قائد اعظم کی شخصیت کو سمجھے بغیر تحریک پاکستان کی جدوجہد اور قیام پاکستان کے مقصود کو سمجھنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔قائد اعظم کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں اور ہر پہلو آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہے، بدقسمتی سے قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کے بارے میں ان کے عالمی اور مقامی حریفوں نے لکھا ہے جبکہ قائد اعظم کے فکر و عمل کے مداح بے شمار ہیں مگر اکثر و بیشتر نے ناقدین کے اعتراضات کو مدنظر رکھ کر لکھا اور سمجھا۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قائد اعظم کی شخصیت میں وہ کیا جادو ہے، جس کے باعث تمام حریف اور ناقدین قائد اعظم کی کامیابی کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے۔قائد اعظم کی کامیابی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔انہوں نے اپنی کامیابی سے جنوبی ایشیا کا نقشہ بدل دیا، جس کے اثرات علاقائی اور عالمی ہیں، قائد اعظم یکدم قائد اعظم نہیں بنے بلکہ وقت کے بہترین استعمال نے انہیں قائد اعظم بنایا۔ان کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ ان کی شخصیت یعنی قول و فعل میں یکجہتی تھی، جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کی اکثریت کو ایمان اتحاد اور تنظیم کی یکجہتی سے نوازا۔ان کی شخصیت کے فکری پہلو صداقت‘امانت اور شجاعت کی عملی تفسیر تھے۔ان کی کامیابی ان کی محنت اور ہمت کی داستان ہے۔یہ کسی امیر گھر میں پیدا نہیں ہوئے۔مگر جب وفات پائی تو دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل تھے۔ڈاکٹر سعد خان اپنی تالیف’’قائد اعظم۔دولت‘ جائیداد وصیت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے اپنی دولت اور جائیداد کا دس فیصد بہنوں‘ بھائی کی اولاد اور بیٹی کو دیا اور نوے فیصد(90%) پاک و ہند کے مختلف تعلیمی اداروں کو دیا جس کے تحت جناح ٹرسٹ اور قائد اعظم علیگڑھ سکالر شپ وغیرہ قائم کیا گیا۔ قائد اعظم نے اپنی بہن فاطمہ جناح کے لئے اپنے سرمایہ کاری منافع سے ایک ہزار روپیہ ماہانہ اور قیمتی مکانات کے علاوہ تقریباً 28لاکھ سے زائد مالیت کے زیورات اور حصص مختص کئے جبکہ باقی بہنوں کے لئے سو‘سو روپیہ ماہانہ سرمایہ کاری منافع مختص کیا۔ قائد اعظم کے والد جناح پونجا نے دوست احباب کے مشورے سے انہیں قانون کی تعلیم کے لئے لندن بھیجا۔تعلیم کے دوران والد گرامی جناح پونجا کو کاروباری نقصان ہوا تو قائد اعظم کم کرائے کی عمارت میں رہائش پذیر ہوئے۔یہ الگ بات کہ قائد اعظم نے اپنے لندن کے قیام کے دور ثانی میں یہ رہائش گاہ خرید لی تھی۔دلچسپ بات یہ تھی جب قائد اعظم ہندوستان لوٹے تو ان کے والد گرامی خاصے مقروض تھے اور قرض دینے والوں نے گھر کے ہر فرد بشمول قائد اعظم پر مقدمات دائر کر رکھے تھے۔قائد اعظم مظلوم کا مقدمہ لڑتے تھے‘ ظالم کا نہیں۔ لہٰذا تقریباً 3سال بغیر وکالتی کمائی کے گزارے۔حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم کی زندگی زیرو سے ہیرو بننے کی کہانی ہے۔ قائد اعظم کی شخصیت کے چار پہلو نمایاں ہیں۔یہ کامیاب سیاستدان‘ ماہر قانون دان‘ بہترین سرمایہ کار اور شریک حیات مریم جناح کی محبت سے سرشار انسان تھے۔ یہ شادی تقریباً 12سال رہی اور مریم جناح 1929ء رحلت فرما گئیں۔ مریم جناح نے اسلام مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے بزرگوں کے ہاتھ اسلام قبول کیا۔قائد اعظم نے اپنی ساری ازدواجی زندگی بمبئی کے خوبصورت اور مہنگے ترین علاقے میں واقع جناح ہائوس (سائوتھ کورٹ) گزارے۔بعدازاں قائد اعظم اپنی بہن اور بیٹی دینا کے ساتھ لندن میں رہائش پذیر ہو گئے اور 1934میں واپس آ کر مذکورہ جناح ہائوس بمبئی کی تعمیر و تزئین نو مریم جناح کی خواہش کے مطابق دنیا کے بہترین معماروں سے کرائی۔جناح ہائوس بمبئی کی نئی تعمیر اور تزئین کو دیکھ کر اسے قائد اعظم کا تعمیر کردہ ’’تاج محل ‘‘ قرار دیا، جو انہوں نے اپنی اہلیہ مریم جناح کی یاد میں تعمیر کیا ہے، قائد اعظم ایک نرم دل مگر اصول پسند شخص تھے۔قائد اعظم کی سیاسی و وکالتی کامیابیوں کی داستان کتابوں میں مرقوم ہے مگر یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ قائد اعظم بہترین سرمایہ کار بھی تھے۔قرار داد پاکستان (23مارچ 1940ئ) سے یہ سرمایہ کاری بڑی بڑی غیر مسلم کمپنیوں میں بھی تھی مگر 1940ء کے بعد قائد اعظم نے حصص کی خریداری متحدہ پاکستان میں شامل ہونے والے علاقوں میں کی اور مسلمان صنعتکاروں کے ساتھ کی۔قائد اعظمؒ کا مالیاتی ویژن سٹیٹ بنک کی افتتاحی صدارتی تقریر ہے،جس میں انہوں نے مغرب کے ظالمانہ سودی نظام کو یکسر ترک کرنے کی ترغیب دی بلکہ سٹیٹ بنک کا قیام ہی اسلامی نظام معیشت کے ازسرنو اطلاق کے لئے کیا گیا تھا۔لہٰذا انہوں نے قومی سیاست میں حصہ لینے سے پہلے اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا تھا۔قائد اعظم بیجا ٹیکسز کے حامی نہیں تھے۔جب پاکستان کے پہلا بجٹ خسارے کا تھا تو ماہرین معیشت کے لئے عوام پر نئے ٹیکسز لگانے کی تجویز دی جو قائد اعظم نے روک دی اور چند پاکستانی امراء سے درخواست کی گئی کہ بجٹ کا خسارہ پورا کر دیں۔یاد رہے کہ بجٹ کا خسارہ غیر ملکی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر پورا نہیں۔قرض تو مالک اور ملک کو کھا بھی جائے تو پورا نہیں ہوتا۔قیام پاکستان سے قبل بھی مسلمان ہندو ساہو کاروں کے مقروض تھے،جس نے ان کی دولت‘ جائیداد اور زندگی پر قبضہ کر لیا تھا۔لہٰذا قائد اعظم کا مالیاتی ویژن قرض سے نجات‘ ملکی امراء کا مالیاتی تعاون‘ مقامی صنعتکاری اور سرمایہ کاری کی سہولت اور عوام کو روز بروز بڑھتے ٹیکسز سے نجات دلانا۔یاد رہے 1945-46ء کی متحدہ ہندوستان کی وزارت خزانہ مسلم لیگ کے پاس تھی سالانہ بجٹ میں غریبوں کو چھوٹ اور امیروں کو ٹیکس نیٹ ورک لایا گیا۔مذکورہ بجٹ جناح بجٹ اور غریب پرور بجٹ کہلاتا تھا۔وزیر اعظم لیاقت علی خان قائد اعظم کی وصیت کے مختار خاص Execntionتھے اور انہوں نے قائد اعظم کے مالیاتی ویژن کے پاکستان کے بجٹ کو خسارے سے نکال کر منافع کا بجٹ بنایا اور پاک کرنسی کو آزاد بھارت کی کرنسی سے بلند تر رکھا۔