نہ جانے دسمبر میں کیا ہے کہ سب اسے محسوس کرتے ہیں۔ اب تو اس میں سردی بھی نہیں ہوتی۔ وگرنہ ایک زمانہ تھا کہ اس میں کورا پڑتا تھا، دانت بجتے تھے اور منہ سے دھوئیں نکلتے تھے۔ جب سے گلوبل وارمنگ ہوئی ہے موسم بدل گئے ہیں تو اس کا اثر دسمبر پر بھی پڑا ہے کہ وہ ٹھٹھرتی راتیں رخصت ہو گئی ہیں۔ مجھے بچپن یاد ہے کہ ہم دسمبر کے مہینے میں رات کو لحاف اوڑھ کر بیٹھتے اور گنے چوستے۔ بہن بھائیوں میں لمبا چھلکا اتارنے کا مقابلہ ہوتا۔ اب تو ہمارے بچوں کو گنڈیری چوسنا بھی نہیں آتی۔ نانی جان دال اور السی کی پنیاں بنا کر ہمیں بھیجتیں اور بھی کئی لوازمات اس یخ بستہ مہینے کے تھے۔ دسمبر کے مہینے میں ہمیں اور کچھ یاد آئے نہ آئے مگر عرش صدیقی صاحب ضرور یاد آتے ہیں کہ انہوں نے ایک نظم ’’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘‘ ایسی کہی تھی کہ ان کا ٹریڈ مارک بن گئی، حالانکہ وہ ایک بہت اعلیٰ افسانہ نگار تھے ’’باہر کفن میں پائوں‘‘کہانوں کا مجموعہ تھا۔ شاعری میں ’’دیدۂ یعقوب‘‘،’’محبت لفظ تھا میرا‘‘ اور ’’ہر موجِ ہوا تیز‘‘۔ ان کا تعلق ملتان سے تھا۔ پچیس سال ادھر کا ایک مشاعرہ یاد آ گیا جو لاہور میں ہوا تھا تو وہ تشریف لائے۔ وجیہہ قد کاٹھ، سرپر ہیٹ اور مسکراہٹ بکھیرتا ہوا ایک خوش شکل شاعر۔انہوں نے ملتے معانقہ کیا۔ ہم ایک ہوٹل میں داخل ہوئے۔ پروگرام کوئی تھا انہوں نے اپنے ساتھ ہی بٹھا لیا اور پھر کچھ باتیں اِدھر اُدھر کی۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ ان کی نظم ’’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘‘ نے انہیں اتنی شہرت دی کہ حد ہی ہو گئی۔ ہمارے ایسے شاعر تو بہت ہیں جن کو ایک ایک شعر نے مشہور کیا بلکہ اکثر کا تو شعر ہی باقی رہ گیا وہ خود گم ہو گئے مگر نظم کے معاملے کم ہی ہونگے جن کو ایک نظم نے مشہور کر دیا۔ یقینا آپ نظم بھی پڑھنا چاہیں گے: ’’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھامیں ڈوب جائے گا اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا اسے کہنا ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں ہے اسے کہنا شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں، اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا تو کیسے برف پگھلے گی اسے کہنا کہ لوٹ آئے‘‘ دیکھیے بات تو چل رہی تھی جناب عرش صدیقی کے دسمبر کی۔ مگر ’’اسے کہنا‘‘ کے دو لفظوں سے ہمیں ہمارے نہایت پیارے دوست سرور مجاز یاد آ گئے کہ ’’اسے کہنا‘‘ والی غزل انہوں نے اپنے شعری مجموعہ کہ صفحہ اول پر لکھ کر ہمیں وہ تحفہ دیا تھا: اس سمت چلے ہو تو بس اتنا اسے کہنا اب کوئی نہیں حرفِ تمنا اسے کہنا زرخیز زمینیں کبھی بنجر نہیں ہوتیں دریا ہی بدل لیتے ہیں رستہ اسے کہنا دسمبر کا پالا اپنی جگہ مگر ہمیں تو دسمبر کی دھوپ بھی ستائی ہے اور یاد آتی ہے کہ ہم اس دھوپ میں اولڈ کیمپس سے باہر لان میں یا کمروں کی سیڑھیوں پر جا بیٹھتے کہ دھوپ سیدھی ادھر آتی۔ کوئی کہتا کہ میڈم آج کلاسیں لے گی اور ہم بے ساختہ کہتے ’’سردیوں کی اس دھوپ میں جانا کون کلاسیں پڑھتا ہے‘‘ اس دھوپ کی قدر وہی کر سکتا ہے جسے میری طرح کچھ زیادہ ہی سردی لگتی ہو۔ مجھے 1997ء کا دسمبر یاد آیا کہ جب انتیس یا تیس روز سورج نہیں نکلا۔ یہ طویل دورانیہ تھا سرد ترین بھی ۔ اتفاق سے میں اور آصف شفیع کراچی کے لیے ٹرین پر روانہ ہوئے۔ حیدر آباد پہنچ کر سورج ذرا سا نظر آیا مگر جب گاڑی کراچی پہنچی تو سورج غائب۔ ہم تو سوچنے لگے کہ کیا سورج ہم سے چھپ رہا ہے، اوپر سے یہ بھی ہوا کہ سرد ہوا آنے لگی، پتہ چلا کہ یہ کوئٹہ کی ہوا ہے۔ ایک دلچسپ بات مجھے یاد آئی کہ پہلی مرتبہ ٹی ہائوس میں شہزاد احمد سے ملاقات ہوئی بہت محبت سے ملے۔ میں نے انہیں بتایا کہ ان کا شعری مجموعہ ’’صدف‘‘ پڑھ چکا ہوں۔ کہنے لگے گھر پر آئو۔ میں نے ایڈریس پوچھا تو کہنے لگے دسمبرزھن میں رکھو۔ دسمبر کی آخری تاریخ یعنی "31D" آفیسرز کالونی۔ اس سے یہ بھی یاد رہا کہ دسمبر میں اکتیس دن ہوتے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں دسمبر کبھی بھی اتنا شدید نہیں جتنا یورپ وغیرہ میں ہے۔ وہاں تو یہ مہینہ منجمد کر دینے والا ہوتا ہے۔ کیٹس کی ایک نظم بھی ہے دسمبر پر جس میں وہ سرد ہوائوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتاہے کہ ’’اے برفا دینے والی ہوائو۔ میرا خیال ہے جما دینے کا ترجمہ برفادینا میں نے درست ہی کیا ہو گا۔ اس پختگی میں ایک اداسی بھی ہوتی ہے۔ بہرحال دسمبر سے وابستہ ایک اور مہتی ہوئی یاد دسمبر کو چھٹیاں ہیں۔ جو دسمبر کے آخری دنوں میں ہوتی ہیں۔ اس مرتبہ عثمان بزدار نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے شاید یہ چھٹیاں بڑھا دی ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے سموگ کی چھٹیاں بھی انہی اختیارات کے بل بوتے پر دی تھیں۔ پھر 25دسمبر کا بڑا دن بھی تو ہے۔ دسمبر کے مہینے میں ایک تھکاوٹ کا احساس بھی ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے پورا سال گزار لیا ہے، حالانکہ اس میں ہمارا کیا کمال ہے کہ سال نے گزر ہی جانا تھا۔ پتہ نہیں پھر بھی اخبارات میں فیچر چھپتے ہیں کہ سال میں گزر جانے والے لوگ یا ہونے والے واقعات یا اس نوع کی اور باتیں۔ دیکھا جائے تو یہ ہماری تقسیم ہے وگرنہ وقت تو تسلسل کے ساتھ جاری ہے، اس سے بے نیاز کہ یہ جنوری ہے یا دسمبر۔ وقت ہمارے چہرے پر کہنگی کے آثار چھوڑتے ہوئے گزرتا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یہ مہینہ شادیوں کے لیے بہت اچھا ہے۔اس مہینے کی سب سے اچھی غذا مچھلی ہے۔ ویسے تو ہر اس مہینے میں مچھلی کھائی جاتی ہے جس کے آخر میں ’’رے‘‘ آتی ہے۔ ویسے تو ساگ اور مکئی کی روٹی کا بھی جواب نہیں اور ناشتے میں مولی کا پراٹھا۔ برف پوش پہاڑ اور برف میں لپٹی وادیاں سب فطرت کا حسن ہے۔ ساری باتیں اپنی جگہ مگر لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے۔ کہ کشمیر کے مظلوم بھی تو ہمارے سامنے ہیں کہ سوا سو دن ہو گئے ان کو محصور ہوئے۔ عمران خان کی تقریر کے بعد طویل خاموشی تا ہم غنیمت ہے کہ جماعت اسلامی انہیں یاد رکھے ہوئے ہے اور وہ 22دسمبر کو کشمیر مارچ کر رہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ شاید اس مارچ سے حکمران جاگ جائیں مگر دسمبر کی راتیں بہت طویل ہیں اور رضائی کے اندر نیند بھی بہت آتی ہے اور ’’سونے والوں کو برے ہیں یہ جگانے والے‘‘ کشمیر کے مجاہدین کی جرأتوں کے نام ایک شعر: روشنی بن کے اندھیروں میں اتر جاتے ہیں ہم وہی لوگ ہیں جو جاں سے گزر جاتے ہیں