مجھ سا کوئی جہان میں نادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی ہو خوابوں سی دل نواز حقیقت نہیں کوئی یہ بھی نہ ہو تودرد کا درمان بھی نہ ہو ادھر تو یہ ہے کہ خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا‘ اور پھر اس کو کوئی کیا کرے کہ روز اک خواب دکھاتا ہے چلا جاتا ہے۔بہرحال جب تک آنکھیں ہیں تب تک خواب بھی ہیں۔ تاہم خواب اور حقیقت میں فرق تو ہے۔ خواب بن جائے یا حقیقت خواب لگنے لگے۔ محرومیوں کا ہم نے گلہ تک نہیں کیا۔ لیکن یہ کیا کہ دل میں یہ ارمان بھی نہ ہو فی الحال تو سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے اور حکومت کے اکابرین بھی بے بس نظر آتے ہیں کہ کچھ ڈلیور کر کے دکھا سکیں۔ فی الحال تو سب کچھ پچھلی حکومت پر ڈالا جا رہا ہے حتیٰ کہ موجودہ خوفناک حادثہ بھی سعد رفیق پر ڈال دیا گیا ہے کوئی یہاں کیا کہے کہ حکومت تین سال گزار چکی ہے۔ سچی بات ہے کہ مجھے بلاول کی بات اچھی لگی کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں ٹرین حادثے کو ہی موضوع بنانے کی بات کی اور وہ احسن اقبال کو کاغذی عہدے دار نہ کہتے تو ان کی بات میں زیادہ وزن آ جاتا اب وزیر ریلوے اعظم سواتی نے حادثہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے لیکن اس سے کون سا مرنے والے واپس آ جائیں گے۔ شاید شاعر نے ایسے موقع پر کہا ہو گا: سب لوگ مطمئن ہیں فقط اتنی بات پر منصف یہ مانتا ہے وہ حق پر نہیں رہا سواتی صاحب فی الفور استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا کہ عمران خاں کی کہی ہوئی بات بھی رہ جاتی حکومت کو ریلوے کی طرف یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ ابسے لوگوں کو سزا ضرور دیں جو خراب گاڑی کی عجلت میں عارضی مرمت کر کے چلا دیتے ہیں اور لوگوں کی زندگیاں دائو پر لگ جاتی ہیں اس وقت خود کو یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری قوم پر ایک افسردگی اور اداسی چھائی ہوئی ہے ٹرین حادثے کے بعد کینیڈا میں اسلامو فوبیہ کے زیر اثر ایک ٹرک ڈرائیور کا ایک مسلمان خاندان کو بے دردی سے کچل دیتا دل دہلا دینے والی دہشت گردی ہے۔ اس پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اچھا ردعمل دیا اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن کو یکجا ہو کر کوئی لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے نیوزی لینڈ کی جیسنڈرا نے تو بہت مثبت اقدام کیا تھا اب تو پورے یورپ کو سوچنا ہو گا۔ مگر اصل ذمہ داری تو ہماری ہے۔یورپ اور فرانس خاص طور پر آزادی اظہار کی بات کرتے ہیں ابھی ایک آدمی نے فرانسیسی صدر میکفون کو سرعام تھپڑ جڑ دیا مگر اس اظہار پر دو سکیورٹی کے بندوں نے اس کو پکڑ لیا۔ اب انہیں سمجھ آ جانی چاہیے کہ آپ کی آزادی دوسرے کی ۔۔۔۔۔ہے ۔ ہمارے اپنے پیارے وطن میں بھی صورت حال بہت تشویش ناک ہے کراچی میں ایک رہائشی سکیم پر لوگوں کا حملہ اور نفرت کا اظہار۔ اس پر پریس کانفرنسیں چل رہی ہیں کہ ایم کیو ایم چلا رہی ہے کہ یہ منصوبہ بندی کے تحت وہاں کے رہائشیوں کے مکان نشانہ بنے۔ اگر کسی رہائشی کالونی نے جگہ پر قبضہ کیا ہے تو یہ پندرہ سال بعد سندھ حکومت کو خیال کیوں آیا حالانکہ وہ تو ہائوسنگ سکیم بنانے والے پارٹنر تھے یقینا یہ بات افسوسناک ہے کہ کسی بھی رہائشی پرحملہ کیا جائے مگر دل میں آتی ہے کہ اب شور مچانے والوں سے یہ تو پوچھا جائے کہ آپ کو اس وقت ذرا خیال نہیں آتا تھا جب آپ صرف قربانی کی کھال نہ ملنے پر متعلقہ شخص کے گھر پر کراس لگا دیا کرتے تھے۔ بھتہ نہ ملنے پر مارکیٹ ہی کو آگ لگا دیا کرتے تھے اور پھر دل دہلا دینے والی وہ آگ جس میں اڑھائی سو لوگ کوئلہ بن گئے اور آپ نے مورد الزام بلکہ مجرم فیکٹری والوں کو بنایا مکافات عمل ‘ مکافات عمل۔ آگ تو آگ ہے آپ کے دامن پہ بھی آ سکتی ہے: میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا خدا کے لئے سوچیے یہ وطن ہمارا آپ کی بھی تین نسلیں جوان ۔۔۔۔۔۔ہوئی ہیں۔ آپ ہرگز بھی مہاجر نہیں۔ بلاول کو بھی سوچنا ہو گا کہ وہ بھی شیشے کے محل میں ہیں اور وہ محل تو ملا بھی تحفے میں ہے اور تحفے ویسے ہی نہیں مل جایا کرتے۔ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر چھپے گا نہیں۔ آپ ویسے بھی بادشاہ ہیں کہ آپ کی سواری کے آگے آ کر کوئی مر جائے تو اس کا نوٹس بھی نہیں لیا جاتا۔ ایسے لطیف ساحل کا شعر سامنے آ گیا: تری سواری تلے آ کے مر گیا ہے جو ترا قریب سے دیدار کرنے والا تھا چلیے کچھ بات روز مرہ کی بھی ہو جائے کہ بے پناہ گرمی شروع ہو گئی ہے پنجاب میں بھی 45ڈگری ہے اور اس کی نیلنگ 48ڈگری کی بتائی جا رہی ہے اس گرمی میں بھی انڈے 150روپے درجن ہیں خیر حکومت کے بقول مہنگائی میں زبردست کمی آئی ہے۔ اگر بتا دوں تو تو آپ سنجیدگی سے ہنسنے لگیں گے۔ مگر اخبار تو آپ نے دیکھ لیا ہو گا۔92نیوز کے پہلے صفحہ پر خبر ہے کہ اس بات پر وزیر خزانہ نے حکام کی تعریف کی ہے کہ مہنگائی میں پورے 0.47فیصد کمی آئی ہے۔ یعنی سو روپے کے پیچھے پچاس پیسے۔ ذھن میں رہے 4.50فیصد سے بڑھ کر مہنگائی 10.50فیصد ہو چکی آخر میں ذرا سا تذکرہ فرید احمد پراچہ صاحب کی خود نوشت ’’عمر رواں‘‘ کی ۔۔۔۔۔۔دینا چاہتا ہوں کہ مجھے مل گئی ہے اور میرے مطالعہ میں ہے۔ میرے معزز قارئین انشاء اللہ میں اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔ یقین مانیے یہ اتنی دلچسپ اور معلومات سے پر ہے کہ میں کئی صفحات یونہی پڑھ گیا کئی جگہ تو میں رک گیا اور تحریر کا لطف لیتا رہا مثلاً ایوب خان کے مقابلہ میں محترمہ فاطمہ جناح الیکشن لڑ رہی تھیں اور مولانا مودودی محترمہ فاطمہ جناح کو پوری طرح سپورٹ کر رہے تھے ایک جگہ تقریر میں مولانا کا جملہ دیکھیے’’ایک طرف ایک مرد ہے جس میں مرد ہونے کے علاوہ کوئی خوبی نہیں اور محترمہ فاطمہ جناح میں عورت ہونے کے علاوہ کوئی خامی نہیں‘‘ اور پھر ایک جلسے میں محترم فرید پراچہ کے والد مکرم گلزار احمد مظاہری نے الیکشن کی مناسبت سے پھول ایوب کا انتخابی نشان تھا اور لالٹین فاطمہ جناح کی لالٹن ایک شعر پڑھا: اک شمع جلی جلنے کے لئے اک پھول کھلا مرجھانے کو