بات ساری یہ سعادت کی ہے میں نے اس گھر سے محبت کی ہے میں کہاں اور کہاں مدح حسینؓ یوں سمجھ لو کہ جسارت کی ہے ذکر حسینؓ تو ایک شرف ہے ’’گھر کا گھر اور شہادت کی نماز‘ اس طرح کس نے امامت کی ہے۔اس نے سجدے میں کٹا دی گردن۔اس نے دراصل عبادت کی ہے۔سعدؔ حق بات کہی ہے یعنی میں نے نسبت کی حفاظت کی ہے۔میں جس تقریب سعید کا تذکرہ کرنے جا رہا ہوں وہ فلسفہ شہادت پر منعقد کی گئی تھی اور اس فلسفہ شہادت کے مرکز و محور یقینا حضرت امام حسینؓ ہیں ۔اقبال نے تو قدم قدم پر شہادت حسینؓ کے معنی و مطالب یوں سمجھائے کہ قلم توڑ دیا۔’’ قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں‘‘۔’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری‘‘یہ مصرعے زریں اقوال کی طرح جگمگاتے ہیں: غریب و سادہ و رنگیںہے داستان حرم نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ سید قمر علی زیدی نے فلسفہ شہادت حسین کی بنیاد توحید پر رکھتے ہوئے فرمایا کہ بات تو ساری جذبوں کی ہے اور شعور کی اور پھر یقین کی۔ فلسفہ تو کئی لوگوں کے پاس ہے مگر اس والے فلسفے میں روشنی ہے نور ہے اور ہدایت ہے یہ خود سپردگی اور جاں سے گزر جانے کا نام ہے۔یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھتا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا۔ بات کلمہ طیبہ سے آغاز ہوئی کہ اصل میں تو اللہ کی حاکمیت پر سارا دارومدار ہے اور پھر اللہ کے رسولؐ کی شہادت ۔یہاں علم کا شجر کام نہیں آتا جب تک کہ دل میں ایمان راسخ نہ ہو جائے ۔جس ایمان کی دل تصدیق کرے اور عمل جس کی گواہی دے۔ سب سے پہلی شہادت تو توحید کی شہادت ہے ۔ اس حوالے سے سید قمر علی زیدی نے وہ روح پرور واقعہ بیان کیا کہ جس میں آپ ﷺ سے ملنے کے لئے ایک وفد نجران سے ملنے آیا اور انہوں نے حضورؐ سے سوالات کئے ۔حضور ﷺ نے ان سے مکالمہ کیا اور ان کے سوالوں کے جواب میں بتایا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے ، حضرت عیسیٰ ؑ اللہ کے پیغمبر ہیں، مزید یہ کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں تو یہ کلمتہ اللہ ہے، اللہ کی نشانی ہے وہ قادر مطلق وہ جو چاہے جیسے چاہے کرے سب کچھ اس کے اختیار میں ہے کہ حضرت مریم پاک ہیں اور اللہ کا امر اور اذن تھا تو حضرت عیسیٰ ؑ پیدا ہوئے۔اس گفتگو میں سب دلائل حضور ﷺ نے دیے مگر وہ ہٹ دھرمی پر اڑے رہے آخر پھر وہی ہوا کہ آخری دلیل دعا ہی رہ جاتی ہے۔حضورؐ نے سوچا کہ اس معاملے کو نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کفر کے پاس مستقل بیانیہ نہ آجائے۔تب وہاں آیت اتری وہی جسے آیت مباہلہ بھی کہا جاتا ہے آپؐ نے نجران کے وفد سے کہا کہ پھر ہمارے درمیان فیصلہ ایک صورت میں ہو سکتا ہے۔آپ بھی اپنے گھر والوں کو لائیں میں بھی لاتا ہوں۔اپنے بچوں اور عورتوں کو لائیں‘ میں بھی لاتا ہوں۔پھر دعا کرتے ہیں کہ جو ان میں سے جھوٹا ہے اس پر خدا کی لعنت ہو۔یہ سن کر ان کے لیڈر نے اپنے ساتھیوں سے کہا جلدی نہ کرو۔ہم نے اپنی کتابوں میں اس حوالے سے پڑھ رکھا ہے۔لگتا ہے یہ اللہ کے نبی سچے نبی ہیں۔ وہ منظر کیسا ہو گا کہ جب وہ سوچ کر واپس آئے تو دیکھا کہ نبی پاک ﷺ نے حضرت امام حسین جو کہ بہت چھوٹے تھے انہیں اپنے سینے سے لگایا ہوا تھا حضرت امام حسین کی انگلی تھام رکھی تھی آپؐ کے پیچھے کائنات بھر کی خواتین میں سب سے بلند مقام خاتون حضرت فاطمہؓ تھیں اور ساتھ حضرت علیؓ یہ پانچ لوگ اہل بیت سامنے تھے۔عاقب گھبرا گیا ان کے چہرے دیکھ کر ہی وہ ہل گیا اور کہا کہ یہ پرنور چہرے خود ہی شہادت ہیں حضور ﷺ نے کہا میں دعا کرتا ہوں اور تم نے آمین کہنا ہے عاقب نے دوستوں کو روک دیا اور کہا کہ یہ جو سامنے ہستیاں ہیں اگرچہ یہ دعا کریں تو پہاڑ بھی اپنے راستے سے ہٹ سکتا ہے۔گویا حضرت امام حسینؓ نے تو اپنے نانا کی گود میں اس وقت شہادت دی جب ابھی وہ بات نہیں کر سکتے تھے۔ حسنین کریمینؓ تو سوار دوش محمدؐ تھے آپ خطبہ چھوڑ کر انہیں اپنی گود میں بٹھا لیتے۔انہیں اپنے کاندھوں پر سوار کر کے بازار بھی لے جاتے۔اب اس سے آگے کیا ہو گا کہ ’’میں حسینؓ سے ہوں اور حسین مجھ سے ہے‘‘ ۔ حضور نے فرمایا ہے اے اللہ میں ان دونوں سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے پیار کر اور جو جو ان دونوں سے پیار کرے۔پھر آسمان نے دیکھا کہ کربلا کا سانحہ ہوا ،حضرت امام حسینؓ اپنے خاندان کے ساتھ اور جاں نثاروں کے ساتھ آئے اور ہر زبان پر ان کی شہادت کا تذکرہ ہے۔محمد علی جوہر نے کہا تھا: قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد پھر آپؓ تھے اور بہتر پاک نفوس: نقش قدم پہ اس کے کٹائے گئے ہیں سر اہل وفا نے صدقہ اتارا حسینؓ کا وہ شہادت کا سفر جو آقاؐ کی گود سے شروع ہوا تھا وہ کربلا میں آ کر اپنے منطقی انجام کو پہنچا مگر یہ سفر ایک لحاظ سے وہاں سے پھر شروع ہوا کہ جہاں بھی حق و باطل ٹکرائیں گے حضرت امام حسینؓ یاد آئیں گے۔ جوش ملیح آبادی نے کہا تھا: انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین شہادت حسینؓ تو قیامت تک کے انسانوں کے لئے ایک پیغام ہے ۔کفر اور ظلم سے انکار کا نام حسینؓ ہے۔ تقریب مرغزار کے سبزہ زار میں ہوئی کہ جہاں باقاعدگی سے درس ہوتا ہے، خدیجتہ الکبریٰ پارک میں اچھے خاصے لوگ جمع تھے اور مولانا حمید حسین سمیت کئی برگزیدہ لوگ تھے۔ مقرر سید قمر علی زیدی، غلام عباس جلوی ‘ ڈاکٹر ناصر قریشی‘ میاں نعیم سمیت کئی لوگ۔ ملک سعید صاحب نے انتہائی پرتکلف کھانے کا بندوست کیا تھا۔اس محفل کی ایک خوبصورتی اس میں سنایا گیا کلام تھا جو ایک نعت خواہ آصف نے سنایا، اس نے حفیظ تائب مرحوم کی لکھی ہوئی نعت بھی آغاز میں پڑھی: خوشبو ہے دو عالم میں تری اے گل چیدہ کس منہ سے بیاں ہوں ترے اوصاف حمیدہ