9مئی 2023منگل کو علیٰ الصبح اسرائیلی درندوں نے غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے پر اچانک فضائی حملے کئے جن میں10سے زائد فلسطینی مسلمان جن میں چار بچے اور پانچ خواتین بھی شامل ہیں شہید ہوئے۔اسے قبل2مئی 2023منگل کو اسرائیلی حراست میں فلسطین کا ممتاز جانباز خضرعدنان جو ارض فلسطین کی آزادی کا علم لیکر بدترین دہشت گرداسرائیل کی غنڈہ گردی کو للکارتا رہا، قبلہ اول اورسرزمین انبیاء کی بازیابی کے لئے اس نے اپنا سینہ آگے کردیا تھا اور رضائے رب العالمین پر دار ومدار رکھ کریہودی صہیونیت کاانکارکرتے ہوئے ڈٹاہواتھابالآخر صیہونی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوکراسرائیلی تعذیب خانے میں پابندسلاسل تھا، اپنے اوراہل فلسطین پر ڈھائے جانے والے مصائب وآلام کے خلاف86ایام یعنی کم وپیش تین ماہ سے بھوک ہڑتال پرتھااسی دوران اس کی شہادت واقع ہو ئی جس پر غزہ میں شدید غم وغصہ پایاجارہاتھا۔ اگرچہ طویل عرصے سے مسلسل ناکہ بندی کا شکار غزہ عملی طورپرایک جیل خانہ بناہوا ہے جہاں کے مکینوں کواسرائیلی دہشت گردی کا لگاتار سامنا ہے لیکن 13 اگست 2020ء کوا سرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین بدنام زمانہ معاہدے جسے’’ معاہدہ ابراہیمی‘‘ یا ابراہیم ایکارڈطے پاجانے کے بعداہل غزہ پر اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس رسوائے زمانہ معاہدے کے تحت عرب ممالک کے دوسرے سب سے بڑے سرمایہ دار اور قد و قامت کے اعتبار سے اہم ملک متحدہ عرب امارات فلسطینی مسلمانوں کو عملاًاسرائیلی درندے کے سامنے پھینک کرآیاتو اس کے بعد اسرائیلی درندہ بے خوف و خطر سرزمین فلسطین پر کھلے عام دھاڑتا اور چنگھاڑ رہاہے ۔ اس بے شرم معاہدے کے بعد اسرائیلی حملوں اوراسکی دھمکیوںسے اس امر کے بلیغ اشارہ مل رہے ہیں کہ وہ غزہ پرلگاتارحملے کرکے غزہ کی بچی کچی بستی کوتہہ وبالاکرنے کا ناپاک منصوبہ تیارکرچکاہے ۔وہ ببانگ دہل اورعلیٰ الاعلان کہہ رہاہے کہ غزہ پرحملے جاری رہیں گے۔اس کے تیوربتارہے ہیں کہ وہ عرب حکمرانوں کی دوستی کافائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینیوں کاخاتمہ کرنے پرتلاہواہے ۔ ایسادکھائی دے رہا ہے کہ اس بار پھر اسرائیل کے دہشتگردانہ حملوں پرعرب حکمرانوں کی تائید سکوتی اسے حاصل ہے ۔ گزشتہ برس 6 اگست2022 ہفتے کوسفاک اسرائیل کی جانب سے غزہ پرشروع کئے جانے والے حملوںمیںیر24فلسطینی کلمہ خواں شہیدجبکہ 200سے زائد زخمی ہو ئے تھے۔جبکہ اسے قبل سال2021میں 10مئی سے 21مئی یعنی11روزتک اسرائیل نے غزہ پرحملے کر کے اسے کھنڈربناڈالاتھا۔11روزتک غزہ پرمسلسل ا سرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بمباری سے دو ملین یعنی 20لاکھ نفوس کی آبادی پر مشتمل غزہ پٹی میں قیامت صغریٰ برپاہوئی ۔ غزہ کے طبی عملے کے مطابق ان گیارہ ایام کے دوران 250 افراد اسرائیلی بمباری سے شہیدجن میں سے 66کم سن بچے شامل تھے جبکہ 2000سے زائدزخمی ہوئے تھے جبکہ10لاکھ فلسطینی اسرائیل کی جارحیت سے متاثر ہوچکے تھے۔مالی نقصان پرجورپورٹ سامنے آئی تھی اس کے مطابق اسرائیلی جارحیت سے غزہ میں کم ازکم 15کروڑ ڈالرکامالی نقصان ہوچکاتھااور کمرشل عمارتیں، رہائشی فلیٹس اور گھر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں اورغزہ کھنڈربنادیئے گئے تھے۔ غزہ کی وزارت برائے ہاؤسنگ کے سیکریٹری ناجی سرحان کے مطابق کم ازکم2000عمارتیں ملبے کاڈھیربنادیئے گئے تھے۔ ان میں 18سو ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیں رہے ، ایک ہزار گھر ایسے ہیں جو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکے تھے جبکہ 53تعلیمی ادارے6اسپتال اور11بنیادی مراکز صحت بھی تباہ ہوچکے تھے۔4مساجدشہید جبکہ غزہ کی لوکل پولیس کے دسیومراکزبھی تباہ ہوگئے تھے ۔اسرائیل کی بمباری سے غزہ کا آب رسائی کانظام 50فیصد ناکارہ ہوچکا تھا۔ کاش آج اقبال زندہ ہوتے تواسرائیل کے ساتھ دوستی کی پیگنیں بڑھانے والے مسلمان ملکوں اورفلسطینیوں کی حالت زار پرایک طویل نوحہ لکھ دیتے اورزاروقطار روپڑتے ۔ دانائے راز،مفکرملت حضرت علامہ اقبالؒ کی بصیرت صورت حال کو بے پردہ دیکھ رہی تھی اور غیرت دلا رہی تھی ہے۔ اقبال نے ن امت کے ضمیر کو بھی بیدار کیاتھا اور انگریزوں کی فسوں ساز منصوبے سے باخبر رہنے کی تاکید بھی کی تھی۔1923 میں ناموس دین مصطفی کا سر بازار بکنا اقبال کو گوارا نہ تھا۔ ان کا یہ قول ضرب المثل بن گیا: آج مسلمان حکمران اسرائیل کے سامنے ڈھیرہوچکے ہیں اور روتے چیختے فلسطینی بچوں کی آوازوں کے عادی ہوچکے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ غزہ پراسرائیلی جارحیت پر ان کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی ۔مسلمانوں کو ذلیل و خوار کر کے غلامی کی زنجیر پہنا دی جائے، جو راز کن فکاں ہے اسے اسیر بنا دیا جائے، اور سب کے سب یہود نواز بنتے ہوئے اپنے ہی ممالک کو ان کے سپرد کر بیٹھیں، بار الہا!! غزہ کی آبادی تقریباً 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق لگ بھگ 6 لاکھ فلسطینی جنہیں یہود نے اپنے زیرقبضہ علاقے سے بے دخل کردیاہے بطور مہاجرین غزہ کے8پرہجوم کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں۔دنیاکے چھوٹے شہروں میںاوسطاً فی مربع کلومیٹر میں7سو سے زیادہ افراد مقیم ہیں لیکن غزہ شہر میں9ہزار سے بھی زیادہ لوگ مقیم ہیں ۔مصراورغزہ کے درمیان رفح کامقام سرحدکہلاتاہے جبکہ اسرائیل اورغزہ کے مابین ایریز کا مقام سرحدمانی جاتی ہے 2008 اور 2009 میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر چوہوں اور خرگوشوں کی طرح کثیف غیرعامل دھاتی دھماکا خیز مواد کا تجربہ کیا ہے اور اس جارحیت کے پہلے ہی دن 500 فلسطینیوں کو شہیدکیاگیا اور جارحیت کے12 دن بعد یہ تعداد1000 نفوس کے قتل عام سے بڑھ گئی جبکہ 2014کی اسرائیلی جارحیت سے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اورسینکڑوںفلسطینی شہید کردیئے گئے۔المختصراہل فلسطین پرکوئی سال ایسا نہیں گزرتاکہ جب انہیں اسرائیلی جارحیت اوراس کی بربریت کا سامنا نہیں ہوتالیکن معاہدہ ابراہیمی کے بعد اسرائیل کے پاگل پن میں بے پناہ اضافہ ہوچکاہے۔