ستر کی دہائی ایران میں بڑے طمطراق سے طلوع ہوئی۔تیل کی شکل میں ایران کی جو لاٹری نکلی تھی اس کے ثمرات واضح طور پر دکھائی دینے لگے تھے۔پیسے کی ریل پیل نے ایران کی شکل اور ایرانیوں کا حلیہ بدل کر رکھ دیا تھا۔ملکوں ملکوں شہنشاہ ایران کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے تھے۔جب خوشحالی آتی ہے تو بہت سی معاشرتی تبدیلیاں بھی ساتھ لاتی ہے ۔ اسی تبدیلی کو بے راہ روی قرار دے کر امام خمینی کے انقلابی سراپا احتجاج تھے مگر اتنے سرگرم نہ تھے کہ کسی تبدیلی کا موجب بن سکیں ۔ایسے میں مغرب سے ایک مصنف اٹھا اور1975 میں ایک ناول لکھ ڈالاجس کا نام تھا Crash-79 ۔یہ ایران کے بے چین مستقبل کی ایک فرضی کہانی تھی۔اس کہانی میں شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کو اپنی برتری کا مغالطہ ، تیل کی قیمتوں کا نشہ اور ایران کی حکمرانی کا غرور جیسے مرض لاحق ہو جاتے ہیں۔کہانی کے مطابق شہنشاہ کا دور حکومت 1979 میں ختم ہو جائے گااور یہ کوئی خاتمہ بالخیر نہیں ہو گا بلکہ شکست و ریخت کا ایک بہت بڑا دھماکہ ہو گا۔ لوگوں نے ناول نگار کی خیال بافی اور جرأت کی داد دی مگر دھماکے والی بات کو محض کتاب فروشی کا ایک تاجرانہ حربہ قرار دیا۔پڑھنے والوں کا خیال تھا کہ وفادار فوج ، جانباز شاہی گارڈز،بے انتہا دولت جس سے ہر شخص کو خریدا جا سکتا تھا، بے حد سفاک فورس جو ہر ایک کو اس کی حد میں رکھنے پر مامور تھی ، امریکہ کی تائید و سرپرستی اور ڈھائی ہزار سال پرانی شہنشاہیت ، یہ شخص کتنا جم کر بیٹھا تھا اسے صرف ناول میں ہی تخت سے اتارا جا سکتا تھا، سب جانتے تھے کہ حقیقت میں ایسا ممکن نہیں۔ مگر پھر1979ء آیا اور وہی دھماکہ ہوا جس کی پیش گوئی کی گئی تھی۔یہ کہانی انقلاب ایران کے چشم دید گواہ ، ایران میں پاکستان کے سفیر اور اردو کے معروف نثر نگار مختار مسعود نے اپنی شاہکار کتاب ’’لوح ایام‘‘ میں تحریر کی ہے ۔کہنے والے کہتے ہیںکہ ایران کی ترقی امریکی مفادات سے ٹکرا رہی تھی اور یہ کہ Crash-79 نامی یہ ناول امریکی ایجنسیز کی جانب سے لکھوایا گیا۔ایران تیل کی مدد سے دنیا کو بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں آ گیا تھا،تیل کی طاقت کے ذریعے بدلتے ایران کو دیکھ کر امریکہ سخت تکلیف اور تشویش میں مبتلا ہو گیااور اپنا دست شفقت انقلابیوں کے سر پر رکھ دیا۔جیسا کہ یہ ماننے والوں کی بھی ایک معقول تعداد آپ کو مل جائے گی کہ پاکستان میں بھٹو سے ناراض ہو کر امریکہ نے اپنا دست شفقت پی این اے سے تعلق رکھنے والے احتجاجیوں کے سر پر رکھ دیاتھاورنہ بھٹو کے اس انجام کا تصور بھی نہیں کیا جس سکتا تھا۔آپ اس فلسفے سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں اور اختلاف بھی مگر مصری صحافی محمد حسنین ہیکل کے نظریے سے مکمل اختلاف کرنا ممکن نظر نہیں آتاکہ مغرب عالمی ذرائع ابلاغ پر اتنی دسترس رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے تیسری دنیا کے کسی بھی لیڈر کو سارے جہان میں بدنام کرنے کی مہم چلا کر پنجرے میں بند پرندے کی طرح بے بس کر دے جیسا کہ اس نے صدام حسین اورمعمر قذافی کے ساتھ کیا یا جیسا اس نے وکی لیکس کے ذریعے دنیا کے معززین کے راز فاش کر کے کیا۔ یا پھر پانامہ سکینڈل کو بے نقا ب کر کے تیسری دنیا میںافراتفری پھیلائی گئی جس سے کئی سربراہان مملکت کو گھرکی راہ لینا پڑی۔دوسری طرف وہ جب چاہے تیسری دنیا کے کسی بھی لیڈر کو خواہ وہ کتنا ہی نکما کیوں نہ ہو اتنا عظیم و بے مثال اور ایسا نابغہ ٔ عصر بنا کر پیش کر دے کہ لوگ اس بات پر فخر کرنے لگیں کہ وہ اس کے زمانے میں پیدا ہوئے تھے۔محمد حسنین ہیکل کا کہنا تھا کہ مغرب کو شخصیت سازی کے فن میں اتنا ہی کمال حاصل ہے جتنا کردار کشی کے فن میں ۔ حکمرانی کے اصول سپر پاورز طے کرتی ہیں ۔ اصول کچھ نہیں ہوتے ،طاقتور کے مفادات کے تحفظ کا فارمولا ہوتا ہے۔یہ فارمولہ امریکہ صرف شخصیات کے لیے ہی نہیں ملکوں کے لیے بھی استعمال کرتا ہے ۔کب کسی ملک کو دہشت گرد بنا کر اس پر حملہ کرنا ہے ، کب کہاں اپنی فوج بھیج کر قبضہ کرنا ہے اورکب یہ کام اقوام متحدہ کے امن مشن کو بھیج کر سرانجام دلانا ہے۔ کس ملک کے دہشت گردانہ اقدامات کو نظر انداز کر نا ہے، کس ملک پر ایف اے ٹی ایف کے شکنجے کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ہے اور کہاں براہ راست بم مارنا ہے ۔کب انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیار کرنی ہے اور کب ان پر تشویش کا اظہار کرنا ہے ۔ طاقتور کا اصول بڑا سادہ سا ہے۔ خود کو سپر پاور برقرار رکھنے کے لیے مرتب کی جانیوالی پالیسی کو مفادات یا ’’Interests‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ٹرمپ کی طرف سے پہلی ٹویٹ کی گئی کہ قاسم سلیمانی کے اقدامات امریکی مفادات کو نقصان پہنچا رہے تھے ۔ گویا طاقتور کے مفادات کو نقصان پہنچانا جرم ہے جس کی سزا موت بھی ہو سکتی ہے ۔گویا جنگ مفادات کے مفادات سے ٹکرائو کا نام ہے ۔گویا امریکہ اپنے مفادات کے لیے دنیا بھر میں اڈے بنانے اور اربوںڈالر کے ہتھیار بنانے سمیت تمام اقدامات کر سکتا ہے لیکن ایران اپنے مفادات کے لیے یورینیم افزودہ نہیں کر سکتا۔ایران اپنے مفادات کے لیے قاسم سلیمانی کو سرحد پار کوئی ٹاسک بھی نہیں سونپ سکتا۔ایران کے مفادات امریکہ کے مفادات سے ٹکرا رہے ہیں ، بالکل ایسے ہی جیسے سی پیک کے معاملے میں پاکستان کے مفادات امریکہ کے مفادات سے ٹکرا رہے ہیں۔ تو طے پایا کہ چھوٹے ممالک کو چاہیے کہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر سپر پاورز کے مفادات کے سامنے سر جھکا دیں جیسے پاکستان نے ملائشیا نہ جا کر اسلامی سپر پاور سعودی عرب کے مفادات کے آگے سر جھکایا۔ ان اصولوں کی روشنی میں طے پایا کہ خود کو سپر پاور برقرار رکھنے کے لیے طاقتور کو جن وسائل کی ضرورت ہے ان کا حصول اس کا حق ہے ۔افریقی ملک کانگو سے لیکر نائجیریا تک جہاں جہاں وسائل موجود ہیں ، وہاں وہاں پہلے بد امنی پھیلانے والی تنظیمیں قائم کرنے، انہیں ہتھیار دینے اور پھر امن کے حصول کیلئے اقوام متحدہ کے امن مشن اتارنے اور اس امن مشن کی نگرانی میں وسائل اکٹھے کر کے اپنے ملک لے جانے کے عمل کو’’ مفادات کا تحفظ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس کیلئے گاہے ’’Weapon of Mass Destruction‘‘ کا نعرہ لگایا جا سکتا ہے،کبھی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا نام دیا جا سکتا ہے اور کبھی ڈکٹیٹر شپ سے عوام کی جان چھڑانے کا بہانہ تراشا جا سکتا ہے ۔ آج کی اس سوفیسٹیکیٹڈ (Sophisticated ) دنیا نے آنے والی نسلوں کے لیے فقط یہی اصول مرتب کیے ہیں۔