چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے آئینی اور قانونی حوالے کو پیش نظر رکھ کر واضح کیا ہے کہ کسی معاملے میں تفتیش کے سلسلے میں وزیراعظم کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ چیئرمین نیب نے اس تاثر کی نفی کی کہ ہیلی کاپٹر یا کسی دوسرے معاملے پر تحقیقات کے لیے نیب وزیراعظم کو طلب نہیں کر سکتا۔ انہوں نے بجا طور پر کہا کہ نیب میں پیش ہونا توہین نہیں بلکہ وزیراعظم کی جانب سے قانون کی بالادستی تسلیم کرنے سے ان کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی یہ وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ نیب کا ادارہ جس طرح سیاسی حکومتوں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا ہے اب وہ سابقہ روش کو ترک کر کے آزادانہ طور پر اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ وطن عزیز میں طبقاتی بنیادوں پر اختیارات کی تقسیم نے معاشرے کی اقدار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ کمزور اور محکوم طبقات آئینی طور پر مساوی حقوق کے باوجود جبر اور زیادتی کا شکار ہیں جبکہ بالائی طبقات ریاست، معاشرے اور قانون کو نقصان پہنچانے کے باوجود محترم قرار دیئے جاتے ہیں۔ پاکستانی سماج کو اسلام کے اصولوں کے مطابق تشکیل دینے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو معلوم ہوگا کہ بالائی طبقات کے جرائم ناقابل معافی ہیں۔ اسلام کے سیاسی و انتظامی اصولوں کو متعارف کرانے کا وعدہ کر کے ستر برسوں کے دوران بہت سے افراد اور سیاسی جماعتوں نے اپنے مفادات کا تحفظ کیا۔ ایسی عملی مثالیں بہت کم ہیں جب بااختیار یا برسراقتدار شخصیت نے خوش دلی سے خود کو قانون کے سامنے پیش کیا ہو۔ الزامات کی نوعیت معمولی تھی یا سنگین مگر یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم ہوتے ہوئے عدالت میں حاضری دی۔ اسی طرح راجہ پرویز اشرف بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ نوازشریف کو جب اپنے اوپر الزامات کا سامنا کرنا پڑا تو آخر کار وہ بھی تحقیقات میں شامل ہو گئے۔ دونوں سابق حکمران جماعتوں نے اپنے وزرائے اعظم کی عدالت اور جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کو اپنے خلاف سازش قرار دیا۔ اس عمل کے متعلق ایسا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اس میں قانون کے احترام کا عنصر غائب ہوگیا۔ وزیراعظم عمران خان پر ایک الزام تھا کہ ان کی بنی گالا والی جائیداد سی ڈی اے کے ضابطوں کے خلاف تعمیر کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں بنی گالا میں وزیراعظم کی جائیداد کے معاملے پر تعریف کی جا رہی تھی کہ انہوں نے بے جا ضد کی بجائے تنازع کو قانون کے مطابق حل کرنے کو مقدم جانا۔ وزیراعظم عمران خان پر دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ کسی آئینی عہدے پرفائز نہ ہونے کے باوجود 2013ء سے 2018ء تک کے پی کے حکومت کے ہیلی کاپٹر کا بے دریغ استعمال کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم کے خلاف نیب تحقیقات کر رہا ہے۔ اس معاملے کو دو طریقوں سے آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ پہلا طریقہ یہ کہ جناب عمران خان اگر اس الزام کو غلط سمجھتے ہیں تو وہ اس حوالے سے تحقیقات میں نیب سے تعاون کریں اور اپنا موقف پیش کریں۔ دوسری صورت میں جرمانہ ادا کرکے اس تنازع کو ختم کرالیں۔ وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری نے وزیراعظم کے خلاف اس طرح کی تحقیقات کو وزیراعظم کی توہین قرار دے کر قانون کی عملداری کے حوالے سے جس انداز میں نکتۂ نظر پیش کیا وہ عمران خان کی اصول پسندی سے متضاد دکھائی دیا۔ پاکستان کے عوام سابق حکمران خاندانوں اور سیاسی جماعتوں سے بیزار رہے ہیں۔اس کی وجہ ان کا قانون کے سامنے جوابدہی کو متنازع بنانے کاطرز عمل ہے۔ تحریک انصاف کو عوام میں پذیرائی حاصل ہونے کی بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ عمران خان اور ان کے رفقاء قانون کے سامنے سب کو مساوی حیثیت میں جوابدہ بنانے کا وعدہ کرتے رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ لاقانونیت ہے۔ اس لاقانونیت کے مظاہر کبھی کسی غریب کا مال ہتھیانے، کبھی کسی بے بس کی چار دیواری کا تقدس پامال کرنے اور کبھی کسی کی جائیداد پر قبضے کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ راہ چلتے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی، کسی جرم پر پولیس کو کارروائی سے روکنا اور جرم کرنے کے بعد قانونی کارروائی کو آگے نہ بڑھنے دینا افسوسناک رویے ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ حکام اور سربراہ اگر قانون کا احترام کرنے کو اپنی توہین قرار دیں گے تو ان لوگوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا جو تبدیلی کے خواب دیکھتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت اور حکومتی شخصیات کا طرز فکر زیادہ جمہوری، ذمہ دارانہ اور قانون کا پابند ہونا چاہیے ورنہ عوام اور فرض شناس افسر ایک بار پھر بددلی کا شکار ہو کر خاموش بیٹھ جائیں گے۔ پولیس ایک طویل مدت تک سیاسی مداخلت کے باعث اپنی ساکھ کھو چکی ہے مگر تحریک انصاف نے کے پی کے میں اسے آزادی سے کام کرنے کا موقع دے کر خوشگوار تاثر تخلیق کیا۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کو حکومتوں نے اپنے حسب منشا استعمال کیا۔ اس ادارے کی کارکردگی میں معمولی سی بہتری دکھائی دینے لگی ہے۔ نیب کو سابق حکومتوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ جو شخصیات برسراقتدار رہیں نیب ان کے جرائم پر خاموش تماشائی بنا رہا۔ خوش آئند امر ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے نیب کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حکومت کی طرف سے نیب کو مکمل آزادی دینے کا فائدہ یہ ہوا کہ نیب نے برسہا برس سے بند فائلوں کو کھول کر تحقیقات کو نتیجہ خیز بنانے کا عمل آگے بڑھایا ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے نیب سے تعاون ایک اعلیٰ قدر کے طور پر یاد رکھا جائے گا لہٰذا ایسے معاملات کو خوامخواہ تنازعات کی شکل دینے سے احتراز کیا جانا چاہیے۔