے چھ سالہ بیٹی بھی چھین لی۔ یہ توصرف ایک دردناک کہانی تھی جو سیلاب جیسے درددل رکھنے والے کی زبانی ہم تک پہنچی ،غور کیاجائے تو اس جنگ زدہ ملک میں ہزاروں ایسے گھرانے اور بھی ہیں جونہ صرف مفلوک الحالی کے ہاتھوں زچ اور مرتے ہیں بلکہ اس طویل خون آشام ماحول کے نتیجے میں تین تین ، چار چار حتیٰ کہ اپنے دس دس پیاروں کے جنازے اٹھاچکے ہیں۔ اٖفغانستان ہمارا وہ ہمسایہ ملک ہے جہاں آج بھی اسلام اور کلمہ طیبہ کے نام پر کلمہ گو مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ۔ کوئی لاکھ اس قتل عام ، خانہ جنگی اور بیرونی جارحیت کی ذمہ داری امریکہ اور نیٹو کے سر تھوپ دے لیکن سچ یہ ہے کہ اس برادر مسلم ملک کی زبوں حالی اور خون ریزی کے پچہتر فیصد ذمے داروہاں کابے حس سماج اور ان کے مفادپرست حکمران ہیں جو صرف نام کی مسلمانی پر اکتفاء کیے ہوئے ہیں۔دوسری طرف وہ مذہبی طبقہ بھی اس ملک کی تباہ حالی میں برابرکا شریک ہے جو یا تو مذہب کو اب بھی سمجھ نہیں پایا یا پھر جان بوجھ کر مصلحتوں کی خاطر سچ کہنے سے عاجزہیں۔کاش ! صداقت ، سچائی اور صلہ رحمی مارکیٹ میں فروخت ہوتی اور ہم اسے اس پورے سماج کیلئے خرید سکتے ۔ ٭٭٭٭٭