انسان زیادہ سے زیادہ کتنا جی سکتا ہے۔پاکستان میں اوسط عمرساٹھ سال سمجھ لیجئے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے اپنی زندگی کے پچاس سال کامیابی سے گزار لیے ہیں جس کی وجہ آپ کی ڈھٹائی بھی ہوسکتی ہے تو جیسا کہ دستور ہے،اگلے دس سال اسپتالوں، ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر لگاتے گزریں گے۔غالب امکان ہے کہ چالیس کے پٹے میں آپ کو جوڑوں کا درد لاحق ہوجائے گا، کولیسٹرول کی سطح بلند ہوجائے گی، بلند فشار خون جو اب جوانی میں بھی معمول کامرض بن گیا ہے، یقینا آپ کو بھی نہیں چھوڑے گا۔ممکن ہے آپ نے اصلی ہارٹ سرجنوں کو بھاری معاوضہ دے کر کئی جعلی اسٹنٹ بھی لگوا رکھے ہوں جو کسی بھی وقت خود غرض کی یاری کی طرح تڑخ کر ٹوٹ جائیں اور تین دن بعد آپ کے کمینے رشتے دار آپ کے سوئم پہ دانتوں میں خلال کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں کہ بریانی میں بوٹیاں کم تھیں اور مرحو م میں خوبیاں۔پاکستان میں آپ جس طرز زندگی کے عادی ہیں وہاں یہ امراض آپ کو وقت سے پہلے یعنی صرف تیس سال کی عمر میں بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔چونکہ پاکستان میں حکومت ہو یا عوام ، صحت آخری ترجیح ہے، یعنی اس وقت جب ڈاکٹر اعلان کردے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا، بس مریض کو خوش رکھیں باقی اللہ کی مرضی تو پسماندگان جلدی جلدی وصیت تیارکرنے کے لئے وکیل کے چکر لگانا شروع کردیتے ہیں اور مریض گلی کے،جو اسے واک کا نام دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ساری عمر اینڈنے کے بعد بعد از نصف صدی، یہ واک اس کی زندگی بد ل دے گی۔ دیر آید درست آید کے مصداق ایسے مریضوں کی پھر بھی بچت ہوجاتی ہے لیکن باقی ماندہ عقل مند جو ڈاکٹر کی ہدایت پہ عمل کرتے ہوئے خوش رہنے کی کوشش کرتے اور امانت چن کی جگتوں اور دیسی گھی کے پراٹھوں سے یہ سوچ کر دل پشوری کرتے ہیں کہ کل ہو نہ ہو تو ان کی کل واقعی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں اکثر مڈل کلا س گھرانوں کا یہ دستور بھی ہے کہ آٹھ دس افراد پہ مشتمل کنبہ جس میں سربراہ کنبہ اور اس کی اہلیہ سے محبت کی آخری نشانی میں بس چند ہی سال کا فرق ہوتا ہے،سب سے بڑے رکن کنبہ کو سب مل کر وقت سے پہلے بڑا کرکے کسی کام پہ لگادیتے یا خلیجی ملک بھیج دیتے ہیں۔سربراہ کنبہ مع اہلیہ اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہتا ہے اور وٹس ایپ پہ فنی ویڈیوز دیکھ کر فلک شگاف قہقہے لگاتا اور خلیج والے بیٹے کو درد بھرے میسج اور دوائیوں کی تفصیلات بھیجتا ہے جن کی رو سے وہ تقریبا قریب المرگ ہے ۔چھوٹے بھائی جو ابھی انڈے سے نئے نئے نکلنے والے چوزے کی طرح گیلے گیلے سے ہوتے ہیں،دھواں دھار عشق فرما کر فیس بک پہ کسی بابا کی ڈول کو خودکشی کی دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں یا منہ در منہ ،منہ مارتے ہوئے اس کے دیگر عاشقوں سے پٹ رہے ہوتے ہیں۔نابالغ خواہشات بھائی کے خون پسینے کی کمائی سے سیراب ہوکر وقت سے پہلے جوان ہوجاتی ہیں۔رہ گئیں چھوٹی بہنیں تو ان کا کام صرف شادی کا انتظار اور اس دوران کچے پکے معاشقے چلانا ہے۔ الغرض کام کوئی نہیں کرتا جب تک کام کرنے والا ریشم کا کیڑا گردش دوراں کے کھولتے پانی میں اپنے کون میں ہی گھٹ کے نہ مرجائے یا دل کا مریض ہوکر ڈی پورٹ نہ کردیا جائے۔ ا س کے قلوں پہ سارا ٹبر مل کر سوچتا ہے کہ اب کس کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔اس قسم کے طرز زندگی کا نتیجہ قوم اور خاندان دونوں کے حق میں اچھا نہیں نکلتا۔ ہوتا پھر یہ ہے کہ ایک کثرت کار سے اور دوسرا کثرت آرام سے ایک قسم کے امراض کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں آپ پچاس سال کی عمر کے بعد اس قابل بھی ہوگئے کہ زندگی کو انجوائے کرسکیںتو زندگی آپ کو اس قابل چھوڑتی ہی نہیں ہے۔ آپ نے نصف صدی اسے بے توقیر اور نظر انداز کیا ہے۔ زندگی اپنا بدلہ لے کر رہے گی۔ آپ صبح اٹھے تو صرف اس لئے کہ دفتر جاسکیں اور کسی ایسے شخص کے لئے کما سکیں جسے آپ سے ہمدردی ہے نہ محبت۔ وہ آپ کو آپ کے کام کا معاوضہ ماہ کے آخر میں پکڑائے گا اور اس کے بدلے میں آپ کی صحت اور عزت نفس گروی رکھ لے گا۔ اگر آپ قسمت سے سرکاری نوکر رہے ہیں تو آپ کو پینشن اس وقت ملے گی جب اس کا بڑا حصہ آپ کی دوائیوں اور ان ڈاکٹروں کی جیب میں چلا جائے گا۔آپ کی رائے جو زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑہوگی،اس وقت تک بے معنی ہوچکی ہوگی کیونکہ آپ کو پتا ہی نہ چلا اور زمانہ قیامت کی چال چل گیا۔ جس اولاد کے لئے آپ نے اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی خوشی کو نظر انداز کیا،آج وہی آپ کو مشورہ دے گی کہ آپ اپنے کام سے کام رکھیں اور ان کے بچوں کے معاملات میں دخل اندازی نہ کریں۔ اگر آپ نے کاروبار کیا اور اپنی سہار سے زیادہ کما لیا ہے تو آپ ایک پنشن یافتہ بڈھے سے بھی زیادہ قابل رحم ہونگے۔ اس وقت جب آپ خوش رہ سکتے تھے، آپ نے کمانے کو ترجیح دی۔اب آپ خوش ہونا چاہتے ہیں تو نہ دل اجازت دیتا ہے نہ جسم۔آپ تو اپنی پسند کا کھانا تک نہیں کھا سکتے۔اگر آپ ایک مڈل کلاس ملازم پیشہ رہے ہیں تو آ پ کی ساری زندگی اپنی اور بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں قربان کرکے بچت کرنے میں بسر ہوگی تاکہ آپ سیمنٹ اور بجری سے ایک گھر بناسکیں۔اس کے لئے آپ اپنی ساری عمر دو کمروں کے ایک بوسیدہ سے کرائے کے مکان میں گزار دیں گے۔خود بھی ترسیں گے اور بچوں کو بھی ترسائیں گے۔ ساری عمر لگا کر آپ ایک ایسا گھر بنانے میں کامیاب ہوں گے جس میں بمشکل پانچ سال آپ کو رہنا نصیب ہوگا۔گھر بنانا ضروری نہیں۔اس میں رہنا ضروری ہے۔ بہت سے احمقوں نے اپنی ساری کمائی لگا کر آپ کے لئے گھر بنا دیے ہیں۔ آپ معقول کرائے پہ ان میں آرام سے رہ سکتے ہیں۔کیا ضروری ہے کہ خواہشیں اتنی بڑھا لی جائیں کہ وہ کل سے پہلے پوری ہی نہ ہوسکیں اور جب پوری ہوں تو آپ اس قابل ہی نہ ہوں کہ ان سے لطف اندوز ہوسکیں؟ اس سے بہتر نہیں کہ آپ کم کمائیں، اپنی اولاد کو اچھی تربیت اور کام کرنے کی ترغیب دیں اور خود درست وقت پہ خوش ہولیں۔