بینجمن فرنیکلن نے کہا تھا کہ یا تو کچھ پڑھنے کے لائق لکھو یا پھر کچھ ایسا کرو کہ دوسرے لکھنے پر مجبور ہو جائیں۔گزشتہ دنوں برادرم اشرف شریف نے ’’ارمغان لاہور‘‘ آثار‘ شخصیات ‘ احوال ہدیہ کی۔ سوچا لاہور کی تاریخ پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں یہ کتاب بھی ایسا ہی کچھ اضافہ ہو گا ۔کتاب کی پشت پر معروف دانشور ،ادیب ،محقق مستنصر حسین تارڑ کی تحریر نے چونکا دیا۔ارمغان لاہور کے بارے میں لکھتے ہیں’’ موہنجوڈارو یا ہڑپہ کے نیچے بھی اور تہیں ہیں ان کی کھدائی پوری کی پوری نہیں ہوئی۔لاہور کی جو کھدائی اشرف شریف نے کی ہے میں اسے ایک آرکیالوجسٹ بھی سمجھتا ہوں‘‘ تجسس بڑھنے پر کتاب کے مضامین کی فہرست دیکھی تو تارڑ صاحب کے ان الفاظ پر یقین ہونے لگا ’’جو مصنف ہوتا ہے محقق ہوتا ہے وہ پرانی تہذیبوں کو دریافت کرتا ہے۔ لوگوں کو سامنے لاتا ہے‘۔‘ ارمغان لاہور کی فہرست دیکھنے سے کتاب کو پڑھے بغیر رکھ دینا ممکن نہیں رہا۔پہلا مضمون براڈلے ہال: لاہور کی پہلی جدید سیاست گاہ پڑھنے کے بعد بخوبی اندازہ ہو گیا کہ مصنف مورخ سے زیادہ محقق اور محقق سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔اسے تاریخی عمارات سے زیادہ ان عمارتوں کا ماضی جاننے میں دلچسپی ہے۔ ان کی خواہش صرف یہ جاننا نہیں کہ عمارت کس نے کب اور کیوں بنائی بلکہ یہ کھوجنا ہے کہ اگر واقعی اہمیت کی حامل تھی تو ماضی کے یہ نقش مٹ کیوں رہے ہیں اور ان کو مٹایا کیوں جا رہا ہے ۔مصنف اپنا یہ دکھ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے ’’آزادی کے بعد براڈلے ہال کئی طرح سے استعمال ہوا۔ 1956ء میں براڈلے ہال اور اس کے نواحی علاقوں میں سیلابی پانی جمع ہو گیا تو عمارت نیشنل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے حوالے کر دی گئی ہال کی پیشانی پر قرآنی آیات کا نقش اسی زمانے کی یادگار ہے‘‘ اگلی سطر پر لکھا ’’مین گیٹ پر ایک تالا ڈال کر سمجھ لیا گیا کہ حفاظت کا انتظام ہو گیا۔ یہ پرشکوہ عمارت کھنڈر کیوں بنی مصنف نے یہ کھوج لگانے کی بھی کوشش کی۔’’1946ء میں جب مسلم لیگ نے یہاں کانگریس کی تقریب کی مخالفت کی تو اس کے بعد ہال میں کوئی تقریب نہ ہو سکی۔ ارمغان لاہور میں براڈلے ہال کا صرف نوحہ ہی نہیں لکھا گیا بلکہ تجویز بھی ہے کہ ’’ ہال کو مقامی سرگرمیوں کی یادگار اور عجائب گھر کے طور پر محفوظ رکھا جا سکتا ہے‘‘۔ اشرف شریف نے لاہور کی عمارتوں میں لاہور کی تہذیب تلاشنے کی کوشش کی ہے۔ انہیں ملبے کے ڈھیر میں پراسراریت کھوجنے کا جنون ہے۔ مصنف وزیر خاں مسجد اور وزیر خان کی بارہ دری کے دریچوں سے جھانک کر اس کی تہوں سے حکیم علم الدین کی کہانی کھو ج نکالتا ہے۔ اشرف شریف کے لئے صرف معروضیت اہم نہیں بلکہ جو نظر نہیں آ رہا ان کی نظریں وہ دیکھنے اور دکھانے کی جستجو کرتی ہیں۔ یہ جستجو انہیں جب ایشیا کی سب سے بڑی الیکٹرونکس کی مارکیٹ ہال روڈ لے کر جاتی ہے توان کا تجسس انہیں تاریخ پر پڑی گرد جھاڑتا ہوا ہال روڈ سے لکھی محلہ تک لے جاتا ہے۔ رابرٹ فراسٹ لکھتا ہے کہ جب تک پڑھنے والا لکھتے ہوئے آنسو نہ بہائے تب تک پڑھنے والے کے آنسو بھی نہیں نکلتے، مصنف میں تعجب ہو گا تب ہی پڑھنے والا تعجب میں غرق ہو گا۔ کتاب’’ ارمغان لاہور۔۔۔ آثار، شخصیات، احوال‘‘ میں تجسس ‘ تعجب سے بھی کچھ سوا ہے۔سوا اس لئے کہ لکھنے والا لکھی جانے والی مٹی سے جڑا ہے۔ جان بروز نے مٹی سے جڑے شخص کو زمین زاد بتایا ہے بروز کہتا ہے کہ’’ کسی بھی علاقے میں رہنے والا شخص اس گھر اور علاقے میں اس وقت تک گملے میں لگے پودے کی طرح ہوتا ہے جب تک وہ اپنے پائوں کے تلوئوں کے پیار اور مقناطیسی لمس سے مٹی سے رابطہ نہ کر لے ‘‘۔اشرف شریف ارمغان لاہور شاید کبھی نہ لکھ پا تے اگر ان کے تلوئوں کے پیار اور مقناطیسی لمس کا اپنی مٹی سے رابطہ نہ ہوتا۔ یہ مٹی سے لمس کا رابطہ ہی ہے جو ان کو شاندار عمارتوں کی تہوں میں دفن آثار الصنادید کی آواز بن کر اپنی تباہی کی کہانی سنا نے پر مجبور کر رہا ہے۔ برکت علی محمڈن ہال کے آثار سے اشرف شریف نے کان لگائے تو ہال نے اپنی بپتا سنائی کہ’’ آزادی کے بعد لاہور پر اجنبی قابض ہونے لگے یہ لوگ قوم کے محسنوں کی یادگاروں کو لاوارث سمجھ کر مٹا رہے ہیں‘‘ ہال روڈ کی عمارتوں سے آوازیں آنے لگتی ہیں ’’کاروباری لالچ نے شہر کی تاریخ کو بینرز، ہورڈنگز اور تجاوزات میں چھپا دیا ہے‘‘۔’’لاہور بھر کی شاندار عمارتوں کو اکھاڑنے والے کشمیری خشت فروشوں نے دروازے اور برجوں کی اینٹیں فروخت کر دی ہیں‘‘۔مصنف تہذیب مٹانے کی کوشش کرنے والوں کا بلا امتیاز احتساب کرتا ہے بھلے وہ شیر شاہ سوری کی صورت میں لاہور پر نازل ہونے والی آفت ہو یا پھر رنجیت سنگھ اور احمد شاہ ابدالی کی غارت گری۔ ارمغان لاہور میں جہاں تہذیب مٹانے والوں سے بے زاری سے بڑھ کر نفرت ملتی ہے تو وہاں شہر کو آباد کرنے والوں کے لئے احترام سے زیادہ محبت محسوس ہوتی ہے۔ بھلے ہی وہ دیوان لکھپت رائے کا کوٹ ہو یا پھر سرگنگارام کی لاہور سے محبت۔ مصنف جہاں تہذیب مٹانے والوں کے چہرے سے نقاب اتارتا ہے وہاں شہر بنانے والوں پر ایک زمین زاد کی طرح عقیدت کے پھول بھی نچھاور کرتا ہے۔ اسے بلخ بخار ے کی بجائے ’’ چھجوکاچوبارہ‘‘ میں دلکشی نظر آتی ہے۔ رنجیت سنگھ کی تباہی اور بربادی کا ذکر کرتا ہے تو اس کی تعمیرات کو بھی فراموش نہیں کرتا۔ میانی صاحب کے قبرستان سے پنج ڈھیر گائوں کھوج نکا لتا ہے تو رائے ونڈ روڈ پر گم ہونے والی رکھ کھمبہ بھی اشرف شریف کی نظروں سے اجھل نہیں رہ پاتی۔ کتاب پڑھنے سے پہلے ارمغان لاہور کا مطلب آپ ہدیہ لاہور سمجھیں گے مگر پڑھنے کے بعد فرہنگ آصفیہ کے مطابق ارمغان لاہور آپ کے لئے ایک انوکھی اور نادر دستاویز بن جائے گی۔ البرٹ کاموس نے کہا ہے کہ ایک مصنف کا مقصد تہذیب کو اور اپنے آپ کو تباہ ہونے سے بچانا ہوتا ہے۔ ارمغان لاہور میں اشرف شریف نے لاہور اور لاہوری تہذیب کو بچانے کی اپنے تئیں بھرپور کوشش کی ہے۔ کتاب بینجمن فرنیکلن کے قائم کردہ معیار کچھ پڑھنے کے لائق لکھو پر ہی پوری نہیں اترتی بلکہ دوسروں کو لکھنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔