اسلام آباد امریکہ سے تعلقات بہتر بنانا چاہتا ہے۔ کم سے کم ہمارے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے بیانات سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن واشنگٹن ہمیں خاص لفٹ نہیں کروا رہا ،جیسا کہ صدر بائیڈن کے روّیہ سے ظاہر ہے۔ انہیں برسراقتدار آئے ایک برس ہوگیا لیکن انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فون پر بات کرنا گوارا نہیں کیا۔عام طور سے امریکی دانشوروں میں پاکستان کے بارے میں منفی سوچ پائی جاتی ہے۔ واشنگٹن میں یہ خیال عام ہے کہ پاکستانی ریاست نے افغانستان میں امریکہ کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا ۔اگرچہ پاکستان بظاہر امریکہ کا اتحادی تھا لیکن ساتھ ساتھ خفیہ طور پر افغان طالبان کی مدد کرتا رہا۔ پاکستان سے منحرف لبرل دانشوروں اور صحافیوں نے اس رائے کو پختہ بنانے میں امریکیوں کا ساتھ دیا۔ امریکہ میں بااثربھارتی لابی بھی سرگرم ہے۔ اس نے پاکستان کے خلاف امریکی پالیسی سازوں کے ذہنوں میں زہر گھولا ہے۔کابل سے امریکہ کے انخلا کے بعدہمارے حکمرانوں نے غیر محتاط زبان استعمال کی جس سے حالات مزید خراب ہوگئے۔ سفارت کاری میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے پڑتے ہیں۔ خاص طور سے جب آپ کا واسطہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک سے ہو۔ ایک طرف تو ہم بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکہ سے ایسے تزویراتی تعلقات بنانا چاہتے ہیں جن کی بنیاد معاشی مفادات اور تعاون پر ہو۔ دوسری طرف افغانستان میں اس کی شکست پر سرکاری سطح پر شادیانے بجاتے رہے۔ ایک سپر پاور کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ جس ملک کی مالی امداد کے سہارے ہم ساٹھ ستّر سال سے معیشت چلاتے رہے اس کی سرِ عام توہین سفارتی اعتبار سے محتاط طرز عمل نہیں تھا۔ امریکہ کا چین سے بڑھتا ہوا تناؤ اور مسابقت پاک امریکہ تعلقات کو پیچیدہ بنانے کا اہم سبب ہے۔ اسلام آباد کے بیجنگ کے ساتھ تزویراتی تعلقات ہیں۔ ہم سی پیک منصوبہ میں چین کے شریک کار ہیں۔ یہ ہمارے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے کی خاطر پاکستان اپنے قابل اعتماد دوست چین کو ہر گز نہیں چھوڑ سکتا۔ہماری بیشتر عسکری ضروریات بیجنگ پوری کرتا ہے۔ ہمارے جنگی جہاز(جے ٹین) ہوں یا جدید ترین بحری جنگی جہاز یا فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ۔ یہ سب ہتھیار چین سے حاصل کیے گئے ہیں۔ طویل عرصہ سے ہم امریکہ سے کوئی جنگی سامان نہیں خرید رہے۔ نہ امریکہ ہمیں اسلحہ دینے کو تیار ہے۔بیس پچیس سال پہلے اس نے ہم سے ایف سولہ بیچنے کی رقم لے کر معاہدہ توڑ دیا تھا اور بمشکل ادا شدہ رقم واپس کی تھی۔ہم اپنے ہمسایہ ملک چین کو چھوڑ کر امریکی کیمپ میں شامل نہیں ہوسکتے۔ سفارتی اعتبار سے بیجنگ ہمیشہ ہماری مدد کو آتا ہے۔ جب دو برس پہلے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ضم کرنے کا اعلان کیا تو چین نے اس معاملہ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا ۔ صرف چین اور ترکی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ امریکہ نے چین کو محدود کرنے کے لیے بھارت کو گلے سے لگایا ہوا ہے۔ امریکہ کے نزدیک پاکستان کی اہمیت کی ایک وجہ افغانستان اور وسط ایشیا سے ہماری قربت ہے۔ جب تک امریکی فوجیں افغانستان میں تعینات تھیں امریکہ انہیں رسد مہیا کرنے کے لیے ہماری زمین استعمال کرتا تھا۔ اسے اپنے آدمی بحفاظت افغانستان سے نکالنے کے لیے اسلام آباد کے تعاون کی ضرورت تھی۔ لیکن انخلا کے بعد ہماری یہ اہمیت کم ہوگئی ہے۔اب پاکستان کی اہمیت یہ ہے کہ افغانستان ایک بار پھر عالمی سطح پر دہشت گردی کرنے والی تنظیموں کا مرکز نہ بنے۔ وہاں پر مختلف شدت پسند تنظیمیں دوبارہ منظم نہ ہوں۔ افغان سرزمین سے دنیا کو منشیات کی اسمگلنگ کو روکا جائے۔ ا س مقصد کے لیے اسے پاکستان سے انٹیلی جنس درکار ہوگی۔ امریکی پاکستان میں ایسے الیکٹرانک آلات نصب کرنے اور جاسوسی مرکز بنانے کے خواہشمند ہوسکتے ہیں جن سے وہ افغانستان پر نظر رکھ سکیں۔ یہ مطالبہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان افغانستان میں مخصوص مقامات پر ڈرون حملے کرنے کیلیے امریکہ سے تعاون کرے۔ اسے فضائی رسائی مہیّا کرے۔ جب امریکی میڈیا نے وزیراعظم عمران خان سے پوچھا کہ کیا پاکستان امریکہ کو فضائی اڈے دے سکتا ہے تو انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’قطعی نہیں۔‘ قرائن بتاتے ہیں کہ یوں سرِ عام انکار کرنے سے انکل سام کی اَنا کو ٹھیس لگی۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرد مہری پیدا ہوگئی۔ وسط ایشیا کی روس سے قربت کے باعث امریکہ کے طویل مدتی مفادات ہیں۔پاکستان ان ملکوں کا قریبی ہمسایہ ہے اور امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرسکتا ہے لیکن افغان معاملہ کے باعث دونوں ملکوںکے درمیان بات چیت کا عمل رُک گیا ‘ اشتراک ِعمل تو دُور کی بات ہے۔ بہرحال‘ ان تمام اختلافات کے باوجود امریکہ نے پاکستان سے قطعِ تعلق نہیں کیا۔ واشنگٹن نے پاکستان کو کورونا ویکسین مہیا کرنے میں فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون سے پاک فوج کو پچاس کروڑ امداد دی گئی ۔مقصد ہے کہ امریکی فوج کا پاکستان کے دفاعی ادارے سے کچھ نہ کچھ تعلق قائم رہے۔ امریکہ نے آئی ایم ایف پروگرام سے پاکستان کوقرض مہیا کرنے کے مخالفت نہیں کی البتہ اس کی شرائط کر نرم بنانے میں ماضی کی طرح اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی پاکستان کی گردن پر لٹک رہی ہے۔ جب تک امریکہ نہیں چاہے گا یہ خطرہ ہمارے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ شائد امریکی حکمران اس بات کا انتظار کررہے ہیں کہ پاکستان اپنے معاشی بحران کے باعث اتنا مجبور و بے بس ہوجائے کہ اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دے اور اس کی شرائط پر تعلقات آگے بڑھانے پر راضی ہوجائے۔پاکستان میں ایسے سیاستدان اور اعلیٰ سرکاری افسران موجود ہیںجو ذاتی مفاد کی خاطر انکل سام کی خدمت گزاری کے لیے تیار ہیں۔قومی سیاست کے کرگس امید لگائے بیٹھے ہیں کہ معاشی بحران کی وجہ سے انہیں داؤ لگانے کا موقع مل جائے گاکہ وہ امریکی کھیل کھیل سکیں۔ آجکل پاکستان میں امریکی لابی زور لگارہی ہے کہ پاکستان چین سے تعلقات کم کرکے امریکہ کا ساتھی بن جائے۔ یہ چورن بیچنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکہ سے تعلقات کی بہتری کی صورت میں ہمارا معاشی بحران دُور ہوجائے گا۔عوام کی معاشی مشکلات تو شائد دُور نہ ہوں لیکن ہماری اشرافیہ ضرور نہال ہوجائے گی۔ ہمارے امیر طبقہ کا امریکی خیرات کے بغیر گزارہ نہیںہوتا۔ پاکستان کا طویل مدتی مفاد اس میں ہے کہ ہم معاشی تنگدستی کے چند برس صبر وتحمل سے کاٹ لیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔ امریکہ سے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں لیکن معاشی امداد کے لیے نہیں‘تجارت کے فروغ کیلیے اور چین سے دوستی کی قیمت پر تو ہرگز نہیں۔