پاکستان میں معاملات کس طرح چلتے ہیں اور فیصلے کون کس انداز میں کرتا ہے ؟ یہ سوال ہمیشہ ،ہر سطح پر اٹھتا ہے اور مستقبل قریب میں بھی اٹھتا رہے گا ۔ اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے دو ایک واقعات نظر قارئین کرتا ہوں‘ بے نظیر بھٹو پہلی خاتون وزیر اعظم بن چکی تھیں‘ غلام اسحق خاں صدر پاکستان تھے اور جنرل اسلم بیگ بری فوج کے سربراہ ‘ سینیٹر حسین بخش بنگلزئی سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین تھے۔راقم الحروف بھی اس کمیٹی کا ممبر تھا۔راولپنڈی جنرل ہیڈ کوارٹر میں سینٹ کمیٹی کو جنرل اسلم بیگ نے بریفنگ دی‘بریفنگ کے بعد فوج کے افسران اور کمیٹی کے ممبران دوپہر کے کھانے کے لئے دوسرے کمرے میں جمع تھے‘میں ہاتھ دھونے کے لئے واش روم کی طرف چلا، جب باہر آیا تو اسلم بیگ قریب ہی برآمدے میں تنہا کھڑے تھے، دیکھتے ہی بولے‘ چودھری صاحب میں آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا‘ کچھ ضروری بات کہنا تھی، جی فرمائیے :اسلم بیگ نے کہا :بے نظیر بھٹو قومی سلامتی کے لئے خطرناک ہو چکی ہیں اور عوام میں ان کی مقبولیت بھی نہیں رہی‘ میں نے کئی بار صدر صاحب سے گزارش کی ہے کہ اسے حکومت سے الگ کرنے کے لئے اسمبلیاں توڑ دی جائیں ،ہمارے پاس اس کے خلاف بہت کچھ شہادتیں موجود ہیں لیکن صدر صاحب بات سن نہیں رہے‘میں چاہتا ہوں آپ اس بارے میں صدر صاحب سے بات کریں، وہ آپ کی بات سنتے ہیں‘ ہم سیاستدانوں کا خیال ہے کہ دراصل طاقت کا محور فوج ہے‘ اسی کا فیصلہ حتمی ہے اور صدر پاکستان انہی کی مرضی اور منشا کے مطابق ہی کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔مختصر یہ کہ غلام اسحق صاحب صدر پاکستان سے ملاقات ہوئی ،انہیں اپنے تاثرات اور جنرل اسلم بیگ سے ہونے والی بات چیت سے آگاہ کیا، تو صدر مملکت نے کہا: بیگ صاحب کئی بار تشریف لائے اور ہر بار ان کا مشورہ یہی ہوتا ہے، اب وہ اکتا سے گئے ہیں لیکن میرا مسئلہ یہ ہے کہ صرف فوجی سربراہ کا کہنا اور فوج کی طاقت کافی نہیں ہے ،اس کام کے لئے عوام کی حمایت اور رائے عامہ تیار کرنا بھی ضروری ہے۔اس کے لئے تو کوئی کچھ بھی نہیں کر رہا‘ جنرل حمید گل بھی آئے تھے، ان سے بھی یہی بات ہوئی تھی‘ جب تک عوام کی طرف سے آواز منظم نہ ہو، تو بڑی مشکل پڑتی ہے‘ اس ڈرامے کا ایک ایکٹ اور بھی ہے‘ جو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا ،جس کا ہم بھی حصہ تھے، فخر امام اور عابدہ حسین کے گھر میں ہم لوگ جمع تھے‘ یہی موضوع زیر بحث تھا اور عابدہ حسین صدر صاحب پر بھی خاصی ناراض تھیں کہ ان کی وجہ سے بے نظیر اب تک حکمران تھی ،ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ اب تک اسے چلتا نہیں کر دیا جاتا۔اسی دن وہ صدر مملکت سے مل کر آئی تھیں، سارا قصہ بیان کرنے میں بات لمبی ہو جائے گی۔اب دوسرا واقعہ عرض کرتا ہوں اگرچہ صدر مملکت غلام اسحق ہی تھے مگر وزیر اعظم اور فوج کے سربراہ بدل چکے تھے‘ نواز شریف وزیر اعظم بن چکے تھے اور آصف نواز جنجوعہ کمانڈ انچیف تھے‘ بری فوج کے مرکزی دفتر کے اسی ہال میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی دفاع کو بریفنگ دی گئی‘ بریفنگ فوج کی آصف نواز صاحب نے دی‘ بریفنگ کے بعد اسی کمرے میں ہم لنچ کے لئے آئے‘ راقم الحروف باتھ روم گیا‘ جب باتھ روم میں تھا، تو محسوس کیا کہ باہر کوئی شخص واش بیسن کے پاس موجود ہے حالانکہ بہت سے باتھ روم تھے لیکن وہ ان میں نہیں گیا‘ باہر نکلا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، یہ دیکھ کر وہ ہمارے کمانڈر انچیف تھے۔جناب آصف نواز‘ مجھے دیکھتے ہی گویا ہوئے ،ضروری بات تھی جو دوسروں کے سامنے کرنا مناسب نہیں تھا، اس لئے آپ کے پیچھے آ گیا ہوں‘ آپ کا وزیر اعظم نواز شریف بالکل ناقابل برداشت ہو چکا ہے‘ وہ بھی غلط راہ پر نکل پڑا ہے‘ افواج پاکستان کے خلاف اس نے بڑی مہم شروع کر رکھی ہے‘ نذیر ناجی اس پانچ رکنی پراپیگنڈہ مشینری کا سربراہ ہے‘ غلام اسحق خاں کی مدت صدارت کے بعد اس نے اپنے والد میاں شریف کو صدر پاکستان منتخب کروانے کا بندوبست کر رکھا ہے‘ پھر یہ بہت خطرناک ہو جائے گا‘ گزشتہ دنوں ہم یعنی (صدر اور فوج کا سربراہ) ٹیکسلا گئے تھے، میں نے انہیں ایک فائل دی ہے، جس میں فوج کے خلاف نواز شریف کی سازش‘تقسیم اور والد کو صدر بنانے کا سارا منصوبہ اس میں موجود ہے‘ لیکن صدر پاکستان ہمارے اصرار کے باوجود کوئی عملی قدم نہیں اٹھا رہے‘ میں جانتا ہوں آپ کے ان کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں‘ آپ انہیں یہ بات سمجھائیں کہ ان کے اسمبلی توڑنے سے مسئلہ پرامن حل ہو جائے گا‘ اگر مجھے یہ کام کرنا پڑا تو ان غدار کالم نویس اور وزراء سمیت بہت سے بدکردار جان سے جائیں گے‘ آپ ان سے فوراً بات کریں‘ ہم جلدی ہی پھر ملیں گے! ہاں ایک اور بات ان کا ملٹری سیکرٹری عجائب خاں نواز شریف کا آدمی ہے‘ آپ بھی اسی سے محتاط رہیں۔ کرنل عجائب کے بارے صدر پاکستان کے سیکرٹری فضل الرحمن مجھے پہلے ہی خبردار کر چکے تھے۔صدر صاحب سے ملٹری سیکرٹری کے بارے میں بات کی تو کہنے لگے ’’جنرل جنجوعہ نے مجھے کہا تھا نواز شریف سے اس کا تعلق پلاٹوں کی رشوت سب معلوم ہے‘ میں نے جنجوعہ سے کہا تھا :انہوں نے انگریزی کا ایک محاورہ دہرایا جس کا مفہوم تھا کہ ’’وہ شیطان ہمارے لئے بہتر ہے جس کو ہم جانتے ہیں کہ وہ شیطان ہے‘اس کے مقابلے میں جس کو نہیں جانتے‘‘ مختصر یہ کہ فیصلہ سازی کا اختیار تین حصوں میں برابر تقسیم تھا۔صدر‘ وزیر اعظم اور بری فوج کا سربراہ۔قطعی فیصلہ کرنے کے لئے ان میں سے دو کا اتفاق ضروری تھا۔