افغانستان کی موجودہ حکومت نہایت تیزی سے تحلیل ہو رہی ہے۔جس حکومت کی جڑیں عوام میں نہ ہوں اور جس کا انحصار مکمل طور پر بیرونی طاقت پر ہو وہ کس طرح پائیدار ہو سکتی ہے۔طالبان کی فوج مسلسل پیشقدمی کر رہی ہے اور حکومت کی فوج پس قدمی پر مجبور ہے۔افغانستان کی واحد شخصیت جو اب بھی پرامید ہے وہ صدر اشرف غنی ہے۔وہ آج بھی طالبان کو اقتدار میں حصہ دینے کی مضحکہ خیز پیشکش کر رہے ہیں۔صدر اشرف غنی نے آرمی چیف عبدالولی احمد زئی کو برطرف کر کے جنرل ہیبت اللہ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا ہے۔شاید انہیں اندازہ نہیں کہ ان حالات میں آرمی چیف کی برطرفی ان کے عام سپاہی کے مورال پر کس طرح اثر انداز ہو گی۔ افغانستان کی سرکاری فوج امریکی فوج کی تربیت یافتہ اور جدید ترین اسلحے سے لیس ہے۔سرکاری فوج کی تعداد تقریباً 3لاکھ اور طالبان کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے امریکہ کا خیال تھا کہ اپنی تعداد اور اسلحہ کے بل بوتے پر سرکاری فوج کم از کم تین سال تک اشرف غنی کی حکومت کو قائم رکھ سکے گی۔اب خود امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ طالبان تیس سے نوے دن کے اندر پورے افغانستان پر قبضہ کر لیں گے۔تاہم غیر جانبدار مبصرین اس تخمینے کو بھی امریکی حکومت کی خوش فہمی سمجھتے ہیں اور طالبان کے جوش و جذبے اور عوامی حمایت کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ طالبان اگلے چند ہفتوں میں دارالحکومت تک پہنچ جائیں گے۔ لندن میں افغانستان کے سابق سفیر احمد ولی مسعود کا خیالی ہے کہ افغان فوجی بدعنوان حکومت کیلئے لڑنے کی بجائے طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں۔اس نظریے کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ اکثر محاذوں پر سرکاری فوج نے لڑنے کی بجائے ہتھیار ڈالنے کو ترجیح دی ہے۔کئی جگہ پر سرکاری فوج نے اپنے جدید اسلحہ سمیت طالبان کی فوج میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔امریکہ حسب سابق نہتے افغانوں پر بمباری کر کے یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ سرکاری فوج اور اپنی کٹھ پتلی حکومت کی مدد کر رہا ہے۔حالانکہ امریکہ کی بمباری موجودہ حکومت کو عوام کے نظروں میں قابل نفرت بنا رہی ہے اور ان کے امریکی پٹھو ہونے کا ثبوت مہیا کر رہی ہے، افغان قوم دنیا کی آزاد منش ترین قوم ہے اور افغانوں نے آج تک کسی بھی فاتح کی غلامی قبول نہیں کی۔افغان قوم نے ماضی میں برطانیہ کو شکست دی اور ہمارے سامنے روس کی طاقت کو زمین بوس کیا اور روس کو توڑ پھوڑ کر کئی نئی آزاد ریاستوں کو جنم دیا۔آخر میں امریکی فوج اور اس کے اتحادی پچاس ممالک کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔امریکہ نے دو ہزار ارب ڈالر اس جنگ میں جھونک دیے، لیکن افغان قوم کے عزم مصمم کو شکست نہ دیے سکے۔اب امریکہ اپنی واضح شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے اور پاکستان پر طالبان کی مدد کا الزام لگا رہا ہے۔یہ الزام یقینا جھوٹا ہے۔پاکستان نے تاریخ سے سبق سیکھا ہے اور اس دفعہ کسی بھی فریق کا ساتھ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔اگر اس الزام کو درست مان لیا جائے تو پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ پاکستان کی حمایت سے طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اپنے حواریوں سمیت لوہے کے چنے چبوائے ہیں اور عبرت ناک شکست سے دوچار کیا ہے۔بعض امریکی فوجی ماہرین یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ جو عمدہ ترین سٹریٹجی طالبان استعمال کر رہے ہیں وہ طالبان کے بس کی بات نہیں بلکہ کوئی باقاعدہ فوج اس کے پیچھے ہے اور ان کا اشارہ پاکستان آرمی کی طرف ہے۔جس طرح پاکستان نے اپنی پرانی افغان پالیسی سے سبق سیکھاہے‘اسی طرح آج کے طالبان بھی مختلف ہیں۔موجودہ افغان طالبان کی پالیسی کے بغور مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں پہلے والی شدت پسندی اور ظلم و ستم والی روش نہیں ہے۔وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی بات چیت کی گنجائش رکھتے ہیں۔مغربی تعلیم اور حقوق نسواں کے لئے بھی ان کی پالیسی مثبت ہے۔وہ تعلیمی اداروں کے جلائو گھیرائو کی پالیسی ترک کر چکے ہیں۔باہر کی دنیا سے بھی وہ رابطہ رکھنا چاہتے ہیں اور برداشت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ان کا اعلان ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں اور ضروری لچک دکھانے کے لئے تیار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ شمالی علاقہ جات کے لئے بھی قابل قبول ہو گئے ہیں اور ان کے پرانے مخالفین بھی قابل لحاظ تعداد میں ان سے مل چکے ہیں۔شاید کچھ لوگ خوف کی وجہ سے بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو موجودہ افغان حکومت کی کرپشن‘لوٹ کھسوٹ اور امریکہ نوازی کی وجہ سے طالبان کو ترجیح دے رہے ہیں۔قائم مقام وزیر خزانہ خالد پائندہ کے استعفے اور بیرون ملک فرار اور نائب وزیر خارجہ کا استعفیٰ شاید اس وجہ سے ہوا کہ انہیں نوشتہ دیوار صاف نظر آ رہی ہے،یہ موجودہ افغان حکومت پر عدم اعتماد ہے اور اس کا اثر سرکاری افواج کے مورال پر بھی صاف نظر آ رہا ہے۔لگتا ہے کہ امریکی ایجنسیوں کی توقعات سے بھی جلدی طالبان پورے افغانستان پر قبضہ کر لیں گے۔امریکہ طالبان کے خلاف اپنا اثر ورسوخ استعمال کر رہا ہے۔وہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر زور دے رہا ہے کہ وہ طاقت کے زور پر وجود میں آنے والی حکومت کو تسلیم نہ کریں حالانکہ کہ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر امریکہ خود طالبان کی حیثیت کو تسلیم کر چکا ہے۔خود امریکہ نے اپنے پرامن انخلا کے لئے طالبان سے تحریری معاہدہ کیا تھا جو کہ ان کی حیثیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔مزید برآں جب امریکہ یہ کہتا ہے کہ طاقت کے زور پر وجود میں آنے والی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے تو وہ حقیقتاً یہ تسلیم کرتا ہے کہ طالبان اپنی طاقت کے زور پر عنقریب پورے افغانستان پہ قابض ہونے والے ہیں۔اپنے سب سے بڑے اتحادی کی اس پیشین گوئی کے بعد اگر سرکاری افواج ہتھیار نہ ڈالیں تو کیا کریں۔تادم تحریم طالبان 16 صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہو چکے ہیں اور گمان غالب ہے کہ وہ آئندہ دو ہفتوں میں کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔سرکاری افواج کے ہتھیار ڈالنے کی رفتار ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جائے گی۔امریکی افواج کواب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ اگر کسی بھی ملک کے عوام متحد ہو جائیں تو بڑی سے بڑی فوج بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔امریکی حکومت کو اب اپنے عوام کو بھی جواب دینا پڑے گا کہ دو ہزار ارب ڈالر خرچ کر کے امریکی حکومت نے اپنے عوام کی کیا خدمت کی ہے اور امریکہ کے لئے کون سا تمغہ حاصل کیا ہے۔جس سنجیدگی اور متانت سے طالبان کام لے رہے ہیں‘اس سے یہی لگتا ہے کہ عسکری کامیابی کے مکمل ہوتے ہی طالبان ملک میں انتخابات کا اعلان کر دیں گے اور امریکہ کا یہ جواز بھی ختم کر دیں گے کہ طالبان صرف طاقت کے ذریعے حکومت میں آئے ہیں۔ تاریخ میں پہلی دفعہ کسی پاکستانی حکومت نے بھی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور امریکی ڈکٹیشن کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے۔عمران خان سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ پہلے حکمران ہیں جس نے امریکہ کو آئینہ دکھایا ہے۔آئندہ آنے والی حکومتوں کے لئے بھی یہ ایک سبق ہے کہ امریکہ کے سامنے انکار کرنے سے نہ آسمان گرتا ہے اور نہ زمین پھٹتی ہے اور غیرت مند اقوام اگر کھڑی ہو جائیں تو فتح ان کا مقدر بن جاتی ہے۔