ٰصرف چوبیس گھنٹے میں منظر ہی بدل گیا۔ کل دوپہر تک گذشتہ کالم ضبطِ تحریر میں لا چکا تھا تو عمران خان کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر کئی گھنٹے تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے قوم کو ایک اُمید سے باندھنے کی کوشش شروع کر دی۔ یوں لگنے لگا جیسے مملکت ِ خداداد پاکستان میں عدالت اور حکومت کے درمیان جس کشمکش کا آغاز چند ماہ پہلے ہوا تھا، اور چودہ مئی تک حکومت کو دی گئی مہلت باقی ہے۔ لیکن صرف چند ہی گھنٹوں میں ملک کا منظرنامہ ہی بدل گیا اور رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ایک ایسا حکم جاری کیا، جس کے تحت سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پولیس کو توہینِ عدالت کے جرم میں نوٹس جاری کئے گئے، مگر جس توہینِ عدالت کے جرم کے نتیجے کے طور پر عمران خان کو گرفتار کیا گیا، اسے جائز قرار دے دیا گیا۔ یہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے عدالتی نظام کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ اس فیصلے کے بعد وہ عدالتیں جو ریاستی جبر یا ناجائز مقدمات کے معاملے میں جائے امان سمجھی جاتی تھیں اور جہاں پہنچ کر ایک ملزم یہ تصور کر لیتا تھا کہ اب اسے یہاں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ملے گا اور اگر اس نے اپنی صفائی میں جاندار دلائل دے دیئے، تو پھر اسے پولیس کے حوالے نہیں کیا جائے گا، یا اگر وہ عدالت کو قائل کرنے میں ناکام بھی ہو گیا تو کم از کم عدالت کے احاطے میں اسے گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے عدالت پر بھروسے کی کئی سو سالہ روایت کا خاتمہ کر دیا۔ اس روایت کا خاتمہ تو دراصل سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد نے کر دیا تھا، مگر عدالت نے انہیں مجرم اور جرم کو درست قرار دے کر عدالتی احترام کی وہ دیوار چکنا چُور کر دی۔ یہ ایک خطرناک روایت کا آغاز ہے۔ عین ممکن ہے کہ بھری عدالت میں کسی مفرور شخص کو جو پولیس کے ناجائز مقدمات سے بھاگ کر عدالت میں پہنچا ہو، پولیس اسے بھری عدالت میں پولیس مقابلے میں قتل کر دے اور پھر توہینِ عدالت پر معافی مانگ لے۔ ایسا کچھ کل بھی ہو سکتا تھا، لیکن عمران خان کی قسمت اچھی تھی کہ تصادم سے پہلے ہی اسے وہاں سے نکال لیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سنانے سے پہلے ہی عمران خان کو احاطۂ عدالت سے گرفتار کرنے کا جو جرم سرزد ہوا اور جس پر توہینِ عدالت کے نوٹس بھی جاری ہوئے، وہ معمولی جرم نہیں ہے۔ اس ایک جرم نے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی اس اُمید کو توڑ دیا جو عدالتی نظام کے کمزور دھاگے سے بندھی ہوئی تھی۔ کسی بھی عدالت کا ایک غلط فیصلہ قوموں کی تاریخ میں صدیوں تک اپنے زخم ہرے رکھتا ہے۔ جسٹس محمد منیر کے 1954ء اور 1958ء کے فیصلوں کے زخم اس وقت ایک بار پھر ہرے ہو جاتے ہیں جب کوئی طالع آزما اقتدار پر قابض ہوتا ہے اور اسکے خوف سے پورا نظام عدل بھی اسکی مٹھی میں آ جاتا ہے، پھر اس خوف کا پہرہ اور مصلحت کی چادر تلے معاشرے میں بسنے والے انسان انصاف سے نااُمید ہو جاتے ہیں۔ 9 مئی 2023ء کو جو کچھ ہوا اور لوگ جس طرح بے قابو ہوئے یہ 75 سالہ تاریخ کے ایک تسلسل کا نتیجہ ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ فرعون صفت حکمرانوں نے اگر اپنی حکومتوں میں عدل کی اُمید کے طور پر عدالت کی ایک کھڑکی کھلی رکھی تو تاریخ اس معاشرے میں ہمیشہ امن و اطمینان کی تصدیق کرتی ہے۔ دنیا کی کسی زبان یا کسی بھی معاشرے کی کہانیاں، لوک داستانیں یا گیت اور شاعری نکال کر دیکھ لیں تو آپ کو اچھے حکمران کی تعریف ان الفاظ میں ملے گی، ’’ایک تھا بادشاہ، جو اس قدر انصاف پسند تھا کہ اس کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے‘‘۔ بادشاہوں کے خلاف بغاوت کی وجوہات تلاش کریں، تب بھی ایک یہی وجہ نظر آتی ہے کہ اسکے دور میں انصاف نہیں تھا۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ تاریخ میں ظالم بادشاہوں کے خلاف عوامی تحریکیں تو محض چند ایک ہیں، باقی ظالموں کا کیا حشر ہوا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جو بادشاہ بھی ظالم ہوتا تو رعایا اس پر کسی دشمن کے حملے کی اُمیدیں لگاتی، بلکہ خفیہ طور پر اسے دعوت دیتی اور جب دشمن ان کے ملک پر حملہ آور ہوتا تو ظالم بادشاہ کی فوج مقابلے کیلئے اکیلی رہ جاتی اور عوام اسکی شکست کا تماشہ دیکھتے۔ کسی دوسری قوم یا مذہب کی تاریخ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ بنو عباس کے خلیفہ مستعصم باللہ کے دور میں جب ظلم و ستم عام ہوا اور لوگ عدالتوں سے مایوس ہو گئے تو اسی کے اپنے وزیر ابن علقمی نے ہلاکو کو حملہ کرنے کی دعوت دی، جس نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور خلقت کھڑی اہلِ اقتدار اور اس کی فوج کے قتل کا تماشہ دیکھتی رہی۔ یہاں تاریخ ایک واقعہ بیان کرتی ہے کہ بغداد کے بازار میں ایک عورت نے ہلاکو کا گھوڑا روکا اور کہا کہ میں بددُعا دیتی ہوں کہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل کرے۔ ہلاکو نے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا ’’اللہ کا عذاب تو میں خود ہوں جو تم لوگوں پر نازل ہوا ہے‘‘۔ پاکستان میں بھی نظامِ عدل کی تاریخ بہت تاریک ہے۔ اس میں کبھی کبھی روشنی کی کرن وقفے وقفے سے نظر آتی ہے لیکن پھر مہیب تاریکی اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہی عدالتی نظام پانچ سال عوامی اُمنگوں کے خلاف حکومتی خواہشوں پر فیصلے کر رہا تھا۔ ایک پارٹی تھی ’’نیشنل عوامی پارٹی‘‘ جس کی دو صوبوں بلوچستان اور سرحد میں حکومت تھی، اس پر سپریم کورٹ نے ہی غدّار اور دہشت گرد کا الزام لگا کر پابندی لگا دی تھی۔ حیدر آباد ٹربیونل میں ولی خان، بزنجو، عطاء اللہ مینگل اور حبیب جالب پر غدّاری کا مقدمہ چلا اور خوفزدہ عدالت بالکل ویسے ہی جیل میں لگتی تھی جیسے عمران خان کے ریمانڈ کے لئے جج پولیس لائنز لائے گئے۔ اگر اس وقت جج حیدر آباد کیس میں جیل جا کر عدالت اپنی نہ لگاتے تو بلوچستان زخم جو بار بار ہرے ہو جاتے ہیں ان پر مرہم رکھا جاتا۔ اسکے بعد 1977ء میں جو تحریک چلی، اس کے سامنے تمام سویلین نظام جانبدار اور ظالم تھا لیکن عوام کے ذہنوں کے لاشعور میں کہیں نہ کہیں ایک اُمید کی روشن کرن موجود تھی، جس کا اظہار عوام نے اس وقت کیا جب ضیاء الحق نے مارشل لاء لگایا۔ لیکن ضیاء الحق سے لے کر مشرف اور پھر بے نظیر سے لے کر شہباز شریف تک عدالتوں نے جو فیصلے کئے اس نے عوام کو پاکستان کے ہر ادارے سے بدظن کر دیا۔ 1977ء میں وہ اس اُمید پر لڑتے رہے کہ کہیں تو سُکھ کا سانس ملے گا، انصاف ہوتا نظر آئے گا لیکن جب اعلیٰ عدالتوں کے ججوں نے ہی ریٹائرمنٹ کے بعد مقتدر قوتوں کے ہاتھوں اپنی بے بسی کی داستانیں سنانا شروع کیں تو لوگوں کا غصہ صرف اور صرف ایک جانب مرکوز ہوتا چلا گیا، چند دن پہلے تک عمران خان کے کہنے پر لوگوں نے چودہ مئی تک سپریم کورٹ سے اُمیدیں وابستہ کر لیں تھیں، ایک بار پھر خواب دیکھنا شروع کر دیئے تھے۔ مگر اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہینِ عدالت نے ان کی اُمیدیں چکنا چُور کر دیں۔ اب اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کا غصہ ہے کہ جس کی سمت بہت خوفناک ہے۔ گذشتہ تحریکوں کا تجربہ بتاتا ہے کہ جب بھی قیادت گرفتار ہوتی ہے تو ہجوم جس سمت چاہے نکل جائے۔ تحریکیں کسی نعرے کی محتاج نہیں ہوا کرتیں۔ اجتماعی نفسیات کا اُصول یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے زخم لیکر نکلتا ہے، کسی کے بیٹے نے خودکشی کی ہوتی ہے، کوئی پولیس کے مظالم سہہ چکا ہوتا ہے، کسی کی جائیداد پر قبضہ کیا ہوتا اور کسی کے گھر میں کئی دن سے فاقہ چل رہا ہوتا۔ ان سب کا غصہ باہم اکٹھا ہو جاتا ہے اور پھر ان سب کا نشانہ صرف ایک ہوتا ہے جسے وہ چاہیں منتخب کر لیں۔ اس عوامی غصے کو اگر کسی عدالتی فیصلے سے چودہ مئی سے بھی پہلے قابو نہ پایا گیا تو شاید بہت نقصان ہو جائے۔ ناقابلِ تلافی نقصان۔(ختم شد)