جمعیت العلمائے اسلام کے قائد اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے پچھلے پچاس برس سے کوشاں مولانا فضل الرحمن نے چند دن قبل کہا تھا کہ" آرمی چیف کی تعیناتی ایک معمول کا عمل ہے" لیکن خدائے عزوجل کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہم نے اپنی تئیں حتی المقدور کاوشوں سے اس تعیناتی کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔ہم جب چاہیں کسی پوسٹ اور تعیناتی کو غیر معمولی بنا دیتے ہیں۔ایسا سب کرنا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔آرمی چیف کی تقرری سے پہلے آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ اس روٹین کے کام کو ہم کس طرح غیر معمولی بنانے کے جتن میں مصروف ہو گئے تھے۔میرے رفقائے کار تو اس کام میں مہارت ِ تامہ رکھتے ہیں مجھے تو ان کے مقابلے میں طفل ِ مکتب ہی سمجھیے۔ ہم نے اپنا بیانیہ ترتیب دیتے ہوئے بس یہ خیال رکھا تھا کہ معمولی کو غیر معمولی بنانا ہے۔سب نے اپنی اپنی توفیق موجب اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ ویسے تو ہر کام میں حصہ بقدر جثہ ہوتا ہے مگر اس کام میں ہم سب جیسے ایک ہو گئے تھے۔حصے کا کام بعد پر ڈال دیا تھا جو اب الا ماشاء للہ شروع ہو گیا ہے۔ اور میاںشہباز شریف اسے غیر معمولی بنانے کے لیے دو بار لندن تشریف لے گئے تھے۔کیوں کہ دور اندیشی اور مستقبل بینی کا شعبہ اور کام برادرِ بزرگ نواز شریف کے ذمے ہے، جو آپ نے سابقہ آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹشن کے موقع پر نوٹ کیا ہو گا۔جب عدالت نے کہا کہ آئین میں تو ایکسٹینشن کا ذکر ہی نہیں تو آؤ دیکھا نہ تاؤ ہم سب سیاست دان بھائی کس طرح یک سو ہو گئے تھے۔محض سترہ منٹوں میں ایک ناقابل عمل کام ہم نے کر کے دکھا دیا۔اس موقع پر دشینت کمار یاد آتے ہیں میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے یہ آگ ٹھنڈی بھی ہم سیاست دان بھائیوں نے ہی تو کی تھی۔ انہوں نے کہا "سرکاری ملازمت میں ریٹائرمنٹ ایک انجام ، اختتام ہوتا ہے،ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔البتہ بسا اوقات حالات کی مجبوری بھی دیکھنا ہوتی ہے۔ یہی بات تو قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے موقع پر دیکھی تھی۔آپ کو یاد ہو گا حالات کے تقاضوں کے تحت ہم نے مشرف کا دور خاموشی سے گزارا۔اس دوران ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کو صوبہ سرحد کی حکومت بادل نخواستہ قبول کرنا پڑی ورنہ درویشی ان معاملات سے کہیں ارفع ہے۔بسا اوقات اقتدار کا کڑوا گھونٹ کرنا پڑتا ہے اور ہم قوم کی خاطر اقتدار کا بڑا گھونٹ کیا گڈوا بھی پی سکتے ہیں۔ درد ِدل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں انہوں نے کہا کہ" میں اور پیپلز پارٹی بھی اپنا آرمی چیف لانے کی ضد کریں تو دفاعی نظام کا کیا بنے گا"۔یہی وجہ ہے کہ ہم ایسا مطالبہ کبھی نہیں کرتے۔ہم تو وزارت اعلٰی اور گورنری جیسی عام چیزوں پر بھی گزارا کر لیتے ہیں۔پہلے اکرم درانی کو بہت منت سماجت کے بعد وزارت ِ اعلٰی پر راضی کیا تھا۔اب دوبارہ بھاری دل کے ساتھ حاجی غلام علی نے یہ منصب سنبھالا ہے۔ان کو اس خدمت کے لیے میں نے ان کی جتنی منتیں میں نے کی ہیں، اللہ ہی جانتا ہے۔وہ اپنے ناتوان کندھوں پر یہ بوجھ اٹھانے پر قطعا رضامند نہیں تھے۔میں نے انہیں یہ عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی تھی جو انہوں نے کئی دن غوروخوض کے بعد قبول کی۔البتہ غیر ملکی خبر ایجنسیاں بات کا بتنگڑ بنانے کی عادی ہیں۔انکا بغض تو چھپتا ہی نہیں۔بھلا اب یہ سٹوری لیک کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ حاجی غلام علی کی 80ء کی دہائی میں رسیوں کی دوکان تھی۔وہ پھوڑتے رہیں اس طرح اپنے دل کے پھپھولے مجھے اس سے کیا؟۔ سندھ کے سیاسی ستارے شرجیل میمن کا کہا سر آنکھوں پر کہ"ملک کی معاشی حالات سے سب پریشان ہیں معاشی حالات یہاں تک لانے میں عمران خان ذمے دار ہیں۔"سب کا مطلب ہے سارے ملک کے عوام میں آخر ہمارا شمار بھی سب میں ہوتا ہے۔اس پریشانی کے ذمہ دار عمران خان ہیں کیوں کہ وہ تو کراچی کے گندے نالوں کی صفائی بھی ایف ڈبلیو او سے کرواتے تھے۔ساڑھے تین سالوں میں ان کی طرف سے ایک دھیلا بھی نہیں ملا۔کیا زمانہ تھا اپنے آقا زرداری کے دور میں لانچوں پر دبئی رقم بھجوانے کے جھوٹے سچے الزام لگتے تھے تو دل کو چین اور قرار سا آ جاتا تھا۔ساڑھے تین سال تو انگاروں پر چلنے کے مترادف تھا۔انہوں نے مزید کہا "کہ پی ٹی آئی کی جہاں جہاں حکومت ہے وہاں بے امنی اور مہنگائی زیادہ ہے"۔اب دیکھیں یہاں کراچی میں کس قدر امن و سکون ہے۔سارے کام ٹھیک ٹھاک چل رہے ہیں۔اگر امن و امان کا مسئلہ ہوتا تو کیا ہمارے سارے کام سہل ہونے تھے۔یہ ساری باتیں اس امر پر دال ہے کہ یہاں مہنگائی بھی نہیں اور امن بھی ہے۔مورخ اسے زریں عہد سے یاد کرے گا۔کیوں کہ نہ تو اب نیب کی پیشیاں ہیں اور نہ کسی قسم کی انکوائری کا سامنا ہے۔اس سے زیادہ امن و سکون کا دور اب اور کیا ہو گا۔ چھوٹے قائد ِ انقلاب نے کہا ہے کہ" کسی بھی ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہوتی ہے"۔اب دیکھیں وزیر ِ اعظم نے کیا سولہ آنے بات کی ہے۔یہ انکشاف کرنے میں ان کی کئی راتوں کی نیند اڑی رہی تھی۔یہ وہی معاملہ ہے جیسے شاعر کو آمد ہو رہی ہو اور خیالات کی یورش اس قدر تیز ہو کہ اسے وہ آمد قرطاس پر منتقل کرنے کا بھی یارا نہ ہو۔اس موقع پر اقبال یاد آتے ہیں یہ فیضان ِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب ِ فرزندی